لاہور: (ویب ڈیسک) گزشتہ دنوں ایم ٹی جے کے نام سے ایک کپڑوں کا برانڈ شروع کیا گیا ہے، جو پاکستان کے معروف مبلغ مولانا طارق جمیل کے نام پر رجسٹرڈ ہے۔ یہ برانڈ کیوں قائم کیا؟ انہوں نے خود اس کی وضاحت کر دی ہے۔
دراصل جب خبریں میڈیا پر چلیں کہ مولانا طارق جمیل نے ایک برانڈ شروع کرتے ہوئے اسے ایم ٹی جے کے نام سے رجسٹرڈ کروا لیا ہے تو چہ مگوئیاں ہونے لگیں اور لوگ مختلف قسم کے تبصرے کرنے لگے۔
سوشل میڈیا پر صارفین سوال پوچھنے لگے کہ یہ کمپنی کس چیز کی ہوگی اور کیا اب اس کے ساتھ مولانا طارق جمیل اپنی دینی سرگرمیاں بھی جاری رکھیں گے یا نہیں؟
سوشل میڈیا پر یہ بحث بڑھی تو مولانا طارق جمیل نے خود اس کی وضاحت دینا مناسب سمجھا اور ایک ویڈیو پیغام جاری کیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ وہ مدرسوں کے انتظامات اور معاملات کو چلانے کے لیے زکوۃ کے علاوہ ایک کاروبار کرنے کا بہت عرصہ سے سوچ رہے تھے۔ تاہم اب کورونا وائرس کی وجہ سے انہیں اپنی اس سوچ کو عملی جامہ پہنانے کا موقع ملا۔
انہوں نے ایک اہم نقطہ کی جانب عوام کی توجہ مبذول کرائی اور ان کی اصلاح کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے یہاں علمائے کرام کا تجارت یا کاروبار کرنا غلط سمجھا جاتا ہے، تاہم یہ بات پتا نہیں یہاں کہاں سے آ گئی ہے۔
بہت سے لوگ طارق جمیل کے اس فیصلے پر انھیں مبارکباد دے رہے ہیں اور ان کے لیے دعا گو ہیں مگر دوسری طرف اس نے ایک بحث کو بھی جنم دیا ہے کسی مذہبی سکالر کی جانب سے کاروبار کرنے پر اعتراض کیوں اٹھایا جاتا ہے۔
مولانا طارق جمیل کا کہنا تھا کہ ہمارے یہاں مولوی کا تصور یہ ہے کہ وہ بھیک مانگتا ہے اور وہ لوگوں سے مانگتا ہے۔ ہم نے کسی کاروباری نیت سے یہ کام نہیں کیا اور نہ کسی کے مقابلے میں کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میری خواہش ہے کہ اس کاروبا سے کم از کم میرے مدارس اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جائیں اور میرے دنیا سے جانے کے بعد بھی یہ سلسلہ چلتا رہے۔