لاہور: (دنیا نیوز) ایوان بالا کے انتخابات سے قبل سیاسی جماعتوں کے مابین ہونے والی سیاسی کشمکش کے دوران مختلف نوعیت کے تنازعات سر اٹھاتے رہے۔ کبھی کوئی سکینڈل آیا تو کبھی ناراض اراکین اپنی ہی پارٹی پر الزامات لگاتے دکھائی دئیے۔ کہیں سینئر سیاسی شخصیات پیچیدہ معاملات کو اچانک سلجھا لینے میں کامیاب ہوگئی تو کہیں اراکین کے اغواءکا شوروغوغا مچایا جاتا رہا۔
آئیے ایسے چند تنازعات و اسکینڈلز کا جائزہ لیتے ہیں۔
ویڈیو سکینڈل
2021ء کے سینیٹ الیکشن سے قبل ہی سینیٹ الیکشن 2018ء میں تحریک انصاف کے خیبر پختونخوا سے منتخب ایم پی ایز کی خرید و فروخت کی ویڈیو منظر عام پر آ گئی۔ ویڈیو میں ارکان اسمبلی کو پیسے وصول اور ادا کرتے دیکھا جا سکتا تھا۔ یہ ویڈیو تین سال بعد ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب حکومت سینیٹ انتخابات کے بارے میں ایک ایسی قانون سازی کے لیے کوششیں کر رہی ہے جس میں وہ سینیٹ کے انتخاب خفیہ رائے شماری کی بجائے اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانا چاہتی ہے۔ اسد قیصر کے مطابق عمران خان نے 2018 میں بتایا تھا اس طرح کا لین دین ہوا ہے اور ساری پارٹی کا فیصلہ تھا کہ ان ممبران کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔حکومت کی جانب سے دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ یہ ویڈیو بظاہر 2018 میں سینیٹ انتخابات سے پہلے بنائی گئی تھی جب خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف مطلوبہ تعداد میں ووٹرز ہونے کے باوجود اپنے دو افراد کو سینیٹر منتخب نہیں کرا پائی تھی اور پاکستان پیپلز پارٹی جس کے پاس مطلوبہ تعداد میں اراکین اسمبلی نہیں ہونے کے باوجود اپنے امیدوار کامیاب کروا لیے تھے۔ بظاہر اس ویڈیو میں سابق دور حکومت کے اراکین اسمبلی نظر آئے ہیں جن میں سلطان محمد خان، عبید مایار، سردار ادریس، معراج ہمایوں، دینہ ناز اور پیپلز پارٹی کے محمد علی شاہ باچا نظر شامل ہیں۔ اس ویڈیو میں عبید مایار کو دکھایا گیا ہے کہ ان کو نوٹوں کی گڈیاں دی جاتی ہیں اور وہ خود اپنے ہاتھوں سے بیگ میں رکھتے ہیں۔ رکن صوبائی اسمبلی دینہ ناز میز پر پڑی گڈیاں گنتی ہوئی دیکھی جا سکتی ہیں جبکہ سردار ادریس کے سامنے پڑے بیگ میں ایک اور شخص نوٹوں کی گڈیاں رکھتے نظر آتا ہے۔اس ویڈیو کے بارے میں متضاد اطلاعات سامنے آئیںجس کے بارے میں اراکین اسمبلی وقتاً فوقتاً اپنا موقف پیش کر رہے ہیں۔
صدارتی ریفرنس
صدر پاکستان عارف علوی نے سپریم کورٹ سے رائے لینے کے لیے عدالت عظمی میں صدارتی ریفرنس 23 دسمبر 2020 ءکو دائر کیا تھا۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے چار جنوری کو اس کی پہلی سماعت کی تھی۔عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد 25 فروری کو فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔صدارتی ریفرنس میں کہا گیا تھا کہ ماضی میں ہونے والے سینیٹ کے انتخابات آئین کے تحت نہیں کروائے گئے، اوپن بیلٹ سے سینیٹ الیکشن میں شفافیت آئے گی، خفیہ ووٹنگ کے سبب سینیٹ الیکشن کے بعد شفافیت پر سوال اٹھائے جاتے ہیں، خفیہ ووٹنگ سے ارکان کی خرید و فروخت کے لیے منی لانڈرنگ کا پیسہ استعمال ہوتا ہے۔وزیرِاعظم کی تجویز پر سینیٹ کے الیکشن اوپن بیلٹ یا شو آف ہینڈز کے ذریعے کرانے کے عوامی اہمیت کے معاملے پر صدر نے سپریم کورٹ کی رائے مانگی تھی۔ریفرنس میں آئین میں ترمیم کیے بغیر الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن (6) 122 میں ترمیم کرنے پر سپریم کورٹ کی رائے مانگی گئی تھی۔ریفرنس میں کہا گیا کہ سینیٹ انتخابات آئین کے تحت نہیں کرائے جاتے۔ سینیٹ کا انتخاب الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت کرایا جاتا ہے جس کے سبب سینیٹ میں خفیہ رائے شماری سے ارکان کی خرید و فروخت میں کالا دھن استعمال ہوتا ہے۔ریفرنس کے مطابق خفیہ ووٹنگ کی وجہ سے سینیٹ الیکشن کے بعد شفافیت پر سوال اٹھائے جاتے ہیں۔ریفرنس میں اس بات کی تائید کی گئی کہ سینیٹ کا الیکشن اوپن بیلٹ کے تحت ہو سکتا ہے اور اس کے ذریعے سینیٹ الیکشن میں شفافیت آئے گی۔ساتھ ہی اس اہم آئینی نکتے پرسپریم کورٹ سے رائے بھی طلب کی گئی۔وزیراعظم عمران خان نے نومبر میں اپوزیشن سے کہا تھا کہ حکومت شو آف ہینڈ کے ذریعے سینیٹ انتخابات کروانا چاہتی ہے۔وزیراعظم عمران خان کے مطابق پارلیمنٹ میں حکومت کے پاس دو تہائی اکثریت نہیں اس لیے اپوزیشن کو چاہیے کہ وہ اس کے لیے حکومت کے ساتھ تعاون کرے تاکہ ہارس ٹریڈنگ کا خاتمہ ہو سکے۔ البتہ ملکی سیاسی ماحول کی وجہ سے ابھی تک حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اس معاملے پر کسی قسم کا رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے حکومت نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ 25 فروری کو سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے دائر کیے گئے صدارتی ریفرنس پر اپنا فیصلہ محفوظ کیا۔یکم مارچ کو سپریم کورٹ نے سینیٹ الیکشن اوپن بیلٹ یا خفیہ بیلٹ کے ذریعے کرانے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر اپنی محفوظ شدہ رائے جاری کرتے ہوئے کہا کہ سینیٹ انتخابات قانون کی بجائے آئین کے تحت ہوں گے۔ سپریم کورٹ کی جاری کردہ رائے کے مطابق سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے نہیں کروائے جا سکتے۔ اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو سینیٹ الیکشن شفاف طریقے سے کرانے کیلئے تمام اقدامات کو یقینی بنانے کی ہدایت بھی کی۔
صدارتی آرڈیننس
گزشتہ ماہ ایوان بالا کے انتخابات خفیہ رائے شماری کے بجائے اوپن بیلٹ کے ذریعے کروانے کے لیے ایک صدارتی آرڈیننس جاری کیا گیا۔صدر عارف علوی کی جانب سے دستخط شدہ اس آرڈیننس کو انہی کی طرف سے سپریم کورٹ میں دائر کردہ صدارتی ریفرنس پر پاکستان کی اعلیٰ عدالت کی رائے سے مشروط کیا گیا ہے۔”الیکشن ترمیمی آرڈیننس 2021“ میں پاکستان کے الیکشن ایکٹ 2017 کی سینیٹ الیکشن کے حوالے سے تین شقوں 81، 122 اور 185 میں ترمیم کی گئی ہے۔اس میں کہا گیا ہے کہ اگر سپریم کورٹ کی رائے اس حق میں ہو گی تو قوانین میں تبدیلی کے ساتھ اوپن ووٹنگ کرائی جائے گی۔آرڈیننس کے مطابق اوپن ووٹنگ کی صورت میں سیاسی جماعتوں کا سربراہ یا نمائندہ ووٹ دیکھنے کی درخواست کر سکے گا۔ پاکستان کے الیکشن ایکٹ 2017 کے مطابق ہر تین سال بعد ایوان بالا کے انتخابات میں خفیہ بیلٹ کا طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہے۔
لیاقت جتوئی کا سینیٹ ٹکٹ کی خرید وفروخت کا الزام
پاکستان تحریک انصاف کے سندھ سے ٹیکنوکریٹ سیٹ پر سینیٹ میں ٹکٹ ہولڈر سیف اللہ ابڑو اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور سابق وزیراعلیٰ سندھ لیاقت جتوئی کے درمیان اختلافات نے اس وقت شدت اختیار کی جب لیاقت جتوئی نے الزام عائد کیا کہ سینیٹ انتخابات کیلئے ایک ٹکٹ 35 کروڑ روپے کا فروخت ہوا ہے۔لیاقت جتوئی کے مطابق سیف اللہ ابڑو کو سینیٹ کا ٹکٹ دینے کا فیصلہ رات کی تاریکی میں گورنر ہاو ¿س میں کیا گیا۔ لیاقت جتوئی نے سندھ اسمبلی سے سیف اللہ ابڑو کو سینیٹ انتخابات کیلئے ٹکٹ دیئے جانے سے متعلق اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کچھ لوگ ایک جگہ بیٹھ کرسینیٹ کی ٹکٹوں کافیصلہ کرتے ہیں۔لیاقت جتوئی کے مطابق سیف اللہ ابڑو 6 ماہ پہلے تحریک انصاف میں آئے ہیں، ان کا ٹکٹ 35کروڑ روپے کا بکا ہے۔سندھ اسمبلی سے پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کی جانب سے سیف اللہ ابڑو اور فیصل واوڈا کو سینیٹ انتخابات کیلئے ٹکٹ جاری کرنے سے متعلق سندھ قیادت نے تحفظات کا اظہار کیا تھا اور وزیراعظم کو اس فیصلے پر نظر ثانی کیلئے خط بھی لکھا تھا۔تاہم بعد میں خبر سامنے آئی کہ وزیراعظم نے ان دونوں رہنماو ¿ں کو ٹکٹ جاری کرنے کے فیصلے سے متعلق پارٹی رہنماؤں کے تحفظات کو دور کردیا ہے اور فیصلے کو برقرار رکھا ہے۔
پرویز الہٰی کا سینیٹ الیکشن میں مفاہمتی کردار
مسلم لیگ ق) کے صدر او سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہیٰ ایک مرتبہ پھر اس وقت منظر عام پرآئے جب پنجاب سے تحریک انصاف، مسلم لیگ( ن) اور مسلم لیگ( ق) کے امیدوار بلا مقابلہ سینیٹر منتخب ہوئے۔ پرویز الہیٰ نے اپنی سیاسی مہارت کو بروئے کار لاتے ہوئے پنجاب کی دونوں بڑی جماعتوں میں جاری کشیدگی کے باوجود پنجاب اسمبلی میں سینیٹ کی 11 نشستوں پر تمام سینیٹرز کے بلا مقابلہ منتخب ہونے کیلئے مرکزی کردار ادا کیا، چوہدری پرویز الہیٰ کی جانب سے مفاہمتی پالیسی رنگ لے آئی اورپاکستان پیپلز پارٹی اور آزاد امیدواروں نے اپنے کاغذات نامزدگی واپس لے لیے جبکہ پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) کے اضافی امیدواروں نے بھی اپنے اپنے کاغذات نامزدگی واپس لیے۔ چوہدری پرویز الہیٰ نے پنجاب اسمبلی میں 10 اراکین ہونے کے باوجود ناصرف اپنے امیدوار کامل علی آغا کو پنجاب سے سینیٹر منتخب کروایا بلکہ اپنی سیاسی مہارت کے باعث ملکی سیاست کا رخ بھی بدل دیا ہے۔
تحریک انصاف اور بلوچستان عوامی پارٹی کے درمیان ڈیڈ لاک
پاکستان تحریک انصاف نے سینیٹ انتخابات کیلئے بلوچستان کی ٹیکنوکریٹ سیٹ سے عبدالقادر کو ٹکٹ جاری کیا تاہم پارٹی قیادت کے احتجاج کرنے پر عبدالقادر سے ٹکٹ واپس لے کر ظہور آغا کو ٹکٹ دے دیا گیا لیکن جانچ پرتال کرنے پر ظہور آغا کی پارٹی رکنیت معطل نکلی۔ عبدالقادر سینیٹ انتخابات کیلئے پاکستان تحریک انصاف اور بلوچستان عوامی پارٹی کے مشترکہ امیدوار تھے۔ پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے سینیٹ کا ٹکٹ واپس لیے جانے پر عبدالقادر نے آزاد حیثیت سے سینیٹ کے کاغذات نامزدگی جمع کرا دئیے۔ تحریک انصاف کی مقامی قیادت کی جانب سے مخالفت کیے جانے کے باوجود وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کی جماعت بی اے پی نے عبدالقادر کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔تحریک انصاف بلوچستان اور بلوچستان عوامی پارٹی کے اندر سے مخالفت کے باوجود وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے اعلانیہ عبدالقادر کی حمایت کا اعلان کیا ہے جو کہ تحریک انصاف کیلئے شدید تشویش کا باعث ہے۔
سندھ میں تحریک انصاف کا اراکین کے اغوا کا شور
یکم مارچ کو پی ٹی آئی کے رکن سندھ اسمبلی کریم بخش گبول کا ویڈیو بیان سامنے آیا جس میں انہوں نے اپنی پارٹی قیادت سے اختلافات کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایسے کسی شخص کو ووٹ نہیں دیں گے جس نے پیسے دے کر سینیٹ کا ٹکٹ لیا ہے۔ اس بیان کے جاری ہونے کے بعد سندھ کی سیاست میںاس وقت ہلچل مچ گئی جب پی ٹی آئی کے رکن سندھ اسمبلی خرم شیر زمان نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ان کی جماعت کے تین رکن اسمبلی اغوا ہو گئے ہیں، اور اس حوالے سے سندھ کو تنقید کا نشانہ بنایا، تاہم بعد میں مبینہ طور پر اغوا ہونے والے پاکستان تحریک انصاف کے ایک اور صوبائی رکن اسمبلی شہریار خان کا ویڈیو بیان سامنے آیا جس میں انہوں نے پی ٹی آئی کی جانب سے ارکان اسمبلی کے اغوا کی خبر کی تردید کی اور پارٹی سے اپنی اور دیگر اراکین کی ناراضگی کا اظہار کیا۔ 2 مارچ کو مبینہ طور پر اغوا ہونے والے تینوں صوبائی ارکان اسمبلی جب سندھ اسمبلی میں داخل ہوئے تو تحریک انصاف سندھ کے اراکین کی اپنی پارٹی کے منحرف اراکین کے ساتھ شدید ہنگامہ آرائی ہوئی۔
(تحریر: احمد ندیم، مہروز علی خان)