لاہور: (دنیا نیوز) سندھ میں جی ڈی اے کا ایک، پیپلز پارٹی کے 11، تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کے 2،2 امیدوار مدمقابل ہیں۔ خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کے 10، جمعیت علمائے اسلام، جماعت اسلامی اور عوامی نیشنل پارٹی کے 4، 4، مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور بی اے پی کا ایک ایک امیدوار مقابلے پر ہے۔ بلوچستان کی 12 نشستوں کے لیے 35 امیدواروں میں مقابلہ ہو رہا ہے۔
سینیٹ کی وفاقی نشست کے مقابلے پر سب سے زیادہ ہلچل مچی ہوئی ہے۔ پاکستان میں ایوان بالا کی نشستوں پر انتخابات ہمیشہ سے خصوصی اہمیت کے حامل رہے ہیں اور ہر حکومت کی کوشش یہی رہی ہے کہ وہ ایوان زیریں میں برتری حاصل کرنے کے بعد ایوان بالا میں بھی سبقت لے جائے ۔ اسی طرح اپوزیشن بھی اپنی پوزیشن بہتر سے بہتر بنانے کے لیے سر توڑ کوششیں کرتی ہے۔ ایوان بالا کے انتخابات کے لیے حکومتی و اپوزیشن جماعتوں نے کئی ماہ قبل ہی تیاری شروع کردی تھی۔ حکومت کی مکمل کوشش رہی کہ سینیٹ کے انتخابات میں خفیہ رائے شماری کے طریقہ کار کو تبدیل کرکے آرڈیننس کے ذریعے شو آف ہینڈ کے ذریعے ووٹنگ کے طریقہ کار کو نافذ العمل کرایا جائے، مگر وہ اس میں کامیاب نہیں ہوسکی۔
دوسری جانب اپوزیشن جماعتیں مصر تھیں کہ اس موقع پر حکومت کی جانب سے ووٹنگ کے طریقہ کار میں تبدیلی کی کوششیں نیک نیتی پر مبنی نہیں ہیں اس لیے سینیٹ انتخابات میں ووٹنگ کے پرانے طریقہ کار پر ہی عمل کیا جائے ۔ اس حوالے سے سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس پر محفوظ شدہ رائے سناتے ہوئے کہا کہ ایوان بالا کے انتخابات خفیہ رائے شماری کے ذریعے ہی ہونگے۔ سینیٹ انتخابات سے قبل مختلف تنازعات و اسکینڈلز منظر عام پر آتے رہے ، سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر ہارس ٹریڈنگ کے الزامات لگاتی رہیں تو کئی امیدوار اپنی جماعت کی جانب سے ٹکٹوں کی فروخت کے الزامات عائد کرتے رہے۔ایوان بالا کے انتخابات میں سینیٹرز کے چناﺅ کا طریقہ کار پیچیدہ اور انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں جب اپنے امیدوار کھڑے کرتی ہیں تو ان میں سے کئی جماعتیں ایسی ہوتیں ہیں جو چناﺅ کے طریقہ کار کے تحت اپنے سینیٹرز منتخب کرانے کے قابل نظر نہیں آتی مگر سیاسی داﺅ پیچ کے ذریعے یہ جماعتیں اراکین اسمبلی کی مقررہ تعداد نہ ہونے کے باوجود اپنے سینیٹرز بنوانے میں کامیاب ہوجاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انتخابات سے قبل ہی سیاسی گہماگہمی اپنے عروج پر پہنچ جاتی ہے۔ اس بار بھی یہی ہوا، گزشتہ کئی ماہ سے جاری اس ساری سیاسی ہلچل کے دوران آخر کار سینیٹ کے انتخابات آن پہنچے۔
نشستوں کی صورتحال
ایوان بالا کی 37نشستوں پر انتخابی مقابلہ ہوگا۔ 104کے ایوان میں سے فاٹا سے تعلق رکھنے والے 4سینیٹرز کے ریٹائر ہونے کے بعد یہ نشستیں ختم کردی گئی ہیں جس کے بعد ایوان بالا کی کل نشستوں کی تعداد 100ہوگئی ہے۔ فاٹا سے متعلقہ مزید 4سینیٹرز 2024میں ریٹائر ہوجائیں گے جس کے بعد فاٹا کی 8نشستوں کے حوالے سے فیصلہ کیا جائیگا کہ آیا یہ نشستیں خیبرپختونخوا کو دی جائینگی یا تمام صوبوں میں تقسیم کی جائیں گی۔ اس سال سینیٹ سے 52سینیٹرز ریٹائر ہوجائیں گے جن میں سے مسلم لیگ (ن) کے 17،پاکستان پیپلز پارٹی کے8، تحریک انصاف کے 7، متحدہ قومی موومنٹ کے 4، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے 2، جماعت اسلامی کے 1، عوامی نیشنل پارٹی کے 1، نیشنل پارٹی کے 2، پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے 2، بی این پی مینگل کے ایک، بلوچستان عوامی پارٹی کے 3اور 4آزاد سینیٹرز شامل ہیں۔ ان انتخابات میں سینیٹ کی 29جنرل،8ٹیکنوکریٹ،9خواتین اور 2اقلیتی نشستوں پر سیاسی جماعتوں کے درمیان انتخابی معرکہ ہوگا۔ان میں سے سندھ اور پنجاب 11، 11سینیٹرز جبکہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان 12،12سینیٹرز کا چناﺅ کریں گے۔ اس وقت حکومت کے مقابلے میں اپوزیشن جماعتیں ایک ہوچکی ہیں اور بھرپور طریقے سے حکومت کو ٹف ٹائم دے رہی ہیں۔
پنجاب کے حوالے سے دلچسپ صورتحال یہ سامنے آئی ہے کہ صوبے میں 11سینیٹرز کا چناﺅ بلا مقابلہ کرلیا گیا ہے۔ مسلم لیگ (ق) کا ایک اور مسلم لیگ( ن) اور تحریک انصاف کے 5،5 سینیٹرز بلا مقابلہ منتخب ہوچکے ہیں۔ پنجاب کی صورتحال کا سہرا مسلم لیگ (ق) کے رہنما پرویز الہٰی کے سر باندھا جارہا ہے ۔ دیگر صوبوں میں سے سندھ میں پیپلز پارٹی کے 11، پاکستان تحریک انصاف کے 2، ایم کیو ایم کے 2اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے ایک امیدوار مد مقابل ہیں۔اسی طرح خیبرپختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کے 10، جمعیت علمائے اسلام کے 4 امیدوار، عوامی نیشنل پارٹی کے 4امیدوار، جماعت اسلامی کے 4امیدوار ، پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک ایک اور بی اے پی کے بھی ایک امیدوار مد مقابل ہونگے۔ بلوچستان کی 12نشستوں کے لیے کل 35امیدوار مد مقابل ہونگے۔
سینیٹ کے انتخاب کا فارمولا
قانون کے مطابق سینیٹ کے انتخابات خفیہ رائے شماری اور ترجیحی ووٹ کی بنیاد پر منعقد کیے جاتے ہیں، جس کی گنتی کا طریقہ ءکارانتہائی پیچیدہ ہے۔ چاروں صوبائی اسمبلیاں تو سینیٹ کے انتخابات کا الیکٹورل کالج ہیں۔ چاروں صوبوں کے صوبائی کوٹے سے آنے والے سینیٹرز اپنے اپنے صوبے کی اسمبلی کے ارکان کے ووٹوں سے منتخب ہوں گے۔ اسلام آباد کے سینیٹرز کا انتخاب قومی اسمبلی کے ارکان کریں گے۔ فارمولے کے مطابق ایک نشست کے حصول کے لیے لازم قرار پانے والے ووٹوں کی تعداد کے فگر کو متعلقہ صوبائی اسمبلی کے ارکان کی ک ±ل تعداد کو مذکورہ صوبے کے حصے میں آنے والی سینیٹ کی موجود خالی نشستوں سے تقسیم کیا جائے گا۔ سندھ اسمبلی کے کل اراکین کی تعداد 168ہے اور اسمبلی میں سینیٹ کی 11نشستوں پر الیکشن ہورہے ہیں۔ ان میں سے 7جنرل نشستوں پر انتخابی معرکے میں حصہ لینے والے امیدواران کو فی نشست 22ووٹ درکار ہونگے اسی طرح ٹیکنوکریٹ کی دو نشستوں پر امیدواروں کوفی نشست 57ووٹ جبکہ خواتین کی دو نشستوں پر بھی امیدواروں کو فی نشست 57ووٹ درکار ہونگے۔اسی طرح خیبرپختونخوا کی اسمبلی میں کل اراکین کی تعداد 145ہے اور اسمبلی میں سینیٹ کی12نشستوں پر الیکشن ہورہے ہیں۔ ان میں سے 7جنرل نشستوں پر انتخابی معرکے میں حصہ لینے والے امیدواران کو فی نشست19ووٹ درکار ہونگے اسی طرح ٹیکنوکریٹ کی دو نشستوں پر امیدواروں کوفی نشست49ووٹ جبکہ خواتین کی دو نشستوں پر بھی امیدواروں کو فی نشست49ووٹ درکار ہونگے۔کے پی کے کی ایک اقلیتی نشست کے لیے امیدوار کو فتح کے لیے کم از کم 73ووٹ درکار ہونگے۔اسی طرح بلوچستان کی اسمبلی میں کل اراکین کی تعداد 65ہے اور اسمبلی میں سینیٹ کی12نشستوں پر الیکشن ہورہے ہیں۔ ان میں سے 7جنرل نشستوں پر انتخابی معرکے میں حصہ لینے والے امیدواران کو فی نشست9ووٹ درکار ہونگے ,اسی طرح ٹیکنوکریٹ کی دو نشستوں پر امیدواروں کوفی نشست22ووٹ جبکہ خواتین کی دو نشستوں پر بھی امیدواروں کو فی نشست22ووٹ درکار ہونگے۔بلوچستان کی ایک اقلیتی نشست پر امیدوار کو فتح کے لیے کم از کم 33ووٹ درکار ہونگے۔
سیاسی جماعتوں کے داﺅ پیچ
ایوان بالا کے انتخابات کا دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ سینیٹ کی نشستوں پر مقررہ تعداد نہ رکھنے کے باوجود سیاسی جماعتیں اپنے امیدوار کھڑے کردیتی ہیں اور پھر سیاسی کھیل کا آغاز کیا جاتا ہے جس کا نتیجہ انتخابی نتائج کے ساتھ ہی سامنے آتا ہے۔ اگر موجودہ صورتحال میں دیکھیں تو خیبرپختونخوا میں ٹیکنوکریٹ کی سیٹ پر پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنے سینئر رہنما فرحت اللہ بابر کو امیدوار نامزد کیا ہے۔ صوبے میں پیپلز پارٹی کے اراکین کی تعداد 5ہے جبکہ سینیٹ کی ٹیکنوکریٹ کی نشست پر کم از کم 49ووٹ درکار ہونگے۔ یعنی پیپلز پارٹی کو اپنے اتحادیوں سے 44ووٹ درکار ہونگے۔ اسی طرح مسلم لیگ( ن) نے کے پی کے میں عباس آفریدی کو جنرل نشست پر نامزد کیا ہے ۔ اس اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے 6اراکین ہیں جبکہ سینیٹ کی کے پی کے کی جنرل نشست پر کامیابی کے لیے کم از کم 19ووٹ درکار ہیں۔ مسلم لیگ( ن) اپنے امیدوار کی کامیابی کے لیے اتحادیوں کے 13ووٹوں کی جانب دیکھے گی۔ اسی طرح جماعت اسلامی نے کے پی کے میں جنرل ، ٹیکنوکریٹ، خواتین اور اقلیتی نشستوں پر ایک ایک امیدوار کھڑا کیا ہے جبکہ اس کے اسمبلی میں اراکین کی تعداد صرف 3ہے۔ اگر سندھ میں دیکھا جائے تو متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے خواتین کی نشست پر خالدہ اطیب کو نامزد کیا گیاہے۔ اس نشست پر کامیابی کے لیے متحدہ قومی موومنٹ کو 57ووٹ درکار ہیں جبکہ ان کے سندھ اسمبلی میں اراکین کی تعداد 21ہے۔ مطلوبہ ووٹوں کے لیے ایم کیو ایم کو اپنے اتحادیوں تحریک انصاف اور جی ڈی اے کے اراکین کی جانب دیکھنا ہوگا۔ سندھ اسمبلی کی دلچسپ صورتحال یہ بھی ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے تمام 11نشستوں پر امیدوار کھڑے کیے ہیں اور ان کی کامیابی کے لیے رابطے بھی کیے جاتے رہے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو سندھ اسمبلی میں 96اراکین کے ساتھ اکثریت میں ہونے اور سینیٹ کی سندھ سے اکثریتی نشستیں حاصل کرنے کے امکانات کے باوجود تمام نشستوںپر کامیابی انتخابی فارمولے کے تحت تو ممکن نظر نہیں آتی تاہم پیپلز پارٹی کی سیاسی حکمت عملی اسے کس حد تک کامیابی دلواتی ہے اس کے لیے ہمیں انتظار کرنا ہوگا۔
ایوان بالا کے انتخابات میں ممکنہ پارٹی پوزیشن
صوبائی حوالے سے بات کریں تو پنجاب میں سینٹ کی 11نشستوں پر امیدواران کی بلامقابلہ کامیابی کے بعد پاکستان مسلم لیگ( ن) اور پاکستان تحریک انصاف 5،5نشستوں جبکہ پاکستان مسلم لیگ( ق) ایک نشست حاصل کرچکی ہے۔ سندھ اسمبلی کا جائزہ لیں تو امکانی طور پر پاکستان پیپلز پارٹی 96اراکین کے ساتھ اکثریتی پارٹی ہے جبکہ تحریک انصاف 30، متحدہ قومی موومنٹ کے 21اور جی ڈی اے کے 14اراکین ہیں ۔ سینٹ کے انتخابی فارمولے کے تحت امکانی طور پر سندھ اسمبلی میں سینیٹ کی 7جنرل نشستوں میں سے 4پیپلز پارٹی، ایک تحریک انصاف ، ایک متحدہ قومی موومنٹ اور ایک جی ڈی اے جیت سکتی ہے جبکہ ٹیکنوکریٹ کی دو نشستوں میں سے پاکستان پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف ایک ایک نشست پر کامیابی حاصل کرسکتی ہیں۔ خواتین کی دو نشستوں پر پی پی پی اور ایم کیو ایم ایک ایک نشست لے سکتے ہیں۔
اسی طرح اگر خیبرپختونخوا اسمبلی میں سینیٹ کی نشستوں کا جائزہ لیں تو پاکستان تحریک انصاف 94اراکین کے ساتھ اکثریتی پارٹی ہے جبکہ جمعیت علمائے اسلام( ف) 15عوامی نیشنل پارٹی 12،مسلم لیگ (ن) 6،پاکستان پیپلز پارٹی 5 اور 4آزاد اراکین ہیں ۔ خیبرپختونخوا اسمبلی میں سینیٹ کی 7جنرل نشستوں پر انتخابی فارمولے کے تحت پاکستان تحریک انصاف کے 5، جمعیت علمائے اسلام کے ایک، اور عوامی نیشنل پارٹی کے امیدوار کے جیتنے کے امکانات ہیں۔ ٹیکنوکریٹ کی دو نشستوں پر پاکستان تحریک انصاف کے دونوں اراکین کی کامیابی کا امکان ہے جبکہ خواتین کی دونوں نشستوں اور اقلیتی ایک نشست پر بھی تحریک انصاف کی کامیابی کا امکان ہے۔
بلوچستان اسمبلی کا جائزہ لیں تو بلوچستان عوامی پارٹی 24اراکین کے ساتھ اکثریتی پارٹی ہے جبکہ جمعیت علمائے اسلام( ف) کے11 ، بی این پی مینگل کے 10،پاکستان تحریک انصاف کے 7اور عوامی نیشنل پارٹی کے 4اراکین ہیں۔ انتخابی فارمولے کے تحت بلوچستان عوامی پارٹی سینیٹ کی 7جنرل نشستوں پر 3پر کامیاب ہوسکتی ہے جبکہ عوامی نیشنل پارٹی ایک، بی این پی مینگل ایک اور جمعیت علمائے اسلام( ف) ایک نشست پر کامیاب ہوسکتے ہیں۔ایک نشست آزاد امیدوار لے سکتے ہیں۔ ٹیکنوکریٹ کی بات کریں تو دو نشستوں پر بلوچستان عوامی پارٹی کامیاب ہوسکتی ہے۔ خواتین کی دو نشستوں اور اقلیتی نشست پر بلوچستان عوامی پارٹی کی کامیابی کا امکان ہے۔
سینیٹ کی وفاقی نشستوں کی بات کی جائے تو اس کے حوالے سے ملکی سیاست میں سب سے زیادہ ہلچل مچی ہوئی ہے ۔ اس نشست پر پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے عبدالحفیظ شیخ مد مقابل ہیں۔ خواتین کی نشست پر تحریک انصاف کی فوزیہ ارشد اور مسلم لیگ( ن) کی فرزانہ کوثر کے درمیان مقابلہ ہے ۔ انتخابی فارمولے کے تحت دیکھا جائے تو دونوں نشستوں پر حکومتی اتحادکی کامیابی کے امکانات ہیں۔
یہ تمام صورتحال سینیٹ انتخابات میں استعمال کیے جانے والے فارمولے کے تحت امکانی پارٹی پوزیشن ہے۔ چونکہ پاکستانی سیاست میں انتخابی نتائج کے حوالے سے حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔واضح نظر آنے والے نتائج اچانک کسی بھی طرح بدل جاتے ہیں ، ماضی میں اس کی واضح مثال چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے موقع پر سامنے آچکی ہے۔ اس لیے حتمی نتائج کے لیے سینٹ انتخابات کے نتائج کا انتظار کرنا ہوگا۔
(تحریر: طارق حبیب)