لاہور: (دنیا نیوز) وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کا کہنا ہے کہ اپوزیشن ہماری اصلاحات مان لیتی تو چیئر مین سینیٹ ان کا ہوتا۔
دنیا نیوز کے پروگرام ’سوال عوام کا‘ میں گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ نظام کی بہتری کے لیے سب کو متحد ہونا ہو گا، اپوزیشن کی سپورٹ کی بجائے ہم کوئی قانون پاس نہیں کرا سکتے، قانون سازی مقننہ کے ذریعے ہو سکتی ہے۔ آئینی ترمیم کے لیے ہمیں اپوزیشن کی ضرورت ہوتی ہے۔ انتخابی اصلاحات کا بل کئی مہینے پہلے پیش کر چکے ہیں۔
پروگرام کے دوران انہوں نے کہا کہ سینیٹ الیکشن میں اب ہمارے پاس سادی اکثریت ہے، تحریک انصاف کو سینیٹ الیکشن میں جتنی سیٹیں چاہئیں تھی ہمیں مل گئیں۔ اتنخابی اصلاحات کے حوالے سے ہمیں الیکشن کمیشن سے سپورٹ نہیں ملی، سپریم کورٹ میں کیس چلا تو کہا گیا آئندہ الیکشن میں غور کریں گے۔
بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے وفاقی وزیر منصوبہ بندی کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومتوں کو بلدیاتی انتخابات کرانے چاہئیں، سندھ میں بلدیاتی امیدواروں کے پاس کوئی اختیارات نہیں، سندھ کے حوالے سے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی ہے، یہ درخواست بطور شہری دائر کی تھی۔ کراچی کے اختیارات کے حوالے سے سابق میئر محمد وسیم سے پوچھا جائے تو کہیں گے کہ ہمارے کوئی اختیارات نہیں تھے، جو آئین کی خلاف ورزی ہے۔ فعال لوکل گورنمنٹ سے جمہوریت مضبوط ہوگی۔
اسد عمر کا کہنا تھا کہ معیشت میں بہتری آ رہی ہے، نوکریاں بھی پیدا ہو رہی ہیں، پچھلے دو ماہ سے اعداد و شمار بہت مثبت انداز میں چل رہے ہیں، عوام کو روز گار مل رہا ہے، ایک کروڑ نوکریوں سے متعلق میرا خیال ہے ہم ہدف پورا نہ کر سکیں۔
انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس نے عالمی معیشت کا بیڑا غرق کر دیا، اس مشکل وقت سے پاکستان نکل رہا ہے۔ روزگار پیدا کرنے کے لیے حکومت کوشاں ہے۔
مہنگائی کے حوالے سے وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ حکومت کے لیے ملک میں سب سے بڑا چیلنج مہنگائی کا ہے، روپے کی قدر میں بہت بڑے پیمانے کمی آئی، یہ ن لیگ کے دور میں آنا شروع ہوئی اس وقت امریکی ڈالر 122 روپے کی سطح پر چلا گیا تھا اس وقت وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل تھے۔ بعد میں کچھ چیزیں منگوانے سے روپیہ پر بہت دباؤ پڑا اور روپیہ ڈی ویلیو ہوا اور مہنگائی میں اضافہ ہوا۔ عالمی منڈی میں کھانے پینے کی اشیاء مہنگی ہو رہی ہیں، مہنگائی پر قابو پانا حکومت کی اوّلین ترجیح ہے۔
بلاول بھٹو کی تنقید پر رد عمل دیتے ہوئے اسد عمر نے کہا کہ پی پی چیئر مین نے کہا تھا کہ دسمبر 2019ء میں عمران خان فارغ ہو جائیں گے، پھر کہا مارچ 2020ء میں عمران خان فارغ ہے پھر کہتے رہے کہ دسمبر 2020ء تک حکومت ختم ہو جائے گی۔ پھر کہا گیا مارچ میں حکومت چلی جائے گی۔ لیکن سینیٹ الیکشن بھی گزر گیا لیکن کچھ نہیں ہوا۔