تبدیلی میں وقت لگتا ہے، عوام کو صبر کرنا پڑے گا، وزیراعظم عمران خان

Published On 04 April,2021 07:21 pm

اسلام آباد: (دنیا نیوز) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ تبدیلی کو کوئی نہیں روک سکتا، تبدیلی تو آ رہی ہے، 35 سال سے جو لوگ ایک دوسرے کو کرپٹ کہہ رہے تھے، سب ایک پلیٹ فارم پر آ گئے، جو کہتے تھے ایک دوسرے کا پیٹ پھاڑ کر پیسہ نکالیں گے وہ ایک ہو گئے ہیں۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ تبدیلی میں وقت لگتا ہے، عوام کو صبر کرنا پڑے گا۔ کمزور طبقہ کی حفاظت کیلئے میں جہاد کر رہا ہوں، ساری قوم اس جہاد میں میرا ساتھ دے، ملکی معیشت بہتر ہو رہی ہے، پہلی بار روپیہ مضبوط ہونا شروع ہوا ہے، حکومت کے مثبت اقدامات کو اجاگر نہیں کیا گیا، ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کیلئے قرضے لینے پڑے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے براہ راست فون کالز کے ذریعے عوام کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے کیا۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ وہ سب سے پہلے قوم سے ایک اہم بات کرنا چاہتے ہیں، کورونا کی تیسری لہر انتہائی خطرناک ہے، اس لئے میں عوام کو تاکید کرتا ہوں کہ وہ ماسک کے بغیر نہ رہیں، یہ سب سے آسان کام ہے کہ ہم ماسک لگائیں، اﷲ تعالیٰ نے کورونا کی پہلی اور دوسری لہر کے دوران ہم پر خاص کرم کیا اور ہمیں بہت بڑی مشکل سے بچایا، اگر امریکہ، یورپ، برازیل، بھارت اور ایران کی طرح کی صورتحال پیدا ہو جاتی اور لمبے عرصہ کا لاک ڈائون کرنا پڑتا تو معاشی صورتحال جو پہلے ہی ابتر تھی، میں ہمیں مزید مشکلات سے گزرنا پڑتا، اﷲ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں مشکل وقت سے بچایا، معلوم نہیں کہ تیسری کہاں تک جائے گی، بھارت اور بنگلا دیش میں بھی تیسری لہر شدت سے حملہ آور ہے، یورپ میں ویکسین کے باوجود لاک ڈائون ہے اس لئے عوام کو چاہئے کہ وہ ایس او پیز پر عملدرآمد یقینی بنائیں، اس میں ان کا اور ہم سب کا فائدہ ہے، اگر کورونا اور زیادہ پھیل گیا تو لاک ڈائون کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔

وزیراعظم نے کہا کہ ساری دنیا میں لوگ کورونا سے متاثر ہیں لیکن غریب عوام پر اس کا اثر زیادہ ہوا ہے، امیر ملکوں میں بھی غریب لوگ زیادہ متاثر ہوئے ہیں، ایک اندازہ ہے کہ 15 کروڑ لوگ کورونا کے باعث غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ہیں، اپنے غریب عوام کا تحفظ کرنا ہماری ذمہ داری ہے اس لئے میں عوام پر زور دیتا ہوں کہ وہ بسوں، گاڑیوں اور عوامی مقامات پر ماسک کا استعمال کریں۔

وزیراعظم نے میرپور خاص سندھ سے ایک شہری کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی سے گیس کے کنویں مزید نہیں کھودے گئے، اب ہمیں یہ کام کر رہے ہیں، ملک سے نکلنے والے گیس میں کمی ہو رہی ہے اور ایل این جی کی مقدار بڑھ رہی ہے، یہ باہر سے منگوانی پڑتی ہے اور مہنگی ہے، ہم نے اس حوالہ سے نیا معاہدہ کیا ہے اور جس قیمت پر ماضی میں گیس حاصل کی جا رہی تھی ہم اس سے کم قیمت پر حاصل کرکے عوام کو اس سے بھی کم پیسوں میں دے رہے ہیں جس کی وجہ سے قرضے بڑھ رہے ہیں، 27 فیصد پاکستانیوں کو پائپ والی گیس میسر ہے، 73 فیصد کے پاس پائپ گیس کی سہولت نہیں ہے لیکن سبسڈی کی وجہ سے 73 فیصد پاکستانیوں پر 27 فیصد پاکستانیوں کو فراہم کی جانے والی سبسڈی کا بوجھ پڑتا ہے جس کی وجہ سے گیس کی مد میں قرضے بڑھتے ہیں اس صورتحال کا حل تلاش کر رہے ہیں۔

یونیورسٹی کی سہولت فراہم کرنے کے حوالہ سے سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ اعلیٰ تعلیم کی سہولت ایک نعمت ہے، اعلیٰ تعلیم سے ہی قومیں اوپر جاتی ہیں لیکن ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ ہم کس قسم کی تعلیم فراہم کریں، ہم یونیورسٹی تو بنا دیتے ہیں لیکن معیاری پروفیسرز اور فیکلٹی فراہم کرنا بھی ضروری ہے تبھی یونیورسٹی بنانے کا فائدہ ہے ورنہ ڈگریاں لے کر لوگ بے روزگار پھریں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہائیر ایجوکیشن کے نئے سربراہ کا تقرر کیا جا رہا ہے، ہم اپنے وژن کے مطابق ان کا تقرر کر رہے ہیں اور اس شعبہ میں بڑی تبدیلیاں لائیں گے، ہائیر ایجوکیشن کے پہلے سربراہ ہم نے نہیں لگائے تھے۔

مہنگائی اور بنیادی اشیاء کی قیمتیں بڑھنے کے حوالہ سے سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ اس مسئلہ کو سمجھنے کی ضرورت ہے، ایک مہنگائی وہ جسے انتظامی اقدامات سے بہتر کیا جا سکتا ہے، اس حوالہ سے ہم کام کر رہے ہیں۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ کسان اپنی سبزیاں اور پیداوار مارکیٹ میں جس قیمت پر فروخت کرتا ہے ریٹیل میں اس سے بہت زیادہ قیمت پر وہ چیزیں فروخت ہوتی ہیں، کسانوں کو اس کی پیداوار کے پورے پیسے نہیں ملتے، خرچہ بھی مشکل سے پورا ہوتا ہے لیکن شہر میں وہی چیزیں دگنی سے بھی زیادہ قیمت پر بکتی ہیں، اس طرح مڈل مین پیسہ بنا رہا ہے، ہم ایسا نظام لا رہے ہیں کہ منڈی میں عوام تک براہ راست کسان کی پیداوار پہنچے، اس سے کسان اور عوام دونوں کا فائدہ ہو گا،

لاہور میں یہ نظام شروع کر دیا ہے، باقی جگہ پر بھی یہ نظام لائیں گے۔ مہنگائی کی تیسری وجہ روپے کی قدر میں کمی تھی، ڈالر کے مقابلہ میں روپے کی قدر کم ہو گئی تھی لیکن اب روپیہ مستحکم ہو رہا ہے جس سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمت کم ہوئی ہے، روپے کی قدر میں کمی سے بجلی کی قیمتوں پر بھی اثر پڑتا ہے کیونکہ ماضی کے حکمرانوں نے ہم سے پہلے بجلی کے جو معاہدے کئے وہ ڈالرز میں ہیں اور ہم خوردنی تیل اور گھی سمیت بہت سی چیزیں باہر سے منگواتے ہیں، زرعی ملک ہونے کے باوجود 70 فیصد دالیں بیرون ملک سے درآمد کرتے ہیں جبکہ بارشیں درست وقت پر نہ ہونے سے ہمیں ایک سال میں 40 لاکھ ٹن گندم باہر سے منگوانا پڑی،

اس طرح روپے کی قدر گرنے سے مہنگائی میں اضافہ ہوا۔ وزیراعظم نے کہا کہ یہاں مافیاز بیٹھے ہوئے ہیں، قائداعظم نے بھی ذخیرہ اندوزوں کی بات کی تھی تھوڑے سے لوگ ہیں جو سٹہ کھیلتے ہیں، اس کی سب سے بڑی مثال چینی ہے جس کا ذخیرہ ہونے کے باوجود اس کی قیمت بڑھتی گئی، پہلے چینی کو برآمد کیا گیا، پھر مہنگی کی گئی کیونکہ یہاں بڑے بڑے مافیاز بیٹھے ہیں،

موجودہ حکومت پہلی حکومت ہے جس ان مافیاز کا تعاقب کیا اور ایف آئی اے سے انکوائری کرائی جس سے پتہ چلا کہ کس طرح تھوڑے سے لوگ اس کھیل میں اربوں روپیہ بناتے ہیں، آٹے پر بھی ذخیرہ اندوزی کرکے قیمت مصنوعی طریقہ سے بڑھائی جاتی ہے لیکن ہم اس حوالہ سے کام کر رہے ہیں اس لئے عوام کو گھبرانے کی ضرورت ہے، اس سال نئی انقلابی زرعی پالیسی لائیں گے اور زرعی ڈھانچہ کو تبدیل کریں گے، اس چیز کا پہلے سے جائزہ لیں گے کہ کس سیزن میں کس چیز کی ضرورت ہے تاکہ بروقت اس کیلئے اقدامات کئے جا سکیں،

موجودہ حکومت مہنگائی کے خاتمہ کیلئے کام کر رہی ہے اور اس پر قابو پا کر دکھائے گی۔ صحت کے شعبہ سے متعلق سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ صحت کے شعبہ میں بہت بڑا انقلاب آ رہا ہے، یہ انقلاب صحت کارڈز کے ذریعے برپا ہو رہا ہے اور پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلی بار ہو رہا ہے کہ عوام کو یونیورسل ہیلتھ کوریج فراہم کی جا رہی ہے، پنجاب، خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان میں ہر شہری کو ہیلتھ انشورنس فراہم کی جائے گی اور وہ کسی بھی ہسپتال میں جا کر 10 لاکھ روپے تک کا علاج معالجہ کرا سکے گا، اس طرح کا نظام دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں بھی نہیں ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ ماضی میں صحت کے نظام کو نیشنلائز کرنا غلط اقدام تھا، صحت کارڈز کے اجرا سے نجی شعبہ کو ترقی ملے گی، حکومت نے میڈیکل آلات بھی ڈیوٹی فری کر دیئے ہیں اور ہسپتالوں کیلئے متروکہ وقف املاک، اوقاف اور سرکاری زمینیں فراہم کی جا رہی ہیں تاکہ دیہات میں بھی عوام کو صحت کی سہولیات میسر ہو سکیں۔

بیرون ملک سے ایک شہری کے سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کورونا کی صورتحال سے بہتر طور پر نمٹنے میں کامیاب ہوا ہے، بھارت کی معیشت کورونا سے بری طرح متاثر ہوئی ہے، یو اے ای اور سعودی عرب بھی مشکلات کا شکار ہیں، میری دونوں ممالک کے حکمرانوں سے بات ہوئی ہے، بیرون ملک پاکستانی ہمارا اثاثہ ہیں اور ہم ان کی بڑی قدر کرتے ہیں، ان کی وجہ سے پاکستان میں ریکارڈ زرمبادلہ آ رہا ہے، ان کے مسائل حل کئے جائیں گے۔

کرپشن کے خلاف اقدامات کے حوالہ سے سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ کرپشن ایسا کینسر ہے جو صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا کے ہر غریب ملک میں ہے، امیر ملکوں کو بھی کرپشن تباہ کر دیتی ہے اور دیمک کی طرح چاٹ لیتی ہے۔ ملائیشیا کو مہاتیر محمد اٹھا کر بہت اوپر لے گئے لیکن پھر وہاں ایک کرپٹ وزیراعظم آ گیا جو پیسہ چوری کرکے ملک سے باہر لے گیا اور ملائیشیا مقروض ہو گیا۔

جب بھی کسی ملک کا حکمران کرپشن کرتا ہے تو ملک تباہ ہو جاتا ہے اور اس سے ایک بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ کرپشن کی اربوں کی رقم حوالہ ہنڈی کے ذریعے آف شور اکائونٹس میں بھجوائی جاتی ہے اور لندن اور دنیا کے دوسرے مہنگے علاقوں میں کرپٹ حکمران جائیدادیں خریدتے ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ اقوام متحدہ کے پینل کی رپورٹ کے مطابق غریب ملکوں سے ہر سال ایک ہزار ارب ڈالر چوری ہو کر آف شور اکائونٹس میں جاتے ہیں، غریب ملکوں کے کرپٹ حکمران آف شور ٹیکس ہیونز میں یہ پیسہ چھپاتے ہیں یا لندن اور دبئی میں محلات بناتے ہیں، ہمارا ان ملکوں میں سات ہزار ارب ڈالر پڑا ہے، ہم پوری کوشش کر رہے ہیں کہ امیر ملک ہمارا یہ پیسہ واپس کریں جو یہاں سے لوٹ کر لے جایا گیا ہے اور جس کی وجہ سے ہم غریب ہوئے ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ کرپشن صرف قانون سے ختم نہیں ہوتی بلکہ کرپشن کے خاتمہ کیلئے پوری قوم کو مل کر لڑنا پڑتا ہے، عمران خان اکیلا یہ کام نہیں کر سکتا، عدلیہ ساتھ نہیں دے گی تو ہم کرپشن سے نہیں لڑ سکتے، نیب نے صحیح کیسز بنانے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے یہاں کرپٹ لوگوں کو برا نہیں سمجھا جاتا اور ان کو عزت دی جاتی ہے، نیب میں جب کرپٹ لوگوں کے کیسز ہوتے ہیں تو ان پر پھول نچھاور کئے جاتے ہیں، جب تک پورا معاشرہ کرپشن کو برا نہیں سمجھے گا یہ ختم نہیں ہو گی،

پاکستان کی بقاء اس جنگ میں ہے، ہم نے قانون کی بالادستی کی جنگ مل کر لڑنی ہے، تنہا عمران خان یہ جنگ نہیں لڑ سکتا، امیر اور غریب کیلئے قانون کا یکساں اطلاق کرنا ہو گا، پاکستان میں قانون کی بالادستی کی جنگ چل رہی ہے، ایک چھوٹا سا طبقہ جس کو خون چوس کر پیسہ بنانے کی عادت ہے وہ ایک طرف اکٹھا ہے اور دوسری طرف ہم ہیں، عمران خان ان کو این آر او نہیں دے گا، چین نے 450 وزیروں کو کرپشن پر جیلوں میں ڈالا ہے کیونکہ ان کی قیادت کو پتہ ہے کہ ملک کو خوشحال اور طاقتور کرنا ہے تو کرپٹ لوگوں پر ہاتھ ڈالنا ہے۔

اس موقع پر وزیراعظم نے مشیر خصوصی برائے احتساب و داخلہ شہزاد اکبر کو ہدایت کی کہ وہ عوام کو آگاہ کریں کہ کس طرح چینی کے معاملہ پر سٹہ کھیلا گیا جس پر شہزاد اکبر نے بتایا کہ چینی کی قیمت 60ء کی دہائی سے بڑھتی رہی ہے، جب بھی موقع ملتا ہے ذخیرہ اندوز اپنا دائو کھیلتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ قانون کے مطابق 15 دن سے زیادہ فارورڈ سیل نہیں کی جا سکتی، ہمارے پاس ملوں میں وافر چینی کا ذخیرہ موجود ہوتا ہے اور لاگت کے مطابق اس کی قیمت طے ہو سکتی ہے اور ہونی چاہئے لیکن سٹے باز صورتحال کے مطابق قیمتیں بڑھاتے ہیں، ہمارے پاس مصدقہ اطلاع ہے کہ رمضان سے پہلے سٹے بازوں کا منظم گروہ چینی کی قیمت بہت زیادہ بڑھانے جا رہا تھا، سٹے بازوں نے واٹس ایپ گروپ بنا رکھے ہیں اور بلیک مارکیٹ کا غیر قانونی دھندہ چلا رہے ہیں،

شوگر ملوں کی معاونت سے یہ دھندہ چل رہا تھا جوا کھیلنے والے چینی کی قیمتیں طے کر رہے تھے، ملز مالکان بھی اس کا فائدہ اٹھا رہے تھے، اب پہلی بار چینی کی ایکس مل پرائس فکس کر دی گئی ہے، پیداواری لاگت کے مطابق 80 روپے ایکس مل قیمت مقرر ہے لیکن یہ ناجائز منافع خور 100 روپے تک چینی فروخت کر رہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ایک روپیہ قیمت بڑھنے سے یہ مافیا ساڑھے پانچ ارب روپے کا منافع کماتا تھا، اس طرح اربوں روپے کی ناجائز منافع خوری کی گئی، 40 سے 50 لوگوں پر مشتمل چند گروہ یہ دھندہ چلا رہے تھے اور اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کی جا رہی تھی۔ وزیراعظم عمران خان نے اس موقع پر کہا کہ یہ سلسلہ 50، 60 سالوں سے جاری تھی، تھوڑے لوگ جو وسائل پر قابض ہیں وہ پیسہ بنا رہے تھے جبکہ عام اور غریب لوگ لٹ رہے تھے، عوام کو خون چوس کر پیسے بنائے جاتے رہے،

ساری سیاسی جماعتوں میں ان لوگوں کا اثر ہے، تاریخ میں پہلی بار کسی حکومت نے ان پر ہاتھ ڈالا جس پر یہ انہوں نے اکٹھے ہو کر شور مچانا شروع کر دیا اور عدالتوں میں جا کر انکوائری رکوانے کی بھی کوشش کی، اداروں میں بھی ان کے لوگ گھسے ہوئے ہیں، جن کا مارکیٹ میں بڑا شیئر تھا ہم نے ان کے خلاف کارروائی کی تاکہ عوام کو مہنگائی سے بچا سکیں۔ کراچی کے ایک شہری کی طرف سے ایک بڑی نجی ہائوسنگ سوسائٹی کی طرف سے پلاٹ کا قبضہ نہ دینے اور پیسے ہڑپ کرنے سے متعلق سوال کے جواب میں وزیراعظم نے یقین دلایا کہ وہ اس سلسلہ میں فوری کارروائی کرائیں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ قبضہ مافیا عوام کیلئے بہت بڑا عذاب ہے،

یہ حکمرانوں کے ساتھ مل کر قبضے کرتے ہیں، حکومت کے لوگوں اور پولیس کی طرف سے بھی انہیں تحفظ ملتا ہے، اسلام آباد میں ہم نے 450 ارب روپے کی زمین واگزار کرائی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ پہلی بار حکومت کسی قبضہ مافیا کی پشت پر نہیں ہے لیکن یہ طاقتور لوگ ہیں، لاہور میں ایک سیاسی جماعت کے افراد سے اربوں روپے کی زمین واپس لی گئی ہے، ایک سیاسی جماعت کی سربراہ نے قبضہ مافیا کے ساتھ کھڑے ہو کر تصویریں بنوائیں، یہ قبضے سیاسی لوگوں، وزیروں اور ایم این ایز کی مدد سے ہوتے ہیں، پنجاب میں ہم یہ قبضے چھڑا رہے ہیں۔ انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ قبضہ مافیا کے خلاف حکومت سے رجوع کریں، حکومت انہیں ان کے پلاٹ اور زمین کا قبضہ واگزار کرا کر دے گی،

ہم نے قبضہ مافیا کے خلاف اعلان جنگ کیا ہوا ہے۔ چلاس سے ایک شہری کی دیامر بھاشا ڈیم میں آنے والی اراضی کا معاوضہ نہ ملنے کے حوالہ سے وزیراعظم نے یقین دلایا کہ وہ یہ مسئلہ حل کرائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ عام آدمی کے حقوق کا تحفظ میری ذمہ داری ہے اور عام آدمی ہی میری حکومت میں وی آئی پی ہے، ایک چھوٹا سا طبقہ جس نے وسائل پر قبضہ کر رکھا ہے اس سے عوام کو تحفظ دینا ہے، دیامر بھاشا ڈیم ہمارا اثاثہ ہے، اس سے بڑا آبی ذخیرہ میسر ہو گا، بھارت میں ہم سے دگنا پانی میسر ہے اور سوائے مصر کے سب کے پاس ہمارے مقابلہ میں زیادہ پانی دستیاب ہے، 50 سال بعد ملک میں بھاشا اور مہمند دو بڑے ڈیم بن رہے ہیں، ہم نے آنے والی نسلوں کیلئے پانی بچانا ہے، متاثرین کی بھرپور مدد کی جائے گی۔ اسلام آباد کے ایک شہری کی شکایت پر وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے اسلام آباد میں تمام سوسائٹیوں کا سروے کرایا ہے تاکہ پتہ چلے کہ کونسی سوسائٹیاں قانونی ہیں اور کونسی اجازت کے بغیر کام کر رہی ہیں اور کونسی ایسی ہیں جو بن گئی ہیں لیکن غیر قانونی ہیں۔

سی ڈی اے، ایل ڈی اے اور پی ڈی اے سمیت تمام متعلقہ اداروں کو ہدایت کی ہے کہ سوسائٹیوں کا جائزہ لیں اور شہریوں کو درپیش مسائل کا حل نکالیں اور پتہ چلائیں کہ کن سوسائٹیوں کو ریگولرائزڈ کیا جا سکتا ہے، ایک ماہ میں ان اداروں سے رپورٹ مانگی گئی ہے، جو لوگ غیر قانونی کام میں ملوث ہوتے ہیں وہ حکومتی اداروں کو بھی پیسے کھلا دیتے ہیں، موجودہ حکومت نے پہلی بار تعمیراتی شعبہ کو اوپر اٹھایا ہے اور ان کیلئے بہت مراعات دی ہیں اور آسانیاں پیدا کی ہیں، جہاں جہاں ہماری حکومت ہے وہاں نیا پاکستان ہائوسنگ کے منصوبے لائے ہیں، تعمیرات کے شعبہ میں رکاوٹیں ختم کر رہے ہیں، شکایات سیل بنائے ہیں، آن لائن اجازت نامے دیئے جا رہے ہیں، ایف بی آر سے ڈبل ٹیکسیشن ختم کرائی ہے تاکہ عام آدمی اپنے لئے گھر خرید سکے،

پاکستان میں ہائوسنگ کیلئے 0.2 فیصد ہائوس فنانسنگ ہے جبکہ اس کے مقابلہ میں امریکہ میں یہ شرح 80، 90 فیصد، بھارت میں 10 فیصد اور ملائیشیا میں 30 فیصد ہے، پاکستان میں گھر صرف وہی بنا سکتا ہے جس کے پاس بہت پیسہ ہو لیکن ہماری حکومت نے پہلی دفعہ بینکوں کو ساتھ ملا کر ہائوسنگ کیلئے قرضے دیئے ہیں تاکہ عام آدمی جو پیسہ گھر کے کرائے کی مد میں دیتا ہے وہی گھر کی قسطوں کی صورت میں دے کر گھر کا مالک بن جائے، اس سلسلہ میں حکومت بہت مراعات دے رہی ہے اور عام آدمی کیلئے آسانیاں پیدا کرنے کیلئے میں نے خود بینکوں کے صدور سے بات کی ہے۔ حیدرآباد سے ایک شہری کے سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ بچوں اور خواتین کے خلاف جرائم تیزی سے پھیل رہے ہیں اور جتنے کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں صورتحال اس سے کہیں زیادہ سنگین ہے، ہم نے اس حوالہ سے سخت قانون سازی کی ہے لیکن جس طرح کرپشن صرف قانون بنانے سے ختم نہیں ہو گی اسی طرح جنسی جرائم کے خلاف بھی پورے معاشرے کو مل کر لڑنا ہو گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ جب معاشرے میں فحاشی بڑھ جائے تو اس کا اثر سامنے آتا ہے،

اسلام نے اسی لئے پردے کا تصور دیا ہے، فحاشی بڑھنے سے خاندانی نظام متاثر ہوا ہے، یورپ میں طلاق کی شرح 70 فیصد ہو چکی ہے، بالی وڈ نے ہالی وڈ کی پیروی کی جس کی وجہ سے دہلی کو ”ریپ کیپٹل” کہا جاتا ہے۔ اسلام میں پردے کا تصور خاندانی نظام کے تحفظ کیلئے ہے، موبائل فون کے ذریعے بچوں کی ہر طرح کے مواد تک رسائی ہے، ہمیں اپنے معاشرے کو مغربی اور بھارتی ڈراموں اور فلموں کے برے اثرات سے بچانا ہے، میں طیب اردوان کو کہہ کر ترکی کے ڈرامے پاکستان میں لے کر آیا ہوں، ہمارے فلمساز اور ڈرامہ نگار کہتے تھے کہ وہ جو کچھ دکھا رہے ہیں لوگ وہی دیکھنا چاہتے ہیں لیکن اب ترکی کے جو ڈرامے دکھائے جا رہے ہیں وہ بہت مقبول ہیں۔

وزیراعظم نے وقف کی گئی زمین پر ہسپتال نہ بنائے جانے سے متعلق شکایت کی تحقیقات کرانے کا بھی وعدہ کیا۔ میانوالی سے ایک شہری کی شکایت پر وزیراعظم نے کہا کہ تلہ گنگ۔میانوالی روڈ کو بہتر بنایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم بڑی مشکل صورتحال میں کام کر رہے ہیں، عوام کی ہم سے بڑی امیدیں تھیں اور ان کا خیال تھا کہ عمران خان آتے ہی ایک دم سب کچھ ٹھیک کر دے گا لیکن ایسا صرف کہانیوں میں ہوتا ہے، الیکشن کے ذریعے تبدیلی لانا بہت مشکل ہوتا ہے، خونی انقلاب کے نتیجہ میں ایسا ہو سکتا ہے کہ سب کچھ ایک دم بدل جائے۔ جمہوری نظام میں سب کچھ ایک دم سے ٹھیک نہیں ہو سکتا، پاکستان میں عدلیہ اور نیب آزاد ادارے ہیں،

ہم کسی کو فون کرکے مرضی کے فیصلے نہیں کرا سکتے، نہ ہی نیب کو کہہ سکتے ہیں کہ فلاں کو پکڑو۔ پاکستان میں عدلیہ آزاد ہے اور ہونی بھی چاہئے، ادارے آزاد ہیں اور ہمارے کنٹرول میں نہیں ہیں جبکہ ماضی میں نیب چوروں کا تحفظ کرتی رہی، بیورو کریسی کے پرانے حکمرانوں سے رابطے ہیں اس لئے صورتحال کو بہتر کرنے میں وقت لگے گا اور عوام کو صبر کرنا پڑے گا۔

وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے اقتدار سنبھالا تو ہمیں قرضوں کی ادائیگی کی مشکل صورتحال کا سامنا تھا، یہ قرضے سابق حکومتوں نے لئے، ہم نے سود اور قرضوں کی قسطوں کی مد میں 35 ہزار ارب روپے واپس کئے، 15 ہزار ارب روپے ہم نے اضافی واپس کئے جبکہ سابق حکومت نے 3 ہزار ارب روپے کا سود اور 6200 ارب روپے کا قرضہ واپس کیا، اگر ہمیں اتنی بڑی رقم قرضوں اور سود کی ادائیگی میں نہ دینا پڑتی تو ہم یہ پیسہ سکولوں اور سڑکوں پر لگا دیتے اور بڑی تبدیلی آ جاتی۔ وزیراعظم نے کہا کہ پنجاب کیلئے (ن) لیگ نے آخری سال میں 108 ارب روپے کا وفاقی ترقیاتی بجٹ دیا جبکہ ہماری حکومت نے پہلے سال میں 34 ارب روپے اور دوسرے سال میں 36 ارب روپے رکھے، اس طرح تین گنا کم ترقیاتی فنڈ دیا کیونکہ ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ ہم سڑکوں، ہسپتالوں، تعلیمی اداروں اور دوسرے ترقیاتی کاموں کیلئے پیسہ خرچ کر سکتے، اب ہم دولت میں اضافہ کیلئے منصوبے لا رہے ہیں، راوی سٹی اور سنٹرل بزنس سٹی والٹن روڈ کے نام سے دو نئے شہر بنا رہے ہیں اس سے 10 ہزار ارب روپے سے زیادہ پیسہ سرکولیٹ ہو گا اور نجی شعبہ اس میں سرمایہ کاری کرے گا۔

وزیراعظم نے کہا کہ لاہور میں پانی کی سطح نیچے جا رہی ہے اور راوی گرین سٹی اور سنٹرل بزنس سٹی نہ بنا تو لاہور کا مستقبل خطرے میں ہو گا، سنٹرل بزنس سٹی میں 6 ہزار ارب روپے کی سرمایہ کاری ہو گی اور بلند عمارتیں تعمیر ہوں گی جس سے زرعی زمینیں بھی محفوظ ہوں گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ ماضی کی حکومت نے اورنج ٹرین کیلئے بھاری قرضہ لیا، اس قرضے پر سود بھی ادا کرنا ہے، اس کے علاوہ یہ ٹرین سالانہ 12 ارب روپے نقصان میں ہے جس کی وجہ سے ہم مزید قرضے میں جا رہے ہیں، اب ہم ڈیموں کی تعمیر اور ایم ایل ون جیسے منصوبے لائیں گے جن سے دولت پیدا ہوا، ایم ایل ون جدید ٹرین سے لاہور اور کراچی کا سفر 7، 8 گھنٹے کا ہو گا اور اس سے کاروبار میں بھی آسانی ہو گی، ازبکستان تک ٹرین چلائی جائے گی، جب دولت کی پیداوار ہو گی تو ہم قرضے بھی واپس کر سکیں گے۔

لاہور سے ایک شہری کے سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ انقلاب فرانس اور ایران میں خمینی انقلاب آیا تو لوگوں کی گردنیں اتار دی گئیں یا انہیں ملک بدر کر دیا گیا، پاکستان میں جمہوری نظام ہے، 35 سال جن لوگوں نے حکومت کی ان کی یہاں جڑیں ہیں، ان کی جگہ نئے لوگ آئے ہیں لیکن سٹرکچر پرانا ہے اور بہت سی جگہوں پر پرانے لوگ بیٹھے ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ تبدیلی آ رہی ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ 35 سال سے جو لوگ ایک دوسرے کو برا کہہ رہے تھے اور ایک دوسرے کے خلاف کیسز بناتے رہے اور ایک دوسرے کو گھسیٹنے کی باتیں کرتے رہے آج سب ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر ایک ہی مطالبہ کر رہے ہیں کہ عمران خان کو فارغ کرو، وہ چاہتے ہیں کہ انہیں این آر او مل جائے، تبدیلی یہ ہے کہ ایک حکومت کہہ رہی ہے کہ طاقتور اور مراعات یافتہ طبقہ کو نہیں چھوڑے گی اور جو بھی قانون توڑے گا اس کے ساتھ رعایت نہیں ہو گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ طاقتور پر ہاتھ ڈالنا آسان نہیں ہے، یہ طاقتور لوگ بڑے بڑے وکیل کر لیتے ہیں، غریب ملکوں سے اربوں ڈالر لوٹ کر امیر ملکوں میں لے گئے ہیں،

ہم ان کے خلاف ایک جہاد کر رہے ہیں، میں روزانہ صبح گھر سے جہاد کرنے کا عزم لے کر نکلتا ہوں، کمزور طبقہ کی حفاظت کیلئے لڑنا اﷲ کی راہ میں جہاد کرنا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ پنجاب میں سٹے بازوں نے چند ہفتوں کے اندر چینی پر سٹے بازی کرکے 600 ارب روپے کی سرکولیشن کی ہے، ان کے اکائونٹس میں 600 ارب روپے گئے ہیں، یہ پیسہ عوام کا خون چوس کر بنایا گیا ہے، ان کے خلاف کارروائی کرنا اور ان پر ہاتھ ڈالنا ایک جہاد ہے۔

انہوں نے اپیل کی کہ ساری قوم اس جہاد میں میرا ساتھ دے، میں عوام کیلئے لڑ رہا ہوں۔ وزیراعظم نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ حکومت نے جو اچھے اقدامات کئے ہیں ان کو کوئی اجاگر نہیں کر رہا، ہم نے کس طرح ملک کو مستحکم کیا اور معاشی طور پر ملک کو آگے لے کر جا رہے ہیں اس کا کوئی ذکر نہیں کرتا۔ وزیراعظم نے سوال کیا کہ کیا کبھی کسی نے سنا ہے کہ روپیہ اوپر جا رہا ہوں، پہلی بار روپیہ اگر مضبوط ہو رہا ہے تو کچھ تو ہے جو ہم کر رہے ہیں۔

وزیراعظم کی ہدایت پر وفاقی وزیر صنعت و خزانہ حماد اظہر نے بتایا کہ 2018ء میں پاکستان تحریک انصاف نے اقتدار سنبھالا تو ملک کی معاشی حالت ایسی تھی کہ ہم بتا بھی نہیں سکتے تھے کیونکہ اگر بتاتے تو افراتفری پھیل جاتی اور پاکستان کی ساکھ بھی خراب ہوتی، غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر ختم ہو جاتے، ہمیں معاشی صورتحال کے پیش نظر سخت فیصلے کرنے پڑے، کرنسی ڈی ویلیو کرنا پڑی، انٹرسٹ ریٹ بڑھانا پڑا لیکن ہمارے سخت فیصلوں کا نتیجہ ایک سال بعد سامنے آیا، اب کرنٹ اکائونٹ سرپلس میں چلا گیا ہے اور عالمی اداروں نے ہماری معیشت کو ایک سال بعد ہی اپ گریڈ کرنا شروع کر دیا، کووڈ کی وبا کی وجہ سے ہمیں مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور ہماری معیشت 10 فیصد تک سکڑ گئی لیکن ہم نے حکمت عملی سے صورتحال کو بہتر بنایا۔

معیشت میں جو سکڑائو نظر آیا اسے بھی ہم نے جلد کور کر لیا اور 30 لاکھ کاروباروں کو سپورٹ کیا اور احساس پروگرام کے تحت ایک کروڑ 70 لاکھ گھرانوں کو امداد دی۔ سٹیٹ بینک کا جتنا اندازہ تھا اس سے دگنی رفتار سے معیشت آگے بڑھے گی، اس وقت ملک میں آٹوموبائل کمپنیاں ریکارڈ سیل کے اشتہارات دے رہی ہیں، سیمنٹ کی فروخت میں اضافہ ہوا ہے، یوریا 10 سال میں ریکارڈ فروخت ہوا ہے، ٹریکٹرز کی ریکارڈ خریداری ہوئی ہے، ٹیکسٹائل ملیں چل پڑی ہیں، ہمارے لئے ابھی بھی چیلنجز موجود ہیں لیکن جب ہم نے پاکستان کو سنبھالا تو یہ دیوالیہ ہونے کے دہانے پر تھا، اب معیشت بہتری کی جانب گامزن ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ میری زندگی کے یہ دو سال انتہائی چیلنجنگ تھے، پہلا سال بڑا خوفناک تھا کیونکہ اگر ہم قرضوں کی قسطیں واپس نہ کر سکتے تو دیوالیہ ہو جاتے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت روپیہ دو، اڑھائی سو پر جانے کی باتیں کی جا رہی تھیں، اگر ایسا ہوتا تو مہنگائی بے تحاشا بڑھ جاتی، جیسے وینزویلا اور بعض دوسرے ملکوں میں ہے لیکن آج تمام اقتصادی اشاریے مثبت سمت میں جا رہے ہیں، میڈیا میں بعض لوگوں نے منفی تاثر اجاگر کیا، 35 سال میں ادارے تباہ ہو گئے، اب جو اعداد و شمار آ رہے ہیں یہ جھوٹ تو نہیں ہے، موٹر کمپنیاں خود کہہ رہی ہیں کہ 30 سال میں سب سے زیادہ سیل ہوئی ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ یہ ملک اب اوپر جائے گا، سیاحت ہی اس ملک کو آگے لے کر جائے گی، ہم اس ماہ زرعی اصلاحات کا پیکیج لائیں گے جس سے انقلاب آئے گا، خوردنی تیل جو پہلے ہم باہر سے منگواتے تھے اب اس کی جگہ زیتون کی مقامی پیداوار سے ہم خوردنی تیل نہ صرف اپنے لئے بنائیں گے بلکہ برآمد بھی کریں گے۔ سمندری سے ایک شہری کے سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ وہ زیر زمین پانی اوپر آنے پر متعلقہ حکام کو کارروائی کیلئے کہیں گے۔

گجرات سے ایک خاتون کی طرف سے قرضے لینے کی پالیسی پر تنقید کا جواب دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ جب انہوں نے اقتدار سنبھالا تو پاکستان کو دو بڑے مالیاتی خساروں کا سامنا تھا۔ (ن) لیگ کو پاکستان ملا تو اڑھائی ارب ڈالر خسارہ کا سامنا تھا جبکہ ہمیں حکومت ملی تو 20 ارب ڈالر کا خسارہ تھا اس لئے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کیلئے آئی ایم ایف سے قرضہ لینا پڑا کیونکہ آئی ایم ایف کم شرح سود پر قرضہ دیتا ہے اور آئی ایم ایف سے قرضہ کے اجرا کے بعد دوسری جگہوں سے قرضے ملنے میں آسانی ہو جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف اپنے قرضے کی واپسی کو یقینی بنانے کیلئے کچھ اقدامات کرنے کیلئے کہتا ہے، سٹیٹ بینک بھی ان میں سے ایک ہے، ہم اس معاملہ پر پارلیمان میں بحث کریں گے اور پاکستان کے مفاد پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا، میں نے یہیں رہنا ہے، کہیں باہر نہیں جانا، جس حکمران کا جینا مرنا پاکستان میں ہو وہ پاکستان کے مفاد کے مطابق فیصلے کرتا ہے اس لئے عوام مجھ پر اعتماد رکھیں۔

وزیراعظم نے ایک شہری کے سوال کے جواب میں زور دیا کہ رمضان المبارک کو سو کر نہیں گزاریں بلکہ افطاری سے قبل ورزش بھی کریں تاکہ چاق و چوبند رہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ انہوں نے ایک سال بہت احتیاط کی اور کسی شادی یا ریسٹورنٹ میں نہیں گئے لیکن سینٹ الیکشن کے دوران کچھ بے احتیاطی ہو گئی جس کی وجہ سے وہ کورونا کا شکار ہوئے۔ وزیراعظم نے کہا کہ کورونا کی تیسری لہر انتہائی خطرناک ہے، عوام ماسک ضروری پہنیں، ہم نے یورپ کی طرح لاک ڈائون نہیں کیا کیونکہ غریب آدمی کی مشکلات کا احساس ہے۔

یوٹیلٹی سٹورز سے متعلق سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ رمضان المبارک میں یوٹیلٹی سٹورز پر اشیاء ضروریہ پہنچائی جائیں گی اور نظر رکھی جائے گی، یوٹیلٹی سٹورز پر آٹومیشن کا نظام نہیں لا سکے جس کا افسوس ہے، اگر آٹومیشن ہو جاتی تو مسائل نہ ہوتے، رمضان المبارک میں یوٹیلٹی سٹورز پر اشیاء ضروریہ کی فراہمی کا وعدہ کرتا ہوں، اس کے علاوہ رمضان بازار بھی کھولے جائیں گے، احساس پروگرام کے تحت 75 فیصد پاکستانیوں کا ڈیٹا بن چکا ہے، عام آدمی کو سستے داموں آٹا، گھی اور بنیادی اشیاء فراہم کریں گے، دنیا کے کم ہی ملکوں میں ایسا کوئی پروگرام ہے، جون تک 100 فیصد علاقوں کو احساس پروگرام کے تحت کور کر لیں گے اور عام آدمی کیلئے مہنگائی کم کریں گے۔

مہنگی بجلی سے متعلق ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے کرتے وقت سابق حکومتوں نے عوام کے مفاد کی بجائے آئی پی پیز کے مفاد کا تحفظ کیا اور پیسہ بنایا، ان کا طریقہ کار یہ ہوتا تھا کہ یہ 100 ارب روپے کا منصوبہ 130 ارب روپے کا کر دیتے تھے اور کمپنیوں کو کہتے تھے کہ 30 ارب روپے ان کے اکائونٹ میں ڈال دیں اس سے بجلی مہنگی ہو جاتی تھی، ہم 20 سے 25 فیصد مہنگی بجلی بنا رہے ہیں اور عوام یہ مہنگی بجلی خریدنے پر مجبور ہیں، آئی پی پیز کو کیپسٹی پیمنٹ کی ادائیگی کرنا ہوتی ہے،

خواہ بجلی خریدی جائے یا نہ خریدی جائے، ہم حکومت میں آئے تو 450 ارب روپے کی کیپسٹی پیمنٹ تھی جو 2023ء تک 1500 ارب روپے ہو جائے گی، ہم جس قیمت پر بجلی حاصل کر رہے ہیں اور جس قیمت پر عوام کو دے رہے ہیں ابھی بھی اس میں بہت فرق ہے، حکومت کو 17 روپے کی بجلی پڑ رہی ہے اور تین روپے گردشی قرضوں کی مد میں جا رہے ہیں، یہ بہت بڑا بوجھ ہے لیکن اگر قیمت بڑھائیں تو مہنگائی بڑھتی ہے، اسی طرح گیس کی قیمت بھی ہم نے دوبارہ مذاکرات کرکے کم کرائی ہے، آئی پی پیز سے بھی بات کرکے اس مسئلہ کا حل نکالیں گے۔ آزاد کشمیر سے ایک شہری کے سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ جب تک بھارت 5 اگست کے اپنے اقدام کو واپس نہیں لیتا اس کے ساتھ تعلقات معمول پر نہیں آ سکتے،

مجھے فخر ہے کہ میں نے بین الاقوامی فورمز پر جس طرح کشمیر کا مقدمہ لڑا 50 سال میں کسی نے نہیں لڑا۔ کاٹن کی صنعت کو ایمرجنسی شارٹیج کے پیش نظر کاٹن بھارت سے منگوانے پر غور کیا گیا تھا لیکن کابینہ میں اس فیصلہ کو مسترد کر دیا گیا، ہم 5 اگست کے بھارت کے اقدام کی واپسی تک بھارت سے تعلقات معمول پر نہیں لا سکتے۔ ایک اور سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان میں ٹائون پلاننگ کو نظر انداز کیا گیا، ماسٹر پلان نہیں بنائے گئے،

شہر پھیلتے گئے، زرعی زمین کم ہوتی گئی، ہائوسنگ سوسائٹیوں بغیر کسی قاعدے قانون کے بنتی رہیں، اب صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ وزیراعظم نے شہریوں پر زور دیا کہ وہ وزیراعظم پورٹل پر اپنی شکایات سے آگاہ کریں بالخصوص قبضہ گروپوں کی طرف سے کسی بھی قبضہ کی رپورٹ کریں، پنجاب حکومت نے بھی قبضہ کے خلاف پورٹل بنایا ہے، پنجاب پولیس نے بھی سمندر پار پاکستانیوں کے حوالہ سے خصوصی پورٹل بنایا ہے، ہم قبضہ گروپوں کے خلاف جہاد کر رہے ہیں۔

 

Advertisement