لاہور: (ویب ڈیسک) وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے کہا ہے کہ امریکا سے اچھے تعلقات چاہتے ہیں، اڈے نہیں دیں گے، پوری کوشش ہے افغانستان کے اندر ہونے والی کسی لڑائی کا حصہ نہ بنیں، ہم امن میں شراکت دار رہیں گے لیکن تنازع میں حصہ دار نہیں بنیں گے۔ افغانستان سے امریکی انخلاء کا فیصلہ عجلت میں کیا گیا ہے، بدقسمتی سے ایسا ہو گا تو اس کے نتائج سامنے آئیں گے اور اس کے نتائج ہمیں بھگتنا پڑیں گے۔
دنیا نیوز کے پروگرام ’دنیا کامران خان کیساتھ‘ میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ سپیکر قومی اسمبلی کی طرف سے پریس ریلیز جاری کی گئی ہے جس کے مطابق اپوزیشن رہنماؤں کی طرف سے قومی اسمبلی کے سیکرٹریٹ کو کہا گیا تھا کہ وزیراعظم عمران خان پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کمیٹی میں شریک نہ ہوں۔میٹنگ کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری نے یہ بات پوائنٹ آؤٹ کی کہ وزیراعظم عمران خان کو میٹنگ میں ہونا چاہیے تھا۔
انہوں نے کہا کہ بلاول بھٹو زرداری کی طرف سے پوائنٹ آؤٹ کیے جانے کے بعد سپیکر قومی اسمبلی نے مائیک کے بغیر اشارہ کیا کہ اس سوال کا جواب مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہباز شریف سے پوچھیں۔
میزبان کی طرف سے پوچھا گیا کہ اس سے قبل بھی چار اہم سلامتی سے متعلق اجلاس ہوئے تھے اس میں بھی وزیراعظم نے شرکت نہیں کی تھی اس پر جواب دیتے ہوئے فواد چودھری نے کہا ہے کہ اس وقت بھی اپنی اپنی وجوہات تھیں، اس پر تفصیل سے بات ہو چکی ہے۔
افغانستان سے متعلق بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمارا ہمسایہ ملک سے متعلق موقف ایک ہے، افغانستان کے اندر جو صورتحال بن رہی ہے اس میں ہماری اتفاق رائے ہے کہ وہاں پر ایک ایسا سسٹم آنا چاہیے جس میں تمام دھڑے شامل ہوں۔ ہماری پوری کوشش ہے کہ افغانستان کے اندر ہونے والی کسی لڑائی کا حصہ نہ بنیں، کوشش کر رہے ہیں کہ تمام دھڑے آپس میں بیٹھ کر مفاہمت کریں۔ دیکھتے ہیں ہم وہاں تک کیسے کامیاب ہوتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمسایہ ملک میں امن کے لیے نیک نیتی سے کوشش کی، افغان طالبان کو امریکا کے ساتھ مذاکرات کیلئے بٹھایا، دونوں فریقین کے مذاکرات ہوئے۔ اس کے بعد ہماری کوششوں کے باعث افغان طالبان کابل انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات کیلئے راضی ہوئے۔ دونوں میں دوریاں پیدا ہوئی ہیں جس کے لیے کوشش کر رہے ہیں دونوں کو ایک مرتبہ پھر قریب لائیں۔
فواد چودھری کا کہنا تھا کہ صورتحال برقرار رہتی ہے اور افغان طالبان لڑائی کے ذریعے کابل پر قبضہ کر لیتے ہیں تو باقی تمام دھڑے ان کے خلاف کھڑے ہو جائیں گے جس کے بعد ہمسایہ ملک میں استحکام نہیں آئے گا۔ اس کے نتیجے میں وہاں پر قتل و خون کی ایک تاریخ رقم ہو سکتی ہے۔ اس کے بعد ہمارے ہاں مہاجرین کی ایک نئی لہر آ سکتی ہے۔ ہمارے لیے بہت مسائل ہیں۔ افغانستان میں امریکا اور ہمارے مفاد ایک ہی ہیں، دونوں چاہتے ہیں کہ وہاں پر امن و استحکام ہو۔
باڑ سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں وزیراطلاعات کا کہنا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کوئی بارڈر ہی موجود نہیں تھا تو پتہ ہی نہیں تھا کہ کہاں سے پاکستان شروع ہو رہا ہے اور کہاں سے افغانستان شروع ہو رہا ہے۔ اس لیے باڑ ضروری تھی، اس کے بعد بارڈر سکیورٹی اور کسٹمز کا جو معاملہ شروع ہوا ہے اس کے بعد استحکام لانے کی ضرورت ہے اور آمدورفت پر کافی کنٹرول آ جائے گا۔اس کے بعد ہم پوزیشن میں ہوں گے کہ افغانستان سے خود کو علیحدہ کر لیں۔ وہاں کی اندرونی صورتحال سے ہم اپنے آپ کو دور کر لیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک میں ماضی میں دہشتگردی کیخلاف جنگ میں ہم نے کامیابی حاصل کی ہے۔ اگر ہمیں دوبارہ جنگ لڑنا پڑی تو لڑیں گے۔
وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ امریکا سے اچھے تعلقات چاہتے ہیں، امریکا کو اڈے نہیں دیں گے، وزیراعظم بھی اعلان کر چکے ہیں کہ پی ٹی آئی کی حکومت پالیسی ہم امن میں شراکت داری رہیں گے لیکن تنازع میں حصہ دار نہیں بنیں گے۔ افغانستان سے امریکی انخلاء کا فیصلہ عجلت میں کیا گیا ہے، اگر بدقسمتی سے ایسا ہو گا تو اس کے نتائج سامنے آئیں گے، اور اس کے نتائج ہم جیسے ممالک کو بھگتنے پڑتے ہیں۔ ہمارے خطے میں تنازع ہیں، اس خطے میں دنیا کی سپر پاورز ہیں۔