1947ء تا 2021ء: آزاد کشمیر کی سیاسی اور انتخابی تاریخ

Published On 24 July,2021 08:53 pm

مظفر آباد: (طارق حبیب) آزاد کشمیر میں 24 کتوبر 1947ء کو ایک عبوری حکومت قائم کی گئی جس کا ہیڈ کواٹر پلندری رکھا گیا جو کہ بعد میں تبدیل ہو کر مظفر آباد ہو گیا۔ مسلم کانفرنس کے لیڈر سردار محمد ابراہیم آزاد کشمیر کی عبوری حکومت کے صدر منتخب ہوئے۔

آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتوں کے قائدین 1985ء تک بڑی حد تک نظریاتی سیاست کے زیر اثر رہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ذاتی اور اجتمائی مفادات نے نظریاتی سیاست کی جگہ لے لی۔

آزاد کشمیر کی سیاسی تاریخ سیاسی رہنماؤں اور سیاسی جماعتوں کے عروج وزوال کی ایک عجیب داستان ہے۔

سب سے پہلے ذکر آتا ہے آزاد کشمیر کے بانی صدر سردار محمد ابراہیم کا، آپ 20 نومبر 1948ء کو اقوام متحدہ کے سلامتی کونسل کے اجلاس میں شریک ہو تے ہیں اور وہاں پر ایک دھواں دار تقریر کرتے ہیں۔ اس تقریر میں انہوں نے کہا کہ حکومتِ پاکستان نے جنگ بندی کرکے شدید غلطی کی ہے کیونکہ بھارت ’’استصواب رائے‘‘ کے وعدہ میں مخلِص نہیں اور اُس نے محض وقت حاصل کرنے کیلئے اقوام متحدہ میں جانے کا ڈھونگ رچایا ہے‘‘۔

بہت سے لوگوں کو ان کی اقوام متحدہ میں تقریر پر اختلاف تھا۔ ان اختلافات کی بناء پر انہوں نے آزاد جموں و کشمیر کی صدارت سے استعفیٰ دے دیا۔ مارچ 1949 ء کو مسلم کانفرنس نے ایک قرارداد پاس کی جس میں سپریم ہیڈ کو تمام اختیارات دیدئیے گئے۔

ان اختیارات میں آزاد کشمیر کے صدر کا انتخاب کرنا بھی شامل تھا۔ اس وقت چوہدری غلام عباس مسلم کانفرنس کے سپریم ہیڈ تھے۔ اس قرار دار کے پاس ہونے کے بعد پاکستان نے سپریم ہیڈ چوہدری عباس اور ان کی ورکنگ کمیٹی کو قبول کیا۔البتہ اسی قرار داد کے باعث 1950 ء میں آزاد کشمیر کے صدر سردار محمد ابراہیم اور مسلم کانفرنس کے سپریم ہیڈ چوہدری عباس کے درمیان تنازعات نے جنم لے لیا۔

ان تنازعات کے باعث 1952 ء میں آزاد کشمیر کے سپریم ہیڈ کا دفتر تحلیل کر دیا گیا، جس کے بعد صرف صدر ہی آزاد جموں و کشمیر کے ایگزیکٹیو ہیڈ رہے۔ اس نظام میں ، جو 1947 ء سے 1960 ء کے دوران رہا ، مسلم کانفرنس کی ورکنگ کمیٹی کا اعتماد رکھنے والے شخص کو آزاد جموں و کشمیر کا صدر نامزد کیا گیا۔

پہلے سپریم ہیڈ کا دفتر بھی موجود تھا جس نے آزاد جموں و کشمیر کیلئے قانون سازی کی منظوری دی تھی ، لیکن اس دفتر کو 1952 میں ختم کردیا گیا تھا ، احمد علی شاہ کو آزاد جموں و کشمیر کی صدارت سونپ دی گی اس کے بعد محمد یوسف شاہ 5 دسمبر 1951 کو آزاد کشمیر کے نئے صدر منتخب ہوئے اور 20 جون 1952 تک اس منصب پر فائز رہے۔21 جون 1952 ء کو نئے صدر کرنل شیر احمد خا ں نے منصب صدارت سنبھا ل لیا۔

ان کے دور صدارت میں سول نا فرما نی کی تحر یک عرو ج پر تھی جس کے نتیجے میں31 مئی 1956 کو محمد یوسف شاہ نے ایک مرتبہ پھر آزاد کشمیرکی صدارت کا عہدہ سنبھالا۔ اس کے بعد عبدالقیوم خاں نے8 ستمبر 1956 ء کو عہداہ صدارت سنبھا ل لیا ۔ تاہم کچھ عرصے بعد ہی 13 اپریل 1957 ء کو سردار محمد ابراہیم خان برسراقتدار آ گئے۔

جنرل محمد ایوب خان کے دورِ حکومت میں ’’ایبڈو‘‘ کے قانون کے تحت جب سیاسی قائدین کو نااہل قرار دیا جانے لگا تو اْسکے اثرات آزاد کشمیر پر بھی پڑے … چنانچہ ’’مسلم کانفرنس‘‘ کے قائدین کو خورشید حسن خورشید کی صدارت پر متفق ہو گئے جنہوں نے یکم مئی 1959ء کو آزاد کشمیر کے آٹھویں صدر کے طور پر صدارت کا منصب سنبھالا۔

1960ء میں ، آزاد جموں و کشمیر میں’’بنیادی جمہوری لوگوں کے ووٹوں‘‘کے ذریعہ صدارتی انتخابی نظام متعارف کرایا گیا ، جس کا نام ’’آزاد جموں و کشمیر اسٹیٹ کونسل‘‘ کے نام سے جانا جاتا تھا ، جسے بنیادی ڈیموکریٹس نے بھی منتخب کیا تھا۔

اس کونسل میں 12 ممبران شامل تھے جو آزاد جموں و کشمیر کے عوام کے منتخب کردہ تھے ، جبکہ 12 ممبران کا انتخاب پاکستان میں آباد ریاست جموں و کشمیر کے مہاجرین نے کیا تھا۔1964 ء میں ، اس نظام کو بھی تبدیل کر دیا گیا اور آزادجموں و کشمیر گورنمنٹ ایکٹ، 1964 ء میں اس نظام کو بھی تبدیل کر دیا گیا اور آزاد جموں و کشمیر گورنمٹ ایکٹ، 1964 ء نافذ کیا گیا، جس کے تحت ریاستی کونسل کیلئے ان شرائط میں اس حد تک ترمیم کی گئی کہ ٓازاد جموں و کشمیر کے بنیادی جمہوری لوگوں کے ذریعے 8 ریاستی مشیروں کا انتخاب کیا جاتا تھا۔ اپنے دورِ حکومت میں صدر آزاد کشمیر خورشید حسن خورشید نے آزاد حکومت کو تسلیم کروانے کا نظریہ پیش کیا۔

درحقیقت وہ چاہتے تھے کہ تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے بین الاقوامی فورم پر مؤثر آواز بلند کی جاسکے لیکن خورشید حسن خورشید کے سیاسی مخالفین نے اس موقع سے خوب فائدہ اٹھا کر ایوب خان کو ان کیخلاف کر دیا جس کے نتیجے میں ان کو مسلم کانفرنس سے مستعفی ہونا پڑا۔ 1962ء میں خورشید حسن خورشید نے لبریشن لیگ کی بنیاد رکھی، البتہ بعد میں انہوں نے ذالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی میںاپنی پارٹی کو ضم کر دیا۔

6 اگست 1964کو صدر خورشید کے ٹریفک حادثہ میں جاں بحق ہو نے کی وجہ سے جسٹس خان عبدالحمید کو منصب ِصدارت پر فائز کر دیا گیا ان کا دور حکو مت 7 اکتو بر 1969 ء تک رہا۔1970 ء میں بڑی آئینی تبدیلی آئی جب آزاد کشمیر میں ایک جمہوری سیٹ اپ متعارف کرایا گیا۔ یوں پہلی دفعہ آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی اور صدر عوام کی رائے دہی کی بنیاد پر منتخب ہوئے۔ یہ قانون ساز اسمبلی 24 منتخب ممبران اور ایک خاتون رکن پر مشتمل تھی۔

30 اکتوبر 1970ء کے انتخابات میں سردار محمد عبدالقیوم، سردار محمد ابراہیم خان اور مسٹر خورشید نے ایک بار پھر حصہ لیا۔ نتائج کے مطابق سردار محمد عبدالقیوم دو لاکھ ساٹھ ہزار ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے جبکہ اْنکے مدمقابل مسٹر کے ایچ خورشید کو ایک لاکھ ساٹھ ہزار اور سردار محمد ابراہیم خان کو 1 لاکھ 25 ہزار ووٹ مِلے۔ مگر اِس بار سردار محمد عبدالقیوم نے 12 نومبر 1970ء میں صدارت سنبھالی انھوں نے اپنے اس دور میں تعلیم کیلئے بہت زیا دہ کا م کیا نئے سکول بنائے اور اساتذہ کو بھرتی کیا جس سے بیروزگاری میں کمی آئی’’اسلامک پینل ایکٹ‘‘ منظور کروایا گیا جِن کی مطابق عْلمَائے دین کی بطور مفتی تقرریاں کی گئیں جنہیں بعد میں ’’اپ گریڈ‘‘ کر کے ’’قاضی‘‘ کا درجہ دیا گیا جو جج کے ہم پلہ تھا۔

آپ کا دورِ حکومت 16 اپریل 1975ء کو ختم ہوا جو کئی جہتوں کے اعتبار سے منفرد تھا۔ اگست 1974 میں جموں و کشمیر میں پارلیمینٹ کا نظام آزاد جموں و کشمیر کے عبوری دستور ایکٹ 1974 ء کے تحت متعارف کرایا گیا۔جس کے نتیجے میں صدارتی نظام کو پارلیمانی نظام میں بدل دیا گیا۔ اس پارلیمانی نظام میں اب تک 11 ترامیم ہو چکی ہیں۔

نئے انتخابات کے بعد خان عبدالحمید کو آزاد کشمیر کے پہلے وزیر اعظم جبکہ سردار محمد ابراہیم خان کو صدر منتخب کیا گیا۔ اِس حکومت کا دور بھٹو کے زوال کے بعد 1977ء اگست تک قائم رہا۔ ضیاء الحق کے دور میں جنرل محمد حیات خان نے 31 اکتوبر 1977ء کو چیف ایگزیکٹو کے طور پر حلف اٹھایا ان کے دور میں تعلیم مواصلات اور برقیا ت کے شعبوں میں بہت کام کیا۔ انہی کے دورمیں جموں کشمیر یو نیو رسٹی کا قیا م عمل آیا سردار محمد عبدالقیوم خان نے جنرل ضیاء الحق سے قریبی تعلقات استوارکر لیے۔

نئے انتخابات کے نتیجے میں 17 جون 1985ء کو سکندر حیات خان نے آزاد کشمیر کے وزیراعظم کا حلف اٹھایا اور بلا شرکتِ غیر آزاد کشمیر پر حکو مت کرتے رہے۔1990 ء کے انتخابات میں سکندر حیات کی شکست کے بعد آزاد کشمیر کے وزیراعظم کا اقتدار راجہ ممتاز حسین راٹھو کو منتقل ہوگئی۔ 1991ء سے 1996ء تک حکومت کرنے کے بعد 31 جولائی 1996ء کو بیرسٹر سلطان محمود کو اقتدار منتقل ہوگیا۔ 2001 بیرسٹر سلطان محمود نے اپنی سیاست کا آغاز ’’آزاد مسلم کانفرنس‘‘ کے پلیٹ فارم سے کیا جو اْنکے والد چودھری نور حسین خان نے وراثت کے طور پر اُنکے حوالے کی تھی۔

مسٹر کے ایچ خورشید کی وفات 1988ء کے بعد انہوں نے اپنی جماعت کو ’’لبریشن لیگ‘‘ میں ضم کر دیا اور اُسکے صدر بن گئے۔ کچھ عرصہ کے بعد انہوں نے پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کر لی اور 1996ء کے انتخابات میں پارٹی کی طرف سے خو د کو پارلیمانی لیڈر نامزد کروانے میں کامیاب ہوگئے۔ اْنکا دورِ حکومت 2001ء تک جاری رہا۔ ہ 2002ء کے انتحابات میں انہوں نے پیپلزپارٹی سے مستعفی ہو کر اپنی نئی جماعت ’’پیپلز مسلم لیگ‘‘بنائی اور اسی پلیٹ فارم سے انتخابی میدان میں اْترے لیکن اْنکی پارٹی کوئی قابلِ ذکر کامیابی حاصل نہ کر سکی۔

ان حالات کو دیکھتے ہو ئے انہوں نے دوبارہ پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کر کے پارٹیاں تبدیل کرنے کا شاید عالمی ریکارڈ قائم کر لیا ہے جبکہ مارچ 2002ء میں سردار عتیق احمد خان کو مسلم کانفرنس کا صدر منتخب کیا گیا تھا جنہوں نے 2006ء میں آزاد کشمیر کے وزیراعظم کے طور پر حلف اٹھایا۔ سردار عتیق احمد خان کی سیاست تربیت بلامبالغہ سردار محمد عبدالقیوم خان کے ہاتھوں میں ہوئی اور وہ مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کی تنظیم سے لیکر مسلم کانفرنس کی تنظیم تک اپنے والدِ محترم کی ہدایات اور رہنمائی کے مطابق کام کرتے رہے اور پھر 6 جنوری 2009ء کو محمد یعقوب خان نے اقتدار سنبھالا ان کے بعد 29 جولائی 2009ء میں عتیق احمد خان کے وزرات چھوڑی اور اْسی دن دوبارہ وزارت سنبھال لی۔ بالآخر سردار سکندر حیات خان، راجہ فاروق حیدر اور انکے رفقاء نے میاں نوا زشریف کو آزاد کشمیر میں ’’مسلِم لیگ (ن)‘‘ بنا نے پر راضی کر لیا اور 26 دسمبر 2010ء کو نواز شریف نے مظفرآباد جاکر مسلم لیگ (ن )کے قیام کا اعلان کر دیا۔

2015 ء کے انتخابات میں مسلم لیگ نے واضح اکثریت حاصل کی اور آزاد کشمیر میں حکومت بنائی راجہ فاروق حیدر نے وزیراعظم کے عہدے کا حلف اٹھایا۔اس 5سالہ دور حکو مت کے تیسرے سا ل ہی پا کستان میں تحریک انصاف کی حکومت برسراقتدار ا ٓ گئی پاکستان میں نوازشریف زیرِعتاب تھے اور راجہ فاروق حیدر نوازشریف کے احتجا جی جلسوں میں بھی بھرپور شرکت کر رہے تھے جس کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بھی بنتے رہے 2021 ء کے انتخابات کی آمد آمد ہے اور وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر مریم نوازکیساتھ مل کرمسلم لیگ (ن) کی انتخابی مہم نہا یت بھر پور طریقے سے چلا رہے ہیں آزاد کشمیر کاسیا سی تاریخی پس منظر تو یہی بتاتا ہے کہ اسلا م آباد میں جس کی حکومت ہو تی ہے آزاد کشمیر میں بھی اسی کی حکو مت ہوتی ہے سوال یہ ہے کہ کیا مسلم لیگ (ن) اس تاریخ کو بدل پا ئے گی ۔
 

Advertisement