مظفر آباد: (طارق حبیب) آزاد کشمیر کے انتخابات میں میدان سج چکا ہے اور تمام کھلاڑی آمنے سامنے ہیں۔ تمام جماعتوں نے اپنی انتخابی سرگرمیوں کے دوران عوام کو متحرک کرنے کے لیے زمین آسمان ایک کر دئیے ہیں۔
سیاسی جوڑ توڑ ہوئے تو پرانے کھلاڑیوں کیساتھ ساتھ نئے چہرے بھی میدان میں اترے ہیں۔ خواتین کی بڑی تعداد بھی بطور امیدوار سامنے آئی ہے۔
اس ساری صورتحال کے درمیان الیکٹیبلز کی اہمیت ان انتخابات میں بھی برقرار ہے اور ہر پارٹی آزاد کشمیر کے پرانے سیاستدانوں کو اپنے ساتھ ملانے کی کوششیں کر رہی ہے۔
ایسے موقع پر جب تحریک انصاف کے رہنما تنویر الیاس نے کشمیر انتخابات میں انٹری ڈالی تو صورتحال یکسر تبدیل ہوگئی۔ الیکٹیبلز کی بڑی تعداد تحریک انصاف میں شامل ہوگئی جس کے بعد بظاہر تحریک انصاف مضبوط پوزیشن میں نظر آرہی ہے۔
تاہم (ن )لیگ اور پیپلز پارٹی کے جلسے بھی ثابت کررہے ہیں کہ مقابلہ کسی صورت بھی ہلکا نہیں ہوگا۔ ماضی کی طرح اس بار بھی انتخابات سے قبل بڑی تعداد میں سیاسی رہنما و کارکنان نے اپنے آشیانے بدلے ہیں جن میں بڑی تعداد ایسے سیاسی رہنماؤں و کارکنان کی ہے جو تحریک انصاف کی انتخابی چھتری پر جمع ہوئے ہیں۔
واضح رہے کہ تحریک انصاف جو نوجوانوں کی جماعت ہونے کی دعویدار تھی اور الیکٹیبلز کے بجائے نوجوان قیادت سامنے لانے کے دعوے کرتے دکھائی دیتی تھی۔ پاکستان کے عام انتخابات اور گلگت بلتستان کے انتخابات کے بعد اب آزاد کشمیر میں بھی اپنے اس دعوے میں ناکام نظر آرہی ہے۔ سیاسی سرگرمیوں کی نگرانی کے لیے تحریک انصاف کی جانب سے وزیراعلیٰ پنجاب کے معاون خصوصی کو ذمہ داریاں سونپی گئیں جس کے بعد مختلف جماعتوں سے بڑی تعداد میں رہنما و کارکنان نے انتخابات سے قبل پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی۔
تحریک انصاف کی جانب سے جن امیدواروں کے ناموں کا اعلان کیا گیا ہے ان کے سیاسی کیرئیر پر نظر ڈالیں تو بیرسٹر سلطان محمود سینئر رہنما ہیں جو تحریک انصاف کی کامیابی کی صورت میں وزارت عظمیٰ کے امیدوار بھی ہوسکتے ہیں۔ بیرسٹر سلطان محمود نے سیاسی زندگی کا آغاز اپنے والد نور حسین کی رہنمائی میں آزاد مسلم کانفرنس سے کیا تھابعدا زاںاپنی پارٹی کو لبریشن لیگ میں ضم کردیا اور اس کے صدر بن گئے۔
اس کے بعد بیرسٹر سلطان محمود اپنی پارٹی ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے اور 1996ء کے انتخابات میں کامیابی کے بعد وزیراعظم بنے۔پیپلز پارٹی سے اختلافات کے بعد انہوں نے 2005ء میں اپنی جماعت بنائی اور اس کا نام پیپلز مسلم لیگ رکھا اور اسی سال آزاد کشمیر میں مسلم لیگ (ق) کی بنیاد رکھ کر پیپلز مسلم لیگ ختم کردی۔
پھر مسلم لیگ (ق )کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑ کر کامیابی حاصل کی۔اس کے بعد شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے جب پارٹی سے ان کے اختلافات ختم کرائے تو یہ اپنی بنائی پارٹی کو ختم کرکے دوبارہ پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے ۔2015ء میں بیرسٹر سلطان محمود نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرلی اور تحریک انصاف آزاد کشمیر کے صدر بن گئے مگر 2016ء کے عام انتخابات میں انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ 24نومبر 2019ء ہونے والے ضمنی انتخابات میں انہوں نے حصہ لیا اور کامیابی حاصل کی۔
میر عتیق الرحمن نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز مسلم کانفرنس سے کیا تھا اور 2016ء میں کامیابی حاصل کی تھی۔ ایل اے 27سے میر عتیق الرحمن تحریک انصاف کے ٹکٹ سے الیکشن لڑرہے ہیں۔ اپنے حلقے میں میر عتیق الرحمن کی میر برادری انتہائی اہمیت کی حامل ہے اور کسی بھی امیدوار کی کامیابی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
اسی طرح ایل اے 28سے بھی تحریک انصاف نے کسی نئے یا نوجوان امیدوار کو ٹکٹ دینے کے بجائے چوہدری شہزاد کو امیدوار نامزد کیا ہے۔ چوہدری شہزاد نے اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز مسلم کانفرنس سے کیا تھا۔ بعدا زاں مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی اور 2016ء کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد وزیر برائے سماجی بہبود رہے۔
اس حلقے میں گجر برادری بہت مضبوط ہے جو چوہدری شہزاد کی کامیابی اور تحریک انصاف کا ٹکٹ ملنے کی اہم وجہ قرار دی جاتی ہے۔ ایل اے 23بھی وہ حلقہ جہاں سے تحریک انصاف کو پیپلز پارٹی کے سابق رہنما کو اپنا ٹکٹ جاری کرنا پڑا اور کوئی نیا امیدوار سامنے نہیں لاسکے۔ سردار محمد حسین نے 2016ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پرحصہ لیا تھا مگر کامیاب نہیں ہو سکے تھے۔
اسی طرح ایل اے 25سے تحریک انصاف کے امیدوار سردار گل خاندار اور ایل اے 33سے دیوان علی چغتائی ماضی میں مسلم کانفرنس کا حصہ رہے ہیں مگر اب اپنے متعلقہ حلقوں سے تحریک انصاف کے ٹکٹ پر الیکشن لڑرہے ہیں۔ ایل اے 24سے سردار فہیم اختر تحریک انصاف کے امیدوار ہیں جبکہ گذشتہ انتخابات میں انہوں نے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ سے الیکشن لڑا تھا اور اس سے قبل ان کے والد سردار فہیم اختر بھی پیپلز پارٹی سے ہی وابستہ رہے ہیں۔
ایل اے 18 سے سردار عبدالقیوم نیازی تحریک انصاف کے امیدوار ہیں جنہوں نے اپنا سیاسی سفر مسلم کانفرنس سے شروع کیا تھا اور 2016ء میں انتخابات میں حصہ لیا تھا۔ ایل اے 06کے امیدوار چوہدری علی شان سوہنی نے پیپلز پارٹی سے اپنی سیاست کاآغاز کیا اور 2011 ء کا الیکشن پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر لڑا جس میں ان کو شکست ہوئی، البتہ 2016ء کے انتخابات میں وہ آزاد حیثیت سے میدان میں اترے اور کامیاب ہوئے۔ اب وہ تحریک انصاف کے ٹکٹ سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ ایل اے 07کے امیدوار چوہدری انوارالحق نے سیاسی سفر مسلم کانفرنس سے شروع کیا 2010ء میں آزاد کشمیر اسمبلی کے سپیکر بھی رہے۔ اس دفعہ وہ بھی تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑرہے ہیں۔ ایل اے 14سے تحریک انصاف کے امیدوار میجر (ر) محمد لطیف نے سیاسی سفر کا آغاز جماعت اسلامی سے کیا اب تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرکے امیدوار بن چکے ہیں۔