امریکا سے بھارت جیسے تعلقات چاہتے ہیں: وزیراعظم عمران خان

Published On 15 September,2021 07:00 pm

اسلام آباد: (دنیا نیوز) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ افغانستان میں افغان طالبان کے قبضے کے بعد امریکی صدر جوزف بائیڈن سے ٹیلیفون پر رابطہ نہیں ہوا وہ بہت مصروف ہوں گے لیکن امریکا کے ساتھ رشتہ صرف ایک فون کال پر منحصر نہیں ہے۔ پاکستان امریکا سے ایسے تعلقات چاہتا ہے جیسے بھارت کیساتھ ہے۔ ایسے تعلقات نہیں چاہتے کہ وہ پیسے دے اور کام کرائے۔ پاکستان کے چین کیساتھ تعلقات امریکا کیساتھ تعلقات پر منحصر نہیں ہیں۔

ان خیالات کا اظہار وزیراعظم عمران خان نے بنی گالہ میں امریکی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا۔ انٹرویو کے دوران وزیراعظم نے افغانستان، پاک امریکا تعلقات امور پر اظہار کیا۔

امریکی ٹی وی سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ خطے کا امن افغانستان کے عوام سے منسلک ہے، افغانستان کی صورتحال پریشان کن ہے۔ افغان عوام نے 20 سال میں بہت قربانیاں دی ہیں۔ پاکستان افغانستان میں امن کا خواہشمند ہے۔ افغانستان میں افراتفری اور پناہ گزینوں کے مسائل کا خدشہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ عدم استحکام کے نتیجے میں افغانستان سے پھر دہشت گردی کا خطرہ جنم لے گا۔ افغانستان کو غیر ملکی فوج کے ذریعے کنٹرول نہیں کیا جا سکتا۔ وہاں کیا ہونے والا ہے کوئی پیشگوئی نہیں کر سکتا، افغانستان کی خواتین بہت بہادر اور مضبوط ہیں، وقت دیا جائے وہ اپنے حقوق حاصل کر لیں گی۔ وہاں کی خواتین کو باہر سے کوئی حقوق نہیں دلوا سکتا۔ وقت کے ساتھ ساتھ خواتین کو حقوق مل جائیں گے۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ طالبان عالمی سطح پر خود کو تسلیم کرانا چاہتے ہیں۔ طالبان چاہتے ہیں عالمی برادری انہیں تسلیم کرے۔ افغانستان میں کٹھ پتلی حکومت کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔خطے کا امن افغان عوام سے جڑا ہے، 20 سال میں وہاں پر عوام نے بہت قربانیاں دی ہیں۔ دنیا طالبان کو انسانی حقوق کے معاملے پر وقت دے لیکن امداد کے بغیر انتشار کا اندیشہ ہے۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ ہماری انٹیلی جنس ایجنسیوں نے ہمیں بتایا تھا کہ افغان طالبان پورے افغانستان پر مکمل قبضہ نہیں کر پائیں گے۔ اگر وہ عسکری طریقے سے کنٹرول حاصل کریں گے تو سول وار ہونے کا خدشہ ہے، جس سے ہم خوفزدہ تھے کیونکہ پاکستان نے سب سے زیادہ نقصان برداشت کیا، دنیا کو ایک جائز حکومت بنانے اور اپنے وعدوں پر عمل کرنے کے لیے وقت دینا چاہیے۔

افغانستان سے انخلاء پر تنقید کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ افغانستان میں افغان طالبان کے قبضے کے بعد امریکی صدر جوزف بائیڈن سے ٹیلیفون پر رابطہ نہیں ہوا حالانکہ پاکستان امریکا کا نان نیٹو اتحادی ہے، میں محسوس کرتا ہوں کہ وہ بہت مصروف ہوں گے لیکن امریکا کے ساتھ رشتہ صرف ایک فون کال پر منحصر نہیں ہے اسے کثیر جہتی تعلقات کی ضرورت ہے۔ پاکستان امریکا سے ایسے تعلقات چاہتا ہے جیسے بھارت سے ہے۔ ایسا تعلق نہیں ہونا چاہیے جس میں وہ ہمیں ان کیلئے لڑائی کرنے کے پیسے دیں، ہم نارمل تعلق چاہتے ہیں۔

چین سے تعلقات کے بارے میں عمران خان نے کہا کہ پاکستان کے چین کے ساتھ تعلقات امریکا کے ساتھ تعلقات پر منحصر نہیں ہیں۔ یہ پاکستان تھا جس نے 1970ء کی دہائی میں چین اور امریکا کے درمیان برف پگھلانے میں کردار ادا کیا۔

ان کاکہنا تھا کہ امریکا نے دہشت گردوں کو پناہ دینے کا الزام لگایا جس کو مسترد کرتاہوں۔ پاکستان سے باربار محفوظ ٹھکانوں کی بات کی جاتی ہے۔ افغانستان سےداعش ،ٹی ٹی پی اور بلوچ دہشت گرد پاکستان پر حملہ کرتے ہیں۔ امریکا سے ایسے تعلقات نہیں چاہتے کہ وہ پیسے دے اور کام کرائے۔ پاکستان نے امریکا کیساتھ 20 سال تک ملکر جنگ لڑی، ہم کرائے کے بندوق کی طرح تھے امریکا افغان جنگ جیتا چاہتا تھا۔ وہ اپنا مقصد حاصل نہیں کر سکا۔ بار بار امریکی حکام کو خبردار کیا تھا کہ امریکا عسکری طور پر اپنا مقصد حاصل نہیں کر سکتا۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ 11/9 حملے کے بعد دہشتگردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کے ہزاروں لوگ اپنی جان گنوا بیٹھے، سابق وزیراعظم بینظیربھٹوایک دہشت گرد حملے میں جاں بحق ہوئیں، ایک موقع پر وہاں 50 عسکریت پسند گروہ پاکستان پر حملہ کر رہے تھے، امریکا نے پاکستان میں 480 ڈرون اٹیک کیے۔ کیا کوئی اتحادی ملک پر حملہ کرتا ہے۔ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کو150ارب ڈالرکا نقصان برداشت کرنا پڑا۔

ان کا کہنا تھاکہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کا کام ہی سب کے ساتھ رابطے رکھنا ہوتا ہے، امریکا کی انٹیلی جنس ایجنسی سی آئی اے بھی طالبان کے ساتھ رابطے میں رہی، سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان اس پوزیشن میں تھا کہ افغان طالبان کے خلاف فوجی آپریشن کرے ؟

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ امریکی جاہل ہیں اور انہیں پتہ کہ افغانستان میں کیا ہو رہا ہے، حقانی افغانستان میں موجود ایک قبیلہ ہے، حقانی رہنماؤ ں میں سے ایک رہنما پاکستان میں افغان مہاجر کیمپ میں پیدا ہوا، کیا آپ کے پاس اس وقت افغانستان کی حکومت کی حمایت کرنے کے علاوہ کوئی راستہ ہے؟

میزبان کی طرف سے سوال کیا گیا کہ کیا پاکستان افغان طالبان کے خلاف فوجی کارروائی کرنے کی پوزیشن میں تھا،اس سوال کے جواب میں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ کسی اور کی جنگ لڑنے کے لیے ہم اپنے ملک کو تباہ نہیں کر سکتے۔ افغان طالبان ہمارے ملک پر حملہ نہیں کر رہے تھے۔ اگر اس وقت میں حکومت میں ہوتا تو امریکی انتظامیہ کوبتاتاکہ افغان طالبان کیخلاف ہم اپنی فوج استعمال نہیں کریں گے۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ ہمیں اپنے لوگوں کی خدمت کرنی ہے اور میرے ملک کے لوگ میری ذمہ داری ہیں۔

Advertisement