واشنگٹن: (ویب ڈیسک) امریکی نائب وزیر خارجہ وینڈی شیرمین آئندہ ماہ پاکستان کا دورہ کریں گی۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ افغانستان کی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے امریکی نائب وزیر خارجہ پاکستان اور بھارت کا دورہ آئندہ ماہ کریں گی۔ وہ 6 سے 7 اکتوبر تک بھارت کا دورہ کریں گی جس کے بعد دو روزہ دورے پر پاکستان آئینگی۔ جہاں پر ان کی اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں متوقع ہیں۔
اے ایف پی کے مطابق امریکا میں بائیڈن کی حکومت آنے کے بعد امریکی نائب وزیر خارجہ وینڈی شیرمین پاکستان کا دورہ کرنے والی دوسری شخصیت ہوں گی اس سے قبل سی آئی اے چیف بل برنز بھی ایک روزہ دورہ کر چکے ہیں۔
اے ایف پی کے مطابق پیر والے دن واشنگٹن پوسٹ میں کالم لکھتے ہوئے وزیراعظم پاکستان عمران خان الزام تراشی کے کھیل کو جاری رکھنے کے بجائے ایک اور تنازع سے بچنے کے لیے مستقبل پر نظریں جمانے پر زور دیا اور کہا ہے کہ پاکستان کو افغانستان کی جنگ کے نتائج اور امریکا کے نقصانات کے لیے ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جانا چاہیے۔
یاد رہے کہ وزیراعظم نے لکھا تھا کہ اب ہمیں افغانستان میں ایک اور پرتشدد تنازع کو روکنے کے لیے مستقبل کی جانب دیکھنا چاہیے۔ پاکستان کو یقیناً اس بات کا مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا کہ 3 لاکھ سے زائد تربیت یافتہ اور بہترین اسلحہ سے لیس افغان سیکیورٹی فورسز کو کم مسلح طالبان سے نہ لڑنے کی کوئی وجہ نہیں دکھی۔ بنیادی مسئلہ ایک افغان حکومت کا اسٹرکچر تھا جو افغانوں کی نظر میں جائز نہیں تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کے بارے میں کانگریس کی حالیہ سماعتوں کو دیکھ کر میں حیران رہ گیا کہ دو دہائیوں سے زیادہ عرصے تک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکی اتحادی کی حیثیت سے پاکستان کی قربانیوں کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا بلکہ اس کے بجائے ہمیں امریکا کے نقصان کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ 2001 کے بعد سے میں نے متعدد مرتبہ خبردار کیا کہ افغان جنگ، ان کی تاریخ کو دیکھتے ہوئے ناقابل فتح ہے، افغان کبھی بھی غیر ملکی عسکری موجودگی کو قبول نہیں کریں گے اور پاکستان سمیت کوئی بھی حقیقت کو تبدیل نہیں کر سکتا۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے نائن الیون کے بعد آنے والی پاکستانی حکومتوں نے غلطیوں کی نشاندہی کرنے کے بجائے امریکا کو خوش کرنے کی کوشش کی اور پاکستان کے فوجی آمر پرویز مشرف نے نائن الیون کے بعد فوجی مدد کے ہر امریکی مطالبے پر اتفاق کیا جس کی قیمت پاکستان اور امریکا کو بہت زیادہ اٹھانا پڑی۔ ان گروپس کو نشانہ بنانے کا کہا گیا جنہیں سی آئی اے اور ہماری خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی نے مشترکہ طور پر تربیت دی تھی تاکہ 1980 میں افغانستان میں سوویت یونین کو شکست دے سکیں، اس وقت ان افغانوں کو ایک مقدس فریضہ انجام دینے والے آزادی پسندوں کے طور پر سراہا گیا تھا اور سابق امریکی صدر رونالڈ ریگن نے وائٹ ہاؤس میں مجاہدین کی میزبانی بھی کی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ دہشتگردی کیخلاف جنگ میں ہمارے 35 لاکھ شہریوں کو بے گھر ہونے پر مجبور کیا، پاکستان کے انسداد دہشت گردی کی کارروائی سے فرار ہونے والے عسکریت پسند افغانستان میں داخل ہوئے اور پھر بھارتی اور افغان انٹیلی جنس ایجنسیوں کی مدد اور مالی اعانت سے ہمارے خلاف مزید حملے کیے۔ پاکستان کو اپنی بقا کی جنگ لڑنی پڑی اس کے باوجود امریکا ہم سے افغانستان کی جنگ کے لیے مزید کام کرنے کو کہتا رہا۔ اس سے ایک سال قبل 2008 میں، میں اس وقت جو بائیڈن، جان ایف کیری اور ہیری ایم ریڈ سمیت دیگر سے ملا اور انہیں افغانستان میں فوجی مہم جاری نہ رکھنے پر زور دیا تھا۔
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ اس کے باوجود نائن الیون کے بعد اسلام آباد میں سیاسی فوائد غالب رہے اور میرے ملک کی قیادت کرنے والے سب سے کرپٹ شخص آصف زرداری نے امریکیوں سے کہا کہ وہ پاکستانیوں کو نشانہ بناتے رہیں کیونکہ جانی نقصان آپ امریکیوں کو پریشان کرتا ہے، مجھے نہیں، ہمارے اگلے وزیراعظم نواز شریف کا نظریہ بھی اس سے مختلف نہیں تھا۔ جہاں پاکستان نے 2016 تک زیادہ تر دہشت گردوں کو شکست دے دی تھی، افغان صورتحال بدستور خراب ہوتے چلی گئی جیسا کہ ہم نے خبردار کیا تھا، یہ فرق کیوں؟ پاکستان کے پاس ایک باوقار فوج اور خفیہ ایجنسی ہے، دونوں کو عوامی حمایت حاصل ہے۔