کابل: (ویب ڈیسک) افغانستان میں طالبان کے اہم رہنما ملا نورالدین ترابی کا کہنا ہے کہ ملک میں ایک بار پھر مجرموں کو سزائے موت اور ہاتھ کاٹنے جیسی سزاؤں کا آغاز کرینگے، تاہم اس مرتبہ یہ سزائیں شاید سر عام نہ دی جائیں۔
امریکی خبر رساں ادارے کے مطابق نور الدین ترابی نے ماضی میں طالبان کی جانب سے مجرموں کو دی جانے والی پھانسی کی سزاؤں پر بعض حلقوں کی جانب سے کی جانے والی تنقید کو بھی مسترد کردیا۔ یہ سزائیں بعض اوقات کسی سٹیڈیم میں ہجوم کے سامنے دی جاتی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ افغانستان کے داخلی معاملات میں مداخلت نہ کرے۔ سٹیڈیم میں دی جانے والی ان سزاوں کی سب نے نکتہ چینی کی لیکن ہم نے ان کے قوانین اور ان کے یہاں دی جانے والی سزاوں کے بارے میں کبھی کچھ نہیں کہا۔ کسی کو ہمیں بتانے کی ضرورت نہیں ہے ہمارے قوانین کیسے ہونے چاہئے۔ ہم اسلام پر عمل کریں گے اور قرآن کی ہدایات کی روشنی میں اپنے قوانین ترتیب دیں گے۔
نورالدین ترابی نے کہا کہ اس بار علما کی بجائے ججز، جن میں خواتین بھی شامل ہوں گی، مقدمات کا فیصلہ کریں گے لیکن افغانستان کے قوانین کی بنیاد قرآن ہی ہو گا۔ پرانی سزائیں بحال کی جائیں گی۔
انہوں نے کہا کہ ہاتھ کاٹنا سکیورٹی کے لیے بہت ضروری ہے کیونکہ اس کا ایک مختلف ہی اثر پڑتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کابینہ اس بات پر غور کر رہی ہے کہ سرعام سزائیں دی جائیں یا نہیں اور اس حوالے سے پالیسی تیار کی جائے گی۔ اب ٹیلی ویژن، موبائل فون، تصاویر اور ویڈیو کی اجازت دے دی ہے ”کیونکہ یہ عوام کی ضرورت ہے اور ہم اس حوالے سے سنجیدہ ہیں۔