معافی قبول، سپریم کورٹ کا ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضیٰ وہاب کو ہٹانے کا حکم واپس

Published On 27 December,2021 10:47 am

کراچی: (دنیا نیوز) سپریم کورٹ نے ایڈمنسٹریٹر کراچی کی معافی قبول کرتے ہوئے مرتضیٰ وہاب سے متعلق فیصلہ واپس لے لیا۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے مرتضیٰ وہاب کو سیاسی تعلق سے بالاتر ہو کر ذمہ داری ادا کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ سیاسی دباؤ اور تعلق سے ہٹ کر فرائض سرانجام دیں۔

 سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں گٹر باغیچہ کیس کی سماعت کے دوران اشتعال میں آنے پر سپریم کورٹ نے مرتضی وہاب پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ایڈمنسٹریٹر کراچی کو فوری ہٹانے کا حکم دیا اور کہا مرتضیٰ وہاب ایڈمنسٹریٹر کے بجائے سیاست دان کے طور پر ایکٹ کر رہے ہیں، غیر جانبدار طریقہ اختیار نہیں کر سکتے تو عہدے پر نہیں رہ سکتے۔ عدالت نے ایڈمنسٹریٹر کراچی کی معافی قبول کرتے ہوئے مرتضیٰ وہاب سے متعلق فیصلہ واپس لے لیا۔

چیف جسٹس گلزاراحمد نے ریمارکس دیئے کہ وقت آگیا ہے کے ایم سی کی ساری سوسائٹیز ختم کر دی جائیں، کے ایم سی والوں نے سوچا، سب بیچو مرضی سے، رفاہی پلاٹس بیچ کر خوب مال بنایا گیا۔ جسٹس قاضی امین نے کہا کہ ایک چھوٹے آفس میں بیٹھا افسر وائسرائے بن جاتا ہے، یہی ہمارا المیہ ہے۔ چیف جسٹس نے مرتضیٰ وہاب سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ تمام پارکس بحال کرنا ہوں گے۔ جس پر مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ اس شہر میں مشکلات کو آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔

ادھر سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں نسلہ ٹاور گرانے کے کیس کی سماعت ہوئی۔ کمشنر کراچی عدالت میں پیش ہوئے اور بتایا کہ اندر کا پورا اسٹرکچر گرا دیا گیا، پانچ فلور مکمل ختم کر دیئے۔ جسٹس قاضی امین نے استفسار کیا کمشنر کراچی کیا یہ رپورٹ آپ نے خود لکھی ؟ کمشنر کراچی نے کہا کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی حکام نے کام میں مداخلت کی، جس پر جسٹس قاضی امین نے کہا آپ نے ان سب کے خلاف کوئی مقدمہ درج کیا ؟۔

عدالت نے ڈی جی ایس بی سی اے کو روسٹرم پر طلب کرلیا۔ چیف جسٹس نے ڈی جی ایس بی سی اے سے استفسار کیا کیا آپ نے مداخلت کی ؟ جس پر ڈی جی ایس بی سی اے نے کہا کہ ہماری طرف سے کسی قسم کی کوئی مداخلت نہیں کی گئی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جس جس نے مداخلت کی سب توہین عدالت کے مرتکب ہوئے۔

جسٹس قاضی امین نے کہا کہ سب کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہونی چاہیے، آپ سرکاری افسر ہیں، کام میں مداخلت کی ہمت کیسے ہوئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ چار سو مزدوروں سے ابھی عمارت نہیں گرائی گئی۔

 نسلہ ٹاور کیس: سپریم کورٹ کا بلڈنگ کی زمین عدالتی تحویل میں لینے کا حکم

نسلہ ٹاور متاثرین کیلئے بڑا ریلیف، سپریم کورٹ نے بلڈنگ کی زمین عدالتی تحویل میں لینے کا حکم دیتے ہوئے کیس پراپرٹی سے منسلک کر دیا۔ عدالت نے کمشنر کراچی کو 15 روز میں عمارت مکمل گرانے کا حکم دیتے ہوئے تمام وسائل بروئے کار لانے کی ہدایت کر دی۔

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں نسلہ ٹاور گرانے کے کیس کی سماعت ہوئی۔ کمشنر کراچی عدالت میں پیش ہوئے اور بتایا کہ اندر کا پورا اسٹرکچر گرا دیا گیا، پانچ فلور مکمل ختم کر دیئے۔ جسٹس قاضی امین نے استفسار کیا کمشنر کراچی کیا یہ رپورٹ آپ نے خود لکھی ؟ کمشنر کراچی نے کہا کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی حکام نے کام میں مداخلت کی، جس پر جسٹس قاضی امین نے کہا آپ نے ان سب کے خلاف کوئی مقدمہ درج کیا ؟۔

عدالت نے ڈی جی ایس بی سی اے کو روسٹرم پر طلب کرلیا۔ چیف جسٹس نے ڈی جی ایس بی سی اے سے استفسار کیا کیا آپ نے مداخلت کی ؟ جس پر ڈی جی ایس بی سی اے نے کہا کہ ہماری طرف سے کسی قسم کی کوئی مداخلت نہیں کی گئی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جس جس نے مداخلت کی سب توہین عدالت کے مرتکب ہوئے۔

جسٹس قاضی امین نے کہا کہ سب کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہونی چاہیے، آپ سرکاری افسر ہیں، کام میں مداخلت کی ہمت کیسے ہوئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ چار سو مزدوروں سے ابھی عمارت نہیں گرائی گئی۔

نسلہ ٹاور گرانے کا کیس: ڈی جی ایس بی سی اے کیخلاف ایف آئی آر درج کرنیکا حکم

سپریم کورٹ نے نسلہ ٹاور گرانے کے کیس میں ڈی جی ایس بی سی اے کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دے دیا۔ عدالت نے توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتے ہوئے ایک ہفتے میں ڈی جی کے خلاف انکوائری کرکے رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کر دی۔

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں نسلہ ٹاور گرانے کے کیس کی سماعت ہوئی۔ کمشنر کراچی عدالت میں پیش ہوئے اور بتایا کہ اندر کا پورا اسٹرکچر گرا دیا گیا، پانچ فلور مکمل ختم کر دیئے۔ جسٹس قاضی امین نے استفسار کیا کمشنر کراچی کیا یہ رپورٹ آپ نے خود لکھی ؟ کمشنر کراچی نے کہا کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی حکام نے کام میں مداخلت کی، جس پر جسٹس قاضی امین نے کہا آپ نے ان سب کے خلاف کوئی مقدمہ درج کیا ؟۔

عدالت نے ڈی جی ایس بی سی اے کو روسٹرم پر طلب کرلیا۔ چیف جسٹس نے ڈی جی ایس بی سی اے سے استفسار کیا کیا آپ نے مداخلت کی ؟ جس پر ڈی جی ایس بی سی اے نے کہا کہ ہماری طرف سے کسی قسم کی کوئی مداخلت نہیں کی گئی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جس جس نے مداخلت کی سب توہین عدالت کے مرتکب ہوئے۔

جسٹس قاضی امین نے کہا کہ سب کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہونی چاہیے، آپ سرکاری افسر ہیں، کام میں مداخلت کی ہمت کیسے ہوئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ چار سو مزدوروں سے ابھی عمارت نہیں گرائی گئی۔

 

Advertisement