راولپنڈی: (ویب ڈیسک) ترجمان پاک فوج میجر جنرل بابر افتخار نے کہا ہے کہ افواج پاکستان قومی سلامتی پالیسی کے وژن کے مطابق کرداراداکریں گی۔
نیشنل سکیورٹی پالیسی کی منظوری کے بعد پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل بابر افتخار کی طرف سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر جاری کردہ بیان کے مطابق قومی سلامتی پالیسی کااجراءاہم سنگ میل ہے۔ پاکستان کی قومی سلامتی مضبوط بنانےمیں پالیسی انتہائی اہم ہے۔
#NSP is an imp milestone in strengthening National Security of Pakistan. The comprehensive framework, recognizes interlinkages between various strands of national security, imperative to meet emerging challenges (1/2)
— DG ISPR (@OfficialDGISPR) December 28, 2021
…in evolving global environment through a whole of government effort. Pakistan’s Armed Forces will play their due part in achieving the vision laid out in the policy. (2/2)
— DG ISPR (@OfficialDGISPR) December 28, 2021
ترجمان پاک فوج کے مطابق جامع فریم ورک، قومی سلامتی کے پہلوؤں پر باہمی روابط کو تسلیم کرتی ہے۔ قومی سلامتی پالیسی ابھرتے چیلنجز سے نمٹنے کیلئے ناگزیر ہے۔ حکومت نےعالمی صورتحال دیکھتےہوئے پالیسی تشکیل دی۔ افواج پاکستان قومی سلامتی پالیسی کے وژن کے مطابق کرداراداکریں گی۔
مشیر برائے قومی سلامتی ڈاکٹر معید یوسف:
دوسری جانب مشیر برائے قومی سلامتی معید یوسف نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹرپر جاری اپنے ٹوئٹ میں کہاکہ وفاقی کابینہ نے پہلی قومی سلامتی پالیسی کی منظوری دے دی ہے، یہ منظوری صحیح معنوں میں تاریخی کامیابی ہے۔
معید یوسف کا مزید کہنا ہے کہ گزشتہ روز نیشنل سیکیورٹی کمیٹی نے پالیسی کی توثیق کی تھی، اقتصادی تحفظ کے ساتھ پالیسی پر اب سنجیدگی سے عمل کیا جائے گا،پالیسی مختلف شعبوں کی پالیسیاں بنانے میں معاون ہوگی۔
3/5. I would like to thank the civil and military leadership for all their support and input. The Policy would not have seen the light of day without the Prime Minister’s constant leadership and encouragement.
— Moeed W. Yusuf (@YusufMoeed) December 28, 2021
معید یوسف کا کہنا تھا کہ پالیسی کی حمایت پر سول اور عسکری قیادت کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں، وزیر اعظم کی حوصلہ افزائی کے بغیر پالیسی کا منظور ہونا مشکل تھا، پالیسی کی کامیابی کا انحصار اس کے نفاذ پر ہے جس کی حکمت عملی تیار کرلی۔
وفاقی کابینہ نے پاکستان کی پہلی قومی سلامتی پالیسی کی منظوری دے دی
اس سے قبل وفاقی کابینہ نے ایک تاریخی اقدام کے طور پر شہریوں پر مرکوز ملک کی پہلی جامع قومی سلامتی پالیسی کی منظوری دے دی ہے جس کی بنیاد اقتصادی سلامتی پر مبنی ہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری کے ہمراہ مشترکہ میڈیا بریفنگ میں کابینہ اجلاس کے فیصلوں کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے مشیر برائے قومی سلامتی ڈاکٹر معید یوسف نے کہا کہ گزشتہ روز قومی سلامتی کمیٹی کی جانب سے قومی سلامتی پالیسی (این ایس پی) کی توثیق کے بعد کابینہ نے اس کی منظوری دے دی ہے۔ میں اس کامیاب کوشش پر پوری قوم کو مبارکباد پیش کرنا چاہتا ہوں کیونکہ اگر کسی ملک کا قومی سلامتی کا وژن غیر واضح ہے تو اس کے تحت پالیسی بنانا بہت مشکل ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس پالیسی میں قومی سلامتی کے مجموعی پہلوؤں پر توجہ مرکوز کی گئی ہے اور وزیر اعظم کی قیادت میں یہ ضابطہ بندی کی گئی ہے کہ اقتصادی سلامتی پالیسی کا بنیادی مرکز ہوگی۔ مضبوط معیشت دفاعی اور انسانی سلامتی پر مزید اخراجات کو یقینی بنا سکے گی۔ بیرونی اقدامات کے حوالے سے پالیسی کا مقصد ’’امن‘‘ہے۔ نیشنل سکیورٹی پالیسی کے تحت قومی ہم آہنگی کے لئے ملک نے اپنے ثقافتی اور نسلی تنوع کے سب سے اہم پہلو کی نشاندہی کی ہے، اس حوالے سے قومی اتحاد قائم کیا جانا چاہئے۔ ہم ایک اسلامی ریاست ہیں اور اسلامی ملک کا نظریہ رکھتے ہیں لہذا قومی ہم آہنگی کے پالیسی پہلوؤں کو ملک کے تنوع پر مرکوز ہونا چاہئے، تنوع کے تمام پہلوؤں کو پالیسی کے دیگر عناصر کے ساتھ ساتھ لیا جائے گا۔ خارجہ امور کے حوالے سے ہمارا مقصد ہمسایہ ممالک اور دیگر ملکوں کے ساتھ امن ہے جبکہ تعلیم کو بھی معیشت کا حصہ بنایا گیا ہے۔
مشیر قومی سلامتی کا کہنا تھا کہ نیشنل سکیورٹی پالیسی کے انسانی تحفظ کے پہلوؤں کی بنیادی توجہ آبادی ہے جو تحفظ صحت، آب و ہوا اور پانی، خوراک کی حفاظت اور صنف کے متعلق ہے۔ جہاں تک اقتصادی سلامتی کا تعلق ہے، اس پالیسی نے اس پر مناسب بحث کی ہے۔ پاکستان کی دوسری اہم تشویش معیاری انسانی وسائل کی تیاری ہے جو کہ مقامی سطح پر معیشت پر حتمی اثرات مرتب کرے گی، مزید برآں اقتصادی تحفظ کے باب میں بھی بات چیت کی گئی، پالیسی کے دیگر عناصر خودمختاری، علاقائی سالمیت پر روشنی ڈالتے ہیں جو دفاع اور فوجی سلامتی سے متعلق ہے۔
انہوں نے کہا کہ قومی سلامتی پالیسی کی تشکیل کا عمل 2014 میں دوبارہ شروع ہوا جو 7 سال میں مکمل ہوا کیونکہ اس میں بہت سی حساسیتیں اور پیچیدگیاں تھیں جبکہ اس عمل میں بڑے پیمانے پر گفت و شنید کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ تمام وفاقی وزارتوں اور صوبوں کے چار راؤنڈ کئے گئے ہیں جہاں انہوں نے گزشتہ سالوں میں ان پٹ دیا ہے۔ سول ملٹری قیادت اور اداروں نے مل کر کام کیا اور تمام سٹیک ہولڈرز کے اتفاق رائے کے بعد دستاویز کی منظوری دی گئی۔
ڈاکٹر معید یوسف نے نجی شعبے، تعلیمی اداروں اور ماہرین کی عدم شرکت کے حوالے سے تنقید کے بارے میں کہا کہ 2014 سے تعلیمی اداروں، یونیورسٹیوں کے طلباء اور نجی شعبے سے تعلق رکھنے والے 600 سے زائد پاکستانی ماہرین نے پالیسی بنانے کے لئے اپنا کلیدی ان پٹ فراہم کیا۔ یہ ایک بھرپور مشاورتی عمل تھا جہاں اس دستاویز کے ایک ایک لفظ پر وسیع بحث کی گئی۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ وزیر اعظم نے ہدایت کی ہے کہ قومی سلامتی ڈویژن (این ایس ڈی) پالیسی کے نفاذ اور اس حوالے سے درپیش درپیش مسائل کے بارے میں این ایس سی کو ماہانہ بنیادوں پر آگاہ کرے گا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ یہ اجتماعی طور پر ایک خفیہ دستاویز ہوگی لیکن اگلے ہفتے یا دس دنوں میں وزیر اعظم کی جانب سے مکمل عوامی ورژن جاری کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ پالیسی میں قومی سلامتی اور قومی معیشت کے باب شامل ہیں، اس حوالے سےجتنا زیادہ بحث کی جائے گی اتنا ہی بہتر ہوگا۔
انہوں نے پوری قوم کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں اپنے تمام ساتھیوں، سول اور مسلح افواج کی قیادت کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہوں گا جنہوں نے اہم کردار ادا کیا۔
ڈاکٹر معید نےمختلف سوالات کے جواب میں کہا کہ قومی سلامتی پالیسی ایک چھتری ہے جس میں معاشی، انسانی، داخلی، فوجی اور دیگر سیکورٹی خدشات جیسے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ پیر کو وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی (این ایس سی) کا اجلاس ہوا جس میں ملک کی پہلی قومی سلامتی پالیسی کی منظوری دی گئی۔
اجلاس کے دوران پاکستان کی پہلی قومی سلامتی پالیسی 2022-2026 کو قومی سلامتی کے مشیر نے منظوری کے لیے پیش کیا۔ اجلاس میں وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی، وزیر دفاع پرویز خٹک، وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری، وزیر داخلہ شیخ رشید احمد، وزیر خزانہ شوکت ترین، وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی، تمام سروسز چیفس، قومی سلامتی کے مشیر اور دیگر اعلیٰ سول اور فوجی حکام نے شرکت کی۔