اسلام آباد: (دنیا نیوز) وزیراعظم نے کہا ہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں، پاکستان طالبان حکومت کو تنہا تسلیم نہیں کرسکتا، تمام علاقائی ممالک سے مشاورت کر رہے ہیں، پڑوسی ملک میں امن ہوگا تو دہشتگردوں کو پنپنے کی جگہ نہیں ملے گی۔
وزیراعظم عمران خان نے فرانسیسی جریدے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک متنازعہ مسئلہ ہے، بھارتی حکومت کا نظریہ ہی نفرت کا ہے، بھارت سے اچھے تعلقات 5 اگست کا اقدام واپس لینے سے مشروط ہیں، مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر بے چینی پائی جاتی ہے، بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے تعلقات خراب کیے، بھارت نے یکطرفہ طور پر کشمیر کی حیثیت تبدیل کی، بھارت نے کشمیر کو ایک کھلی جیل میں تبدیل کر دیا، سنکیانگ چین کا حصہ ہے، کوئی متنازع علاقہ نہیں۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان معاشی طور پر اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی کوشش کر رہا ہے، جب حکومت سنبھالی تو ملک دیوالیہ تھا، ہمارے پاس واجبات ادا کرنے کیلئے پیسے نہیں تھے، ہماری توجہ کا مرکز ملکی معیشت ہے، معیشت کو تب اوپر لے جاسکتے ہیں جب دنیا کیساتھ اچھے تعلقات ہوں۔ انہوں نے کہا کہ جب پہلے طالبان کی حکومت آئی تو شمالی اتحاد کے ساتھ تنازع چل رہا تھا، مستحکم افغانستان سے بین الاقوامی دہشتگردوں کے پنپنے کا امکان کم ہو جائے گا۔
وزیراعظم نے کہا کہ افغانستان کا کوئی عسکری حل نہیں تھا، پاکستان اکیلا طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کرسکتا، افغانستان سے 3 گروپس پاکستان کیخلاف سرگرم ہیں، موجودہ افغان عارضی سیٹ اپ کے بعد کوئی سنگین واقعہ نہیں ہوا، افغانستان کی مالی مدد نہ کی گئی تو انسانی بحران کا خدشہ ہے، طالبان حکومت سے کہا آپ کی سرزمین ہمارے خلاف استعمال نہ ہو، چاہتے ہیں طالبان بھی ایسا کریں جس سے مغربی طاقتوں کا ان پر اعتماد بحال ہو، امریکا کے ساتھ ہمیشہ اچھے تعلقات رہے، میں نہیں چاہتا تھا پاکستان امریکا کی جنگ میں شامل ہو۔