لاہور: (خاور گھمن) تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے خبریں رکنے کا نام ہی نہیں لے رہیں۔ ہر دن نہیں بلکہ ہر گھنٹے آپ کو ایک نیا زاویہ دکھائی دیتا ہے۔ کون کس سے ملاقات کر رہا ہے؟ اگر ملا قات ہوئی ہے تو اس ملاقات میں کیا کچھ طے پایا؟شہباز شریف کی جہانگیر خان ترین سے ملاقات۔ پھر ترین صاحب کا بلاول بھٹو زرداری سے آمنا سامنا۔ اسی دوران گورنر پنجاب چوہدری سرور کی چوہدری مونس الٰہی کے ساتھ گورنر ہاؤس میں کھانا کھاتے تصویر۔ ان ملاقاتوں کا سیاق وسباق کچھ بھی ہو میڈیا پر صرف اور صرف ایک ہی زاویہ پیش کیا جا رہا ہے اور وہ ہے اپوزیشن کی طرف سے تحریک عدم اعتماد۔
زیادہ تر ایک ہی خبر میڈیا کی زینت بن رہی ہے وہ یہ کہ اپوزیشن نے حکومتی اتحادیوں اور اس کے ناراض ارکان سے تحریک انصاف کی حکومت کو گرانے کیلئے مدد مانگ لی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہر روز اپوزیشن کی طرف سے حکومت کو گھر بھجوانے کیلئے مطلوبہ تعداد میں ارکانِ اسمبلی کی طرف حمایت کا دعویٰ بھی سننے کو ملتا ہے۔ ظاہر ہے حکومت کی طرف سے جوابی دعوے بھی کئے جاتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ اپوزیشن کل تحریک عدم اعتماد لانا چاہتی ہے تو آج لے آئے ہم تیار ہیں۔ ہمارے اتحادی ہمارے ساتھ ہیں۔ ہمیں حکومت کے گر جانے کا کوئی خوف نہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا اگر مجھے نکالا تو میں اپوزیشن کے لیے اور بھی خطرناک بن جاؤں گا۔ لہٰذا یہ دعوے اور جوابی دعوے جاری و ساری ہیں۔
ہر دم بنتے بگڑ تے ملکی سیاسی منظر نامے کو اگر سامنے رکھیں تو ابھی تک سب سے مناسب تبصرہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز شریف کی طرف سے کیا گیا ہے۔ مریم صاحبہ کا کہنا ہے کہ تحریک عدم اعتماد ایک رسکی عمل ہو گا۔ لیکن اپوزیشن کو یہ رسک لینا چاہیے۔ اس پر سب سے اہم سوال جو اسلام آباد کے حلقوں میں پوچھا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ اگر ایک طرف اپوزیشن والے اتنے پر اعتماد دکھائی دے رہے ہیں تو مریم صاحبہ کے نزدیک یہ اتنا رسکی عمل کیوں ہے؟ اگر ایسا ہے تو وہ کونسے چیلنجز یا پھر خطرات موجود ہیں جن کی طرف مریم صاحبہ نے اشارہ کیا ہے؟ اس سوال کو لے کر جب ہماری بات شہر اقتدار میں موجود مختلف با خبر ذرائع سے ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ مریم نوازشریف نے بحیثیت سینئر پارٹی لیڈر اور اپنے والد کے قریب ہو تے ہوئے ٹھیک بات کی ہے۔ سب سے پہلا خطرہ یا رسک یہ ہے کہ کیا پیپلزپارٹی صدق دل سے پی ڈی ایم کے ساتھ کھڑی ہو گی؟
ابھی حال ہی میں جس طرح سینیٹ میں پیپلزپارٹی نے منی بل پر غیر حاضر رہ کر حکومت کا ساتھ دیا وہ سب کے سامنے ہے اور اس کے بعد جس طرح دونوں اطراف میں لفظی گولہ باری ہوئی اس کو کون بھول سکتا ہے۔ دوسرا بڑا اور سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ اپوزیشن تحریک عدم اعتماد پیش کرے اور ووٹنگ والے دن ناکام ہو جائے۔ ظاہر ہے اسلام آباد کو آنے والے تمام راستے پنجاب اور خیبر پختونخوا سے ہو کر آتے ہیں اور ان دونوں صوبوں میں اس وقت تحریک انصاف کی حکومت ہے۔ ماضی میں جب بینظیربھٹو کے خلاف تحریک پیش ہوئی تھی تو ارکانِ اسمبلی کو زور زبردستی پارلیمنٹ میں آنے سے روکا گیا تھا۔ ظاہر ہے اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ اپوزیشن کے لئے اور خاص طور پر ن لیگ کے لیے بہت برا ہوگا۔ لوگوں میں یہ تاثر جائے گا کہ عمران خان کی حکومت ابھی بھی مضبو ط بنیادوں پر کھڑی ہے۔ اس کا اثر آنے والے بلدیاتی انتخابات پر پڑے گا اور اس کے بعد عام انتخابات بھی ہیں۔
تیسرا بڑا خطرہ یہ ہو سکتا ہے کہ تھوڑی دیر کیلئے مان لیتے ہیں تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد کیا ہو گا؟ عمران خان سڑکوں پر ہوں گے، ہر روز جلسے جلوس نکالیں گے، حکومت کو ٹف ٹائم دیں گے۔ ا پنی انتخابی مہم چلائیں گے۔ موجودہ معاشی حالات کو اگر سامنے رکھیں تو نئی بننے والی حکومت کے پاس لوگوں کو دینے کے لیے کچھ نہیں ہو گا۔ ممکن ہے آئندہ عام انتخابات سے پہلے پی ڈی ایم والوں کو لینے کے دینے پڑ جائیں۔ اور سب سے اہم معاملہ جو کہ مریم نواز شریف صاحبہ کو ذاتی حیثیت میں پیش آسکتا ہے وہ یہ کہ اگر تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں شہبازشریف وزیراعظم بنتے ہیں اور معاملات کو سنبھال لیتے ہیں تو پھر ظاہر ہے اس کا فطری نتیجہ یہ ہوگا کہ حمزہ شہباز شریف ملکی سیاست میں مضبوط بن کر نکلیں گے اور مریم نواز شریف کو بیک سیٹ لینا پڑے گی۔
کیا اس سب کیلئے مریم صاحبہ اور ان کے قریبی لوگ تیار ہیں؟ خاص طور پر بذات خود نواز شریف اور ان کے حلقہ احباب کے لوگ جو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ نہیں چلنا چاہتے۔ مریم نواز کے پاس اپنی سیاست کو مزید مستحکم کرنے کیلئے ابھی بہت وقت پڑا ہے لہٰذا ان کی اور ان کے قریبی لوگوں کی رائے ابھی تک تحریک عدم اعتماد کے خلاف رہی ہے ۔انہیں اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کا سب سے زیادہ منفی اثر ان کے ’’ ووٹ کو عزت دو‘‘ اور مزاحمتی کردار پر پڑے گا۔ ن لیگ کے قریبی لوگوں کی رائے ہے کہ یہ رسک ایک ہی صورت میں پارٹی کیلئے فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے کہ ملک میں عام انتخابات کا جلد سے جلد انعقاد عمل میں لایا جائے۔ کیا ایسا ہوتا ہوا نظر آرہا ہے؟ اس حوالے سے ابھی تک بہت سے ابہام باقی ہیں۔
کیا پیپلز پارٹی اس کیلئے تیار ہے۔ اگر تیار ہے تو بڑا آسان سا نسخہ ہے اور وہ ہے سندھ اسمبلی کی تحلیل اور نیشنل اسمبلی سے استعفیٰ۔ یہ آپشن اس سے پہلے بھی کافی دفعہ زیر بحث آیا لیکن پی پی پی نے ہمیشہ اس کیلئے انکار کیا ۔ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں اگر انتخابات کروانے میں دیر ہو جاتی ہے تو اس کا سب سے زیادہ نقصان ن لیگ کو ہوگا۔ اسی لیے مریم نواز شریف اس سارے عمل کو ایک رسکی عمل گردان رہی ہیں۔ فی الوقت ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ اب دیکھتے ہیں آنے والے دنوں میں ملکی سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔