لانگ مارچ میں شمولیت، ن لیگ تذبذب کا شکار

Published On 03 March,2022 09:39 am

لاہور: (خاور گھمن) پاکستان پیپلزپارٹی نے اپنا لانگ مارچ27 فروری کو کراچی سے شروع کر دیا ہے۔ پچھلے ہفتے جب لاہور میں آصف علی زرداری صاحب کی شہبازشریف اور مولانا فضل الرحمن صاحب سے ملاقاتیں ہو رہی تھیں تو ایسا لگ رہا تھا شاید پیپلزپارٹی اور پی ڈی ایم کے درمیان فاصلے ختم ہونے جا رہے ہیںلیکن حالات بتا رہے ہیں کہ ایسا نہیں ہو سکا۔ اگر ایسا ہو جاتا تو ظاہر ہے پی ڈی ایم میں دوبارہ جان پڑ جاتی اور ان کی حکومت مخالف تحریک بھی بھرپور انداز سے آگے بڑھتی۔ ایسا کیوں نہ ہو سکا اس حوالے سے مختلف خبریں سامنے آرہی ہیں۔ لیکن ایک خبر جس پر زیادہ تر مبصرین کا اتفاق ہے وہ ہے تحریک عدم اعتماد۔ اگر یہ تحریک کامیاب ہو جاتی ہے تو اس کے بعد لائحہ عمل کیا ہو گا؟ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور مولانا فضل الرحمن ملک میں فوری انتخابات چاہتے ہیں۔ اس کے بر عکسِ پیپلزپارٹی کا خیال ہے کہ عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد اسمبلیوں کو اپنا وقت پورا کرنا چاہیے۔

آج کل اسلام آباد کے حلقوں میں جو سب سے زیاد ہ سوال پوچھا جا رہا ہے وہ یہ کہ پیپلزپارٹی اور پی ڈی ایم کو ان مارچز سے کونسے سیاسی مقاصد حاصل ہوں گے؟ ایک حلقے کا خیال ہے پی پی پی شروع دن سے ہی اچھی سیاست کر رہی ہے۔ پی پی پی چیئرمین نے ہی پی ڈی ایم کو بنایا۔ بلاول کی دعوت پر مریم نواز شریف لاڑکانہ گئیں،وہاں تقریریں کیں، پورا ماحول بنایا۔ (ن) لیگ کی لیڈرشپ کو بھٹو زندہ باد کے نعرے لگانے پر مجبور کیا۔ اس کے بعد جو جلسوں کا سلسلہ چلا وہ بھی سب کے سامنے ہے۔

سینیٹ میں پی پی پی نے اپنے امیدوار یوسف رضا گیلانی کو بھی (ن) لیگ کے ووٹوں سے جتوایا۔ کم لوگ جانتے ہیں اسی دن خواتین کی سیٹ پر ن لیگ کی امیدوار سینیٹ سے ہار گئی تھیں۔ اگر وہ تمام ووٹ جو گیلانی صا حب کو پڑے تھے وہ (ن) لیگ کی امیدوار کو مل جاتے توہ وہ بھی جیت جاتیں ،لیکن ایسا نہ ہوا۔

پی پی پی کے جاری لانگ مارچ پر بات کرتے ہوئے ایک سینئر پارٹی لیڈر کا کہنا تھا کہ ان کی پارٹی کے لیے اب ہر دو صورتوں میں جیت ہی جیت ہے۔ سندھ میں ہماری حکومت قائم ہے۔ اس لانگ مارچ کے ذریعے چیئرمین بلاول پارٹی کو پنجاب میں دوبارہ سے کھڑا کرنے کی کوشش کریں گے جس کی پارٹی کو اشد ضرورت ہے۔ بلدیاتی انتخابات آنے والے ہیں۔ ساری پارٹیاں انتخابی موڈ میں جا چکی ہیں۔ مہنگائی کی وجہ سے فی الوقت تحریک انصاف ایک غیر مقبول جماعت بنی ہوئی ہے۔ اس لیے ایسے موقع پر پارٹی کو لانگ مارچ کے ذریعے لوگوں تک لے کر جانا ایک بہترین سیاسی حکمت عملی ہے۔ پی ڈی ایم ابھی سوچ ہی رہی ہے لانگ مارچ کا اور ہم لانگ مارچ کر رہے ہیں۔ اس لیے ہر لحاظ سے لانگ مارچ کا فیصلہ ایک بہترین فیصلہ ہے۔


دوسری طرف جب ہم(ن) لیگ پر نظر دوڑاتے ہیں تو وہ کبھی دو بیانیوں میں بٹی نظر آتی ہے تو کبھی پارٹی کے اندورنی اختلافات میڈیا کی زینت بنتے دکھائی اور سنائی دیتے ہیں۔ شاہد خاقان عباسی ایک بیان دیتے ہیں تو خواجہ آصف کسی دوسری طرف کھڑے نظر آتے ہیں۔

تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں پارٹی کی طرف سے وزیر اعظم کون بنے گا؟ ہر بات پر ابہام اور کنفیوژن پایا جاتا ہے۔ کبھی بتایا جاتا ہے کہ نواز شریف واپس آرہے ہیں، کبھی ایسی خبروں کی شدت سے تردید کی جاتی ہے۔ پھر ایک پارٹی لیڈر کہتا ہے نواز شریف کی صحت بہت زبردست ہے، اسی لمحے کورٹ کو دستاویز کے ذریعے بتایا جاتا ہے کہ ان کی صحت بہت خراب ہے، اتنی خراب کہ وہ ہسپتال سے دور نہیں رہ سکتے۔ ظاہر ہے ایسی خبروں کو لیکر پارٹی میں دوسرے اور تیسرے درجے کی قیادت میں بد دلی پیدا ہوتی ہے۔ یونیٹی آف کمانڈ کے حوالے سے لوگ مخمصے کا شکار رہتے۔ کوئی مانے یا نہ مانے ایک طرف پارٹی میں مریم نواز شریف کا اپنے والد کی وجہ سے سکہ چلتا ہے تو دوسری طرف شہباز شریف کے پاس پارٹی قیادت ہے۔ ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز شریف بھی پارٹی میں اپنا کردار چاہتے ہیں۔

(ن) لیگ کے قریبی حلقوں کا ماننا ہے کہ پارٹی کے اندر گروپ بندی کی خبر اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ پارٹی میں موجود لوگوں کو اچھی طرح علم ہے کون کون مریم نواز شریف کے قریب ہے اور کون شہباز شریف سے رہنمائی لیتا ہے۔

پی پی پی کے لانگ مارچ کے حوالے سے جب( ن) لیگ کے لوگوں سے بات ہوئی تو وہ اس بارے میں کچھ اچھے خیالات نہیں رکھتے۔ اب تو بات یہاں تک ہو رہی ہے کہ پی پی پی کا لانگ مارچ جب لاہور آئے تو نہ اس میں پارٹی قیادت شامل ہو اور نہ ہی پارٹی کارکنان۔ اس کی بڑی واضح دلیل یہ ہے کہ اس شمولیت سے فائدہ کس کو ہوگا؟ ظاہر ہے پی پی پی کو۔ اس لیے (ن) لیگ ایسا کیوں کرے گی۔ اگلا سوال( ن) لیگ کو مولانا فضل الرحمان کی قیادت میں لانگ مارچ سے کیا ملے گا ؟جو پی ڈی ایم 23 مارچ سے شروع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس حوالے سے (ن) لیگ کے ایک لیڈر کے مطابق پارٹی گو مگوں کی کیفیت کا شکار ہے۔ کیا ہمیں یہ لانگ مارچ کرنا بھی ہے یا نہیں۔

اسلام آباد میں موجود مبصرین کا خیال ہے کہ اب لانگ مارچز اور تحریک عدم اعتماد کا وقت نہیں رہا۔ اگلے سال عام انتخابات ہیں۔ اس سے پہلے بلدیاتی انتخابات ہونے ہیں۔ اس لیے تمام سیاسی جماعتوں کو اپنا زور انتخابات پر لگانا چاہیے۔ مارچز ضرور ہونے چاہئیں لیکن اس کا مقصد حکومت کی پالیسیوں کو ٹارگٹ کرنا ہو نہ کہ حکومت کو گرانا۔ کیونکہ ایسا کرنے سے آخر میں نقصان صرف اور صرف ان سیاسی جماعتوں کا ہی ہوگا۔ کم از کم ہماری سیاسی تاریخ ایسا ہی کہتی ہے۔