قصور: (دنیا نیوز) سابق وفاقی وزیر خارجہ سردار آصف احمد علی انتقال کر گئے۔
ان کے بیٹے سردار فاروق نے کہا کہ ان کی نماز جنازہ جمعہ کو 2 بجے احمد پور رائیونڈ روڈ پر ادا کی جائیگی۔وہ عارضہ قلب کے باعث لاہور کے نجی ہسپتال میں زیرِ علاج تھے، رات ساڑھے 10 بجے حرکت قلب بند ہونے سے انتقال ہوا۔
یاد رہے کہ سردار آصف احمد علی ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن رہ چکے ہیں ان کے والد سردار احمد علی بھی سیاست کے میدان سے تعلق رکھتے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد 1951ء اور پھر 1962ء میں ان کے والد پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 1977ء میں پیپلز پارٹی کی مدد سے قومی اسمبلی کا انتخاب لڑا اور کامیاب بھی ہوئے مگر قومی اتحاد کی اجتجاجی تحریک چلی تو بعض دیگر ارکان اسمبلی کے ہمراہ جن میں سردار شوکت حیات خان، امیر عبداللہ روکڑی اور میر بلخ شیر مزاری وغیرہ شامل تھے، قومی اسمبلی کی رکنیت سے بطور احتجاج استعفی دے دیا۔
سردار احمد احمد علی انجمن ارائیاں پاکستان کے صدر بھی رہے۔ آصف احمد علی اوکسفورڈ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ہیں۔ انہوں نے اپنے کیرئیر کا آغاز ایف سی کالج لاہور میں تدریس سے کیا مگر جلد ہی اپنی آزاد خیالی کے باعث اسلامی جمعیت طلباء کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور وہ درس و تدریس چھوڑ کر حکومت پنجاب کے مشیر بن گئے۔
1981ء میں عملی سیاست کا آغاز جنرل ضیاء الحق کی مجلس شوری سے کیا۔ 1985ء میں قصور سے غیر جماعتی انتخابات میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 1990ء میں آزاد امیدوار کے طور پر آئی جے آئی کی حمایت سے قومی اسمبلی کے رکن بنے اور میاں نواز شریف کی مرکزی کابینہ میں وزیر مملکت برائے اقتصادی امور مقرر ہوئے۔
5 اپریل 1993ء کو میاں نواز شریف کی برطرفی کے بعد وزیر اعظم بلخ شیر مزاری نے کابینہ بنائی تو سردار صاحب اس میں انسداد منشیات کے وزیر کے طور پر شامل تھے۔ 1993ء کے عام انتخابات میں مسلم لیگ جونیجو گروپ کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور بے نظیر بھٹو کی کابینہ میں بطور وزیر خارجہ شامل ہوئے۔ 6 نومبر 1996ء کو بے نظیر حکومت کی برطرفی کے بعد ان کی وزارت بھی چلی گئی۔ 2008ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت میں دوبارہ سرگرم ہوئے اور ڈپٹی چیرمین پلانگ کمشین مقرر ہوئے۔
انہوں نے پاکستان تحریک انصاف کو 2011 میں جوائن لر لیا تھا مگر بعد ازاں ٹکٹ کے معاملے پر انہوں نے پارٹی سے استعفی دے دیا انہیں اس بات پر اعتراض تھا کہ ان۔کے علاقہ سے روایتی حریف خورشید محمود قصوری کو جماعت نے ٹکٹ کیوں دیا ؟