اسلام آباد: (دنیا نیوز) قومی اسمبلی نے الیکشن ترمیمی بل 2022 منظور کر لیا جسکے تحت الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) اور اوورسیز ووٹنگ سے متعلق گزشتہ حکومت کی ترامیم ختم کردی گئی ہیں۔ اس کے بعد وفاقی حکومت نے ضروری قانون سازی جلد از جلد مکمل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
حکومت کی طرف سے قومی اسمبلی سے منظور ہونے والی قانون سازی کل سینیٹ سے منظور کرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے، وزراتِ پارلیمانی امور کی جانب سے قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کو آج ہی بل سینیٹ بھجنے کی ہدایت جاری کر دی گئی ہے۔
حکومتی ذرائع کے مطابق کل ہی الیکشن اور نیب ترمیمی بل کی ایوان بالا سے منظوری لی جائیگی، بلز کی منظوری کے بعد اتحادیوں کے انتخابی اصلاحات کے بعد الیکشن کا مطالبہ پورا ہو جائیگا، سینیٹ میں اپوزیشن نے بھی کل سینیٹرز کو حاضری یقینی بنانے کی ہدایات جاری کردی ہیں، حکومتی اور اتحادیوں کوسینیٹ میں اکثریت حاصل ہے۔
قومی اسمبلی :نیب ترمیمی بل 2021 کی دوسری ترمیم کثرت رائے سے منظور
اس سے قبل قومی اسمبلی میں نیب ترمیمی بل 2021 کی دوسری ترمیم کثرت رائے سے منظور کر لی گئی۔
سپیکر راجہ پرویز اشرف کی زیر صدارت قومی اسمبلی کے اجلاس میں بل وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے پیش کیا، بل کی شق وار منظوری دی گئی، بل کے متن میں کہا گیا ہے کہ چیئرمین نیب کی ریٹائرمنٹ کے بعد کا طریقہ کار وضع کر دیا، چیئرمین نیب کی ریٹائرمنٹ پر ڈپٹی چیئرمین قائم مقام سربراہ ہوں گے، ڈپٹی چیئرمین کی عدم موجودگی میں ادارے کے کسی بھی سینئر افسر کو قائم مقام چیئرمین کا چارج ملے گا۔
اس سے قبل وزیر پارلیمانی امور مرتضیٰ جاوید عباسی نے الیکشن اصلاحات ایوان میں پیش کیا۔ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے الیکشن اصلاحات بل پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کے ای وی ایم سے متعلق قانون سازی پر کافی اعتراضات تھے، قانون میں بہتری کی گنجائش رہتی ہے، 2018ء کے انتخابات میں کچھ کمی بیشی رہ گئی تھی جسے دور کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن ریفارمز کی آڑ میں سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں نہ لے کر الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا کہا گیا، الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے حوالے سے الیکشن کمیشن، فافن اور پلڈاٹ کا بھی موقف دیا گیا، تحریک انصاف کی حکومت میں اس قانون میں بہت سی ترمیم کی گئیں، ای وی ایم مشین پر الیکشن کمیشن نے بہت سے اعتراضات اٹھائے۔
وزیر قانون نے کہا کہ بہت کم فرق سے اس بل کو قومی اسمبلی سے پاس کروایا گیا، یہ بل سینیٹ میں آیا تو اسے کمیٹی میں بھیجا گیا، ہم نے اس کے اوپر بہت سے اجلاس کیے لیکن رولز کو بلڈوز کرتے ہوئے اس بل کو منظور کیا گیا۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اوورسیز پاکستانیوں کو کوئی بھی ووٹ کے حق سے محروم نہیں کر سکتا، اس حوالے سے ہمارے بارے میں افواہ ہے کہ شاید ہم اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ دینے کے حق میں نہیں ہیں، ہم ای وی ایم ٹیکنالوجی کے خلاف نہیں، ہم صرف ڈرتے ہیں کہ جب آر ٹی ایس بیٹھ سکتا ہے تو کچھ بھی ہوسکتا ہے۔
وزیر قانون نے مزید کہا کہ انتخابی اصلاحات کے لیے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے جس میں تمام سیاسی جماعتوں کی نمائندگی ہے صرف وہ لوگ شامل نہیں ہیں جو باہر درختوں اور املاک کو آگ لگا رہے ہیں۔
وزیر قانون کے اظہار خیال کے بعد سپیکر نے انتخابات ایکٹ 2017ء میں مزید ترمیم کرتے ہوئے انتخابات ترمیمی بل 2022ء کی ترامیم پیش کرنے کی اجازت دے دی بعدازاں اسے شق وار منظور کرلیا گیا اور الیکٹرانک ووٹنگ مشین سمیت اوورسیز ووٹنگ کے حوالے سے سابق حکومت کی ترامیم ختم کردی گئیں۔
بل کے مطابق انتخابات ایکٹ 2017ء کے سیکشن 94 اور سیکشن 103 میں ترامیم کی گئی ہیں۔ ترمیم میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن ضمنی انتخابات میں اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹنگ کے لیے پائلٹ پراجیکٹ کرے، الیکٹرانک اور بایو میٹرک ووٹنگ مشینوں کا بھی ضمنی انتخابات میں پائلٹ پراجیکٹ کیا جائے۔ ایوان میں وزیر پارلیمانی امور مرتضیٰ جاوید عباسی نے پیش کیا۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے بل پر بات کرتے ہوئے کہا کہ سابق وزیراعظم نہیں چاہتے تھے کہ اس ایوان میں قانون سازی ہو، سابق حکومت آرڈیننس کے ذریعے معاملات چلاتے رہے، ایک آرڈیننس چیئرمین نیب کے حوالے سے جاری کیا گیا اور توسیع دی گئی، اس کے بعد کچھ اور ترامیم کی گئیں جس کے ذریعے سول سرونٹس کو بھی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ بغیر کسی ثبوت کے سول سرونٹس کو جیل میں ڈالا گیا، سیاست دانوں کو ان کی آواز تبدیل کرنے کے لیے اس نیب کے قانون کو استعمال کیا گیا، ججز نے کہا کہ نیب کو سیاست دانوں کو دیوار سے لگانے کے لیے استعمال کیا گیا۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ہم نے حلف لیا ہے کہ آئین کے تابع قانون سازی کریں گے، آج ہم اس عقوبت خانے سے 22 کروڑ عوام کو نکالیں گے جو اس میں آسکتے ہیں، ہم یہ قانون بھگت چکے ہیں، ہم نہیں چاہتے کہ دیگر لوگ اس کا شکار ہوں، نیب کے اس قانون میں ناقابل ضمانت اختیارات کے ساتھ 90 روزہ ریمانڈ تھا۔
وزیر قانون نے کہا کہ 90 روز کا ریمانڈ دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کے لیے ہوتا ہے جن کی ذہن سازی کی جاسکتی ہے، جب کئی جرائم میں ضمانت ہے تو پھر نیب کے کیسز میں ضمانت کیوں نہیں؟ اس لیے اس نیب قانون کے خلاف ترامیم لے کر آرہے ہیں، ہم اس نظام کو بہتر کرنا چاہ رہے ہیں، نہ این آر او دینا چاہ رہے ہیں اور نہ لینا چاہ رہے ہیں، یہ پارلیمان ایسا قانون نہیں بناسکتی جو اسلام سے منافی ہو۔