لاہور : (سلمان غنی) بظاہر اب وفاقی اور پنجاب حکومت کو کوئی بڑے چیلنج درپیش نظر نہیں آ رہے لیکن ملک میں ہونے والی اس سیاسی تبدیلی کے بعد بڑے معاشی فیصلوں نے کسی حد تک پاکستان پر دیوالیہ ہونے کے خدشات اور خطرات کم کر دیئے ہیں۔ زمینی حقائق کا جائزہ لیا جائے تو مہنگائی کا ایک طوفان ہے جو رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ حکومت کی جانب سے اس حوالے سے کئے جانے والے دعوے بھی دھرے کے دھرے دکھائی دے رہے ہیں۔ خصوصاً پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے نے مسائل اور مہنگائی زدہ عوام کی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے۔ مہنگائی کے رحجان کا سدباب دراصل صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے، اگر اس رحجان کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو یہ دراصل گورننس کا مسئلہ ہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہبازشریف آئے روز پرائس کنٹرول کمیٹیوں کے اجلاس کی صدارت کرتے نظر آ رہے ہیںجس میں ڈپٹی کمشنر اور کمشنرز بھی ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس میں شریک ہوتے ہیں۔ وزیراعلیٰ حمزہ شہباز کی ہدایت اور احکامات تو کافی سخت ہوتے ہیں اور وہ بار ہا یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ ہمیں عوام کیلئے آسانیاں پیدا کرنی ہیں اور اللہ اور اس کی مخلوق کو راضی کرنا ہے مگر ان اجلاسوں کے اثرات کیا ہو رہے ہیں انہیں اس کا جائزہ اپنے اراکین اسمبلی کے ذریعے لینا چاہئے ۔موجودہ حکومت کو برسراقتدار آئے تقریباً دو ماہ گزر چکے ہیں اور خصوصاً وزیراعظم شہبازشریف سے لوگوں کو بہت سی توقعات تھیں کہ ان کے حکومت میں آنے کے بعد واقعتاً تبدیلی نظر آئے گی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ صورتحال ویسی ہی دکھائی دی جو سابق حکمران عمران خان کے دور میں تھی۔
وزیراعظم شہبازشریف نے صوبائی دارالحکومت لاہور میں انڈس ہسپتال کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے گرینڈ ڈائیلاگ کی بات کی۔ یہ بات وہ اس سے قبل بھی اپوزیشن لیڈر کے طور پر کہہ چکے ہیں اور انہوں نے 2018ء کے انتخابات کے بعد قومی اسمبلی میں اپنے خطاب میں قائد ایوان کو مخاطب کرتے ہوئے ملک میں چارٹر آف اکانومی کی تجویز بھی پیش کی تھی لیکن حکومت نے ان کی بات اور پیشکش کو سنجیدگی سے نہیں لیا ۔ اب بھی اگر صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو ملک معاشی حوالے سے خطرناک زون میں ہے مگر حکمران اور سیاستدان ملکی معیشت پر سنجیدگی اختیار کرنے کو تیار نہیں۔ وزیراعظم شہبازشریف اپنے خیالات اور بیانات کے ذریعے ملکی معیشت پر درد مندی کا مظاہرہ تو کرتے نظر آتے ہیں مگر عملاً صورتحال ان کے کنٹرول میں دکھائی نہیں دے رہی البتہ ان کی اس تجویز کو قابل عمل قرار دیا جا سکتا ہے کہ میثاق معیشت کے حوالے سے ایسے اہداف طے کئے جائیں جنہیں کوئی قیامت تک تبدیلی نہ کر سکے۔
منحرف اراکین کے خلاف الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد پنجاب میں ضمنی انتخابات کا عمل صوبہ کی سیاست پر حاوی ہے اور اس حوالے سے دونوں بڑی جماعتیں بیس خالی حلقوں میں اپنے امیدواروں کی جیت کیلئے سرگرم دکھائی دے رہی ہیں۔ یہ وہ حلقے ہیں جہاں سے تحریک انصاف کے اراکین نے عدم اعتماد میں مسلم لیگ (ن )کے امیدوار حمزہ شہباز کی حمایت کی تھی اور انہی کے ووٹوں کے باعث مسلم لیگ( ن) کے امیدوار حمزہ شہباز کامیاب ہوئے تھے۔ مذکورہ حلقوں میں دس اراکین براہ راست تحریک انصاف کے ٹکٹ پر اور دس آزاد امیدوار کی حیثیت سے جیتے تھے اور انہوں نے بعد ازاں تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی تھی۔ اس طرح سے ظاہر ہے ضمنی انتخاب تحریک انصاف کیلئے بڑے چیلنج کی حیثیت رکھتے ہیں اور دیکھنا یہ ہوگا کہ 17جولائی کو یہاں سے وہ دوبارہ یہ نشستیں جیت پائیں گے یا نہیں۔ گو کہ مسلم لیگ( ن) نے تمام منحرف اراکین کو ن لیگ کی ٹکٹ پر میدان میں اتارا ہے مگر مسلم لیگ ن کیلئے بڑی پریشانی ان حلقوں میں اپنے وہ امیدوار ہیں جنہوں 2018ء میں شیر کے نشان پر الیکشن لڑا تھا مگر اب ان سے جیتنے والے یہاں سے پارٹی امیدوار بنا دیئے گئے ہیں۔
ویسے تو مسلم لیگ (ن) کو ضمنی انتخابات جیتنے کا کافی تجربہ ہے اور خود سابق وزیراعظم عمران خان کے دور میں بھی پنجاب سے تقریباً تمام ضمنی انتخابات مسلم لیگ (ن) نے جیتے تھے ۔ سابق وزیراعظم عمران خان نے ضمنی انتخابات کے حوالے سے دھاندلی کے الزامات عائد کرنا شروع کر دیئے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ن لیگ نے الیکشن کمیشن سے ملکر دھاندلی کا منصوبہ بنایا ہے، ہم انتخابی مہم میں ’’چور اور غدار‘‘ کی بنیاد پر مہم چلا کر انہیں ناکام بنائیں گے ۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ مذکورہ ضمنی انتخابات میں خود سابق وزیراعظم عمران خان انتخابی مہم میں شریک ہو رہے ہیں جبکہ مسلم لیگ (ن) کی جانب سے مریم نواز کو میدان میں اتارنے کا فیصلہ ہوا ہے۔ عام انتخابات سے قبل17جولائی کو مذکورہ ضمنی انتخابات کے نتائج سے پتہ چلنا ہے کہ کون کتنے پانی میں ہے۔