لاہور: (ویب ڈیسک) تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئر مین عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان کو روسی گیس، تیل اور بالخصوص گندم کی ضرورت ہے، اس لیے یوکرین جنگ میں پاکستان کسی کی طرف داری کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
ان خیالات کا اظہار سابق وزیراعظم نے جرمن نشریاتی ادارے ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ انٹرویو میں کئی اہم امور پر گفتگو کی، جس میں یوکرین جنگ کے علاوہ ملکی خارجہ پالیسی کے کئی اہم معاملات بھی زیر بحث آئے۔
انٹرویو میں عمران خان نے کہا کہ پاکستان کو روس کی ضرورت ہے، اس لیے انہوں نے بطور وزیر اعظم روس کی طرف سے یوکرین جنگ شروع کرنے پر ماسکو حکومت کی مذمت نہیں کی تھی۔ بنیادی طور پر جنگ مخالف ہوں اور سمجھتا ہوں مسائل کے حل کے لیے عسکری کارروائی صورتحال کو صرف بگاڑتی ہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہر موقع پر جنگ کی مخالفت کی ہے۔ روس نے جنگ کا آغاز کرنے سے قبل ان سے مشاورت نہیں کی تھی۔ اگر انہیں علم ہوتا کہ روس یوکرین پر حملہ کرنے والا ہے تو وہ ماسکو جاتے ہی نہ۔
یہ بھی پڑھیں: اداروں کو پیغام ہے ملک کو چوروں سے بچا لو،کہیں گیم ہاتھ سے نہ نکل جائے:عمران خان
عمران خان نے یوکرین جنگ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر مجھ سے پوچھا جاتا تو یقینی طور پر میں یہ مشورہ دیتا کہ جنگ شروع نہیں کی جانا چاہیے۔ جب وہ وزیر اعظم نہیں تھے تو عراق اور افغان جنگ کی کھلی عام مخالفت اس لیے کی تھی کہ پاکستانی حکومت کا موقف نہیں تھا لیکن جب یوکرین جنگ شروع ہوئی تو وہ وزیر اعظم بن چکے تھے اور اولین ترجیح 22 کروڑ کی آبادی کی نمائندگی کرنا بن چکی تھی۔
سابق وزیراعظم نے واضح انداز میں کہا کہ جب کوئی کسی کی مذمت کرتا ہے تو اس کا مطلب ہے وہ کسی کی طرف داری بھی کر رہا ہے۔ عالمی معاملات پر اخلاقی طور پر کوئی مؤقف اختیار کرنا بہت اچھا ہے لیکن جب آپ کے مؤقف کی وجہ سے پورا ملک متاثر ہونے کا خدشہ ہو تو نیوٹرل رہنا ہی بہتر ہے۔ اگر کوئی ملک امیر اور مضبوط ہے تو اسے کسی کی طرف داری کرنے پر شائد کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن بطور وزیر اعظم اولین ترجیح تھی اپنے عوام کی نمائندگی کروں اور مسائل پر توجہ دوں، جو حقیقی طور پر عوامی ہیں۔ یوکرین جنگ یورپ کا معاملہ ہے، پاکستان کے مسائل مختلف ہیں۔
تحریک انصاف کے چیئر مین نے کہا کہ پاکستان کے 10 کروڑ شہری ابتر صورتحال سے دوچار ہیں، وہ یا تو غربت کی لکیر سے نیچے ہیں یا صرف کچھ اوپر ہیں اور جب وہ وزیر اعظم تھے تو یہی عوام ان کی ذمہ داری تھے۔
یہ بھی پڑھیں: معیشت نیچے جائے گی تو کیا نیوٹرلز کے لئے نقصان نہیں ہوگا؟: عمران خان
چین سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں عمران خان نے دہرایا کہ ان کی ذمہ داری ان کے ملک کے عوام ہیں اور وہ دنیا میں ہونے والے غلط کاموں کو سدھارنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ چین پاکستان کا ایک دوست ملک ہے اور صرف پاکستان کے مسائل کو حل کرنا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ چین نے پاکستان میں جتنی بھی سرمایہ کاری کی ہے، اس کے بدلے میں بیجنگ نے پاکستان پر کچھ تھوپنے کی کوشش نہیں کہ اور نہ اسلام آباد پر اپنے نظریات کا پرچار کرنے کے لیے زور ڈالا۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کو جو مسائل سب سے زیادہ تنگ کرتے ہیں، ان میں سب سے اہم مسئلہ کشمیر ہے اور پھر فلسطین کا۔ تاہم چین کو کھلے عام اس لیے تنقید کا نشانہ نہیں بنایا جاتا کیونکہ اس سے باہمی تعلقات کے خراب ہونے کے امکانات ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت کو ہٹانے میں امریکی کردار اہم تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ان کے تعلقات اچھے تھے لیکن جوبائیڈن کے آنے کے بعد تنزلی آئی۔
یہ بھی پڑھیں: مشکل حالات میں بھی عالمی مہنگائی کا بوجھ عوام پر منتقل نہیں کیا: عمران خان
عمران خان نے اپنی حکومت کی کارکردگی کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ جب انہیں حکومت ملی تھی تو معاشی حالت بہت بری تھی اور خزانہ خالی تھا جبکہ کووڈ کی عالمی وبا نے بھی ملکی معیشت کو نقصان پہنچایا۔
ایک سوال کے جواب میں پی ٹی آئی چیئر مین کا کہنا تھا کہ ملکی فوج کے سربراہ کو تنقید کا نشانہ نہ بنانے کی وجہ یہ نہیں وہ اپنی سلامتی کے بارے میں فکر مند ہیں بلکہ اس کی وجہ پاکستان کو ایک مضبوط آرمی کی ضرورت ہے کیونکہ پاکستان کا جغرافیائی و سیاسی محل وقوع اس بات کا متقاضی ہے، اس تناظر میں انہوں نے افغانستان، عراق، شام اور لیبیا کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دیکھ لیں کہ ان ممالک میں کیا ہوا ہے۔
میزبان نے سوال کیا کہ آیا مضبوط اور طاقتور فوج کا مطلب ہے سیاسی معاملات میں بھی دخل دے تو عمران خان نے تاریخی حوالہ دیتے ہوئے کہ پاکستان ایک سکیورٹی سٹیٹ بن چکا ہے کیونکہ بھارت کا خطرہ شروع سے ہی منڈلاتا رہا ہے تاہم انہوں نے یہ بھی کہا صورتحال بہتر ہو رہی اور ملک میں اسی وقت جمہوریت اور سیاسی عمل مضبوط ہو گا، جب آزاد اور غیر جانبدار الیکشن کرائے جائیں گے۔
عمران خان نے کہا کہ افغان طالبان نے انہیں ذاتی طور پر بتایا ہے وہ خواتین کے حقوق کے حق میں ہیں اور افغانستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کی کوششوں کے نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔ افغانستان کو اگر تنہا کیا گیا تو خطرات بڑھ سکتے ہیں اور ہم زیادہ فکر مند ہیں۔ اگر ہمسایہ ملک مرکزی دھارے میں شامل نہ کیا گیا تو وہاں قیاس پیدا ہو گا، جس سے دہشت گردی کے خطرات پیدا ہونگے، اس صورت میں افغانستان میں بین الاقوامی دہشت گردوں کی جڑیں بھی مضبوط ہو سکتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کو بچانے کا واحد راستہ صاف شفاف انتخابات ہیں: عمران خان
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں اس ابتر صورتحال کی وجہ سے پاکستان پہلے ہی بہت کچھ برداشت کر چکا ہے۔ افغانستان میں استحکام چاہتے ہیں کیونکہ اسی صورت میں پاکستان میں بھی دہشت گردی کے امکانات کم ہو سکتے ہیں۔