لاہور: (الیکشن سیل) پاکستان میں رواں سال کے آغاز سے ہی سیاسی گرما گرمی اپنے عروج پر تھی۔ تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی کامیابی اور پھر تحریک انصاف کے بانی عمران خان کے سڑکوں پر آکر عوام کو ساتھ ملانے کے فیصلے نے گزشتہ چند ماہ میں عوام کو خاصا متحرک کردیا تھا۔ تحریک انصاف کا ساتھ چھوڑنے والے پنجاب اسمبلی کے 25اراکین کو الیکشن کمیشن کی جانب سے ڈی سیٹ کیا گیا تو ان میں سے 5مخصوص نشستوں پر تو تحریک انصاف کی جانب سے نئے اراکین کا انتخاب کرلیا گیا تھا مگر 20ڈی سیٹ ہونے والے دیگر امیدواروں کی نشستوں پر 17جولائی 2022ء کو ضمنی انتخابات کا اعلان کردیا گیاتھا۔ان ضمنی انتخابات کو پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ ن کی جانب سے سیاسی زندگی و موت کا مسئلہ بنا لیا گیا تھا۔ اس حوالے سے ایک رجحان یہ بھی پیدا ہوگیا تھا کہ ان ضمنی انتخابات کی بنیاد پر آئندہ ملکی سیاست کے دارومدار کے ساتھ ساتھ پنجاب پر راج کا خواب بھی پورا ہوسکے گا۔ یہی وجہ رہی کہ دونوں جماعتوں اور ان کے اتحادیوں کی جانب سے ایسا ماحول پیدا کیا گیا تھا کہ ضمنی انتخابات میں بھی عام انتخابات کا تاثر قائم ہوچکا تھا۔
17جولائی2022ء کوپنجاب میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں سب سے حوصلہ افزاء چیزعوام کاووٹ کی طاقت پر یقین ہے۔ غیرمعمولی طور پر ماضی کے ضمنی انتخابات کے برعکس ان ضمنی انتخابات میں عوام نے خاصی دلچسپی کا مظاہرہ کیا اور پولنگ اسٹیشن پر عوام کا رش دیکھنے میں آیا۔عوام نے جس انداز میںپولنگ سٹیشنزکا رخ کیااس سے بخوبی اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ آج بھی عوام اپنے حکمران اپنی مرضی سے منتخب کرنا چاہتے ہیں۔ان ضمنی انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے عمران خان نے بھرپور انتخابی مہم چلائی۔وہ ایک دن میں چار چار جلسوں سے بھی خطاب کرتے رہے۔ انھوں نے جو بیانیہ عوام کو دیا اس بیانیہ کو بے پناہ مقبولیت ملی اور لوگوں نے ووٹ کے ذریعے انھیں اعتماد دیا۔وہ ایک جانب تورجیم چینج پر عوام کو اعتماد میں لیتے رہے اور دوسری جانب انتظامیہ کو خبردار کرتے رہے کہ دھاندلی کی صورت میں عوامی ردعمل کو کنٹرول کرنا ناممکن ہو گا۔وہ ہر حلقے میں یہ بھی باور کروانے میں کامیاب رہے کہ ان کے سابق امیدواروں نے عوام اور تحریک انصاف کا ووٹ فروخت کر دیا ہے۔ان کے اس بیانیہ میں اس قدر اثر تھا اور یہ بیانیہ اس درجہ جاندار تھا کہ تحریک انصاف چھوڑنے والے امیدواروں کو عوام میں خاصے مسائل اور سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔یہی وجہ رہی ہے کہ عوامی ردعمل صرف سڑکوں تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ عوام نے اپنے ووٹ کے ذریعے بھی اپنے غصے کا اظہار کیا۔
دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ(ن)کی انتخابی مہم مریم نواز کے ذمہ تھی مگران کو ہر حلقے میں مختلف قسم کے مسائل کا سامناکرناپڑا جن میں سب سے بڑا مسئلہ نواز لیگ کے امیدواروں کومقامی رہنماؤں کی جانب سے منحرف اراکین کو ٹکٹ دینے پر ناراضی تھی۔مریم نواز کی جانب سے اگرچہ سرتوڑ کوشش کی گئی اور عوام کو ساتھ ملانے کی کوششیں کے ساتھ ساتھ عمران خان کے بیانیہ کا توڑ کرنے کے لیے متبادل بیانیہ دیا جاتا رہا مگر وہ اس میں اس قدر کامیاب نہ ہوسکیں کہ ضمنی انتخابات میں فتح حاصل کرسکیں۔ مریم نواز کی انتخابی مہم کے دوران دیگر عوامل بھی جن کی وجہ سے مسلم لیگ ن اپنے ووٹرز کو متحرک کرنے میں کامیاب نہ ہوسکی۔ اس میں سب سے اہم وجہ مسلم لیگ ن کی قیادت کے آپسی اختلافات بھی تھے جس کا مظاہرہ جلسوں میں بھی نظر آیا ۔اسی سلسلے میں پاکستان مسلم لیگ(ن)میں ایک واضح تقسیم نظرآتی رہی تھی ۔ مسلم لیگ کے دیرینہ کارکنوں اور تحریک انصاف چھوڑ کر شامل ہونے والے کارکنوں میں واضح خلیج نظر آئی۔ ہر حلقے میں مسلم لیگ (ن) کا ایک نامزد امیدوار تھااوردوسرا پارٹی کا درینہ کارکن آزاد حیثیت میں کھڑا ہوگیا تھا اسی طرح ووٹر بھی کشمکش کا شکار رہا کہ وہ ووٹ اس کو دے جو اس حلقے میں مسلم لیگ (ن) کی پہچان ہے یا اس کو جو 2018ء میں مسلم لیگ(ن) کے خلاف الیکشن لڑ رہا تھا۔ پاکستان تحریک انصاف کے مقابلے میں نواز لیگ میں بیانیے کا بھی شدید فقدان دیکھنے کو ملا، عمران خان نے بیرونی سازش اور مہنگائی کے بیانیے کو پوری طرح عوام میں مقبول کروایاجس کا ثبوت عمران خان کے ہرحلقے میں بڑے بڑے جلسے تھے۔
تحریک انصاف اس بات کا تاثر 2018ء میں ہی ختم کر چکی تھی کہ لاہور مسلم لیگ(ن) کا گڑھ ہے، توقعات کے برعکس پاکستان تحریک انصاف2018 میں بھی پنجاب میں ایک بڑی جماعت بن کر ابھری تھی۔2022ء کے ضمنی انتخابات نے اب اس بات مہرثبت کر دی ہے کہ مسلم لیگ(ن) کی گرفت نہ صرف لاہور بلکہ پنجاب میں بھی کمزور پڑ چکی ہے جس کا واضح ثبوت لاہورکے تین اور پنجاب کے 20حلقوں میں سے 15پر کامیابی ہے۔نواز لیگ کی اپنے ہوم گراؤنڈ پر شکست کی وجہ صرف مقامی رہنماؤں سے ناراضی نہیں تھی بلکہ اس میں اتحادیوں کا انتخابات میں سرگرم نہ ہونااوروفاق میں ایک کمپرومائزڈ حکومت کا ہونا ہے۔پنجاب میں مسلم لیگ(ن) کو مجبوری کی حالت میں اپنے کارکنوں کو نظر انداز کرکے منحرف اراکین کو ٹکٹ جاری کرنا پڑا ناراض اراکین ، جن میں آصف ملک بھا، عرفان اللہ خان نیازی، عامر اقبال شاہ شامل ہیں۔عرفان اللہ خان نیازی اور عامراقبال شاہ نے باقاعدہ طور پر مسلم لیگ(ن)کو خیرآباد کہہ کر تحریک انصاف کی ٹکٹ پر الیکشن لڑا اور لیگی امیدواران کو شکست دیدی ہے۔ اسی طرح ساہیوال کے حلقہ 202 میں پاکستان مسلم لیگ ن نعمان لنگڑیال اپنے سیاسی خاندانی اثر رسوخ کی وجہ سے انتہائی مضبوط امیدوار سمجھے جارہے تھے جبکہ ان کے مقابلے میں میجر (ر) غلام سرور نسبتا نئے اور کمزور سمجھے جارہے تھے مگر تحریک انصاف نے اس حلقے میں اپ سیٹ کیا اور تحریک انصاف کے امیدوار نے مسلم لیگ کے مضبوط امیدوار کو شکست دیدی۔ اسی طرح لاہور کے حلقے پی پی 158میں پاکستان مسلم لیگ ن کے امیدوار رانا احسن شرافت مضبوط سمجھے جارہے تھے اور ان کی انتخابی مہم چلانے کے لیے اکنامک افئیرز کے وفاقی وزیر سردار ایاز صادق اور صوبائی وزیرصحت سلمان رفیق نے وزارتوں سے استعفیٰ دیدیا تھا۔ اس کے باوجود پاکستان مسلم لیگ ن کے امیدوار رانااحسن شرافت ، تحریک انصاف کے امیدوار میاں محمد اکرم عثمان سے شکست کھا گئے ۔جھنگ کے حلقہ پی پی 125میں بھی تحریک انصاف کی کامیابی کو ایک اپ سیٹ قرار دیا جارہا ہے۔ غیر سرکاری سرویز کے مطابق اس حلقے میں پاکستان مسلم لیگ ن کے فیصل حیات جبوانہ اور تحریک انصاف کے میاں محمد اعظم چیلہ کے درمیان مقابلہ تھا ۔ بظاہر پاکستان مسلم لیگ ن کے امیدوار یہاں مضبوط پوزیشن میں دکھائی دے رہے تھے اور ان کی کامیابی کا امکان زیادہ تھا مگر تحریک انصاف نے اس حلقے میں کامیابی حاصل کرکے سیاسی تبصرہ نگاروں کو حیران کردیا۔ اسی طرح سب سے بڑا اپ سیٹ ملتان کے حلقہ پی پی 217کو سمجھا جارہا ہے جہاں پاکستان مسلم لیگ سے محمد سلمان نعیم اور تحریک انصاف کے مخدوم زین حسین قریشی کے درمیان مقابلہ تھا۔ یہاں 2018کے انتخابات میں محمد سلمان نعیم نے آزاد حیثیت میں مخدوم زین حسین قریشی کے والد اور تحریک انصاف کے وائس چیئرمین مخدوم شاہ محمود قریشی کو شکست دیدی تھی۔ حالیہ سیاسی اتار چڑھائو میں سلمان نعیم نے تحریک انصاف کو خیر آباد کہہ کر پاکستان مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ یہی وجہ رہی کہ محمد سلمان نعیم کو فیورٹ قرار دیا جارہا تھا مگر حیرت انگیز طور پر اس حلقے میں بھی تحریک انصاف نے سب کو حیران کرتے ہوئے فتح حاصل کی اور مخدوم زین قریشی نے محمد سلمان نعیم کو 7ہزار ووٹوں سے شکست دیدی۔
شکست کی بڑی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ مسلم لیگ(ن) کے صدر وزیر اعظم محمد شہباز شریف کا حلقوں میں الیکشن کمیشن کی پابندی کی وجہ سے نہ جانا ہے۔کئی حلقوں میں نئے امیدواروں کی وجہ سے مسلم لیگ (ن)کی مقامی قیادت انتخابی مہم میں اس طرح سے سرگرم نہیں ہو سکی جیسے تحریک انصاف کی تنظیم تھی ۔اگر مجموعی طور پر نواز لیگ کے ہارنے والے امیدواروں کے انتخابی نتائج کو دیکھا جائے تو اس میں بظاہرمسلم لیگ(ن)،پیپلز پارٹی، جے یو آئی(ف) کوئی قابل ذکر اضافہ کرنے میں بری طرح ناکام نظر آئی ہیں۔سیاسی مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ لودھراں کے حلقہ پی پی 228سے پیر رفیع الدین آزاد حیثیت میں کامیاب ہوئے جو پاکستان مسلم لیگ ن کے دیرینہ رکن ہیں۔ سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ اگر پاکستان مسلم لیگ ن جنوبی پنجاب میں پیر رفیع الدین اور ان جیسی اہم سیاسی شخصیات پر اعتماد کرتی تو ان حلقوں میں نتائج مختلف ہوسکتے تھے۔ تحریک انصاف نے کمال سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ ن کی کمزور سیاسی حکمت عملی کا بھرپور فائدہ اٹھا کر نتائج یکسر تبدیل کردیے۔
ان نتائج سے یہ بات اخذ کی جا سکتی ہے کہ عوام ملکی خارجہ پالیسی اور مہنگائی کے بیانیے پر اپنے ردعمل کا بھرپور اظہار کرتی ہے۔17جولائی کو ہونے والے ضمنی انتخابات میں غیر حتمی و غیر سرکاری نتائج کے مطابق پاکستان تحریک انصاف نے 20 میںسے 15 نشستوں پر کامیابی حاصل کی جبکہ مسلم لیگ( ن) نے 4نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور ایک نشست پر آزاد امیدوار کامیاب ہوا۔ اس نتیجے کے بعد قوی امکان یہ ہے کہ تحریک انصاف اپنا وزیراعلیٰ منتخب کرانے میں کامیاب ہوجائے گی۔