شہباز گل پر تشدد معاملہ، اسلام آباد ہائیکورٹ کا انکوائری افسر مقرر کرنے کا حکم

Published On 22 August,2022 07:46 pm

اسلام آباد:(دنیا نیوز) پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کے چیف آف سٹاف شہباز گل پر تشدد کے معاملے پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے وفاقی حکومت اور سیکرٹری داخلہ کو انکوائری افسر مقرر کرنے کا حکم دے دیا۔

شہباز گل کے مزید جسمانی ریمانڈ کے خلاف پی ٹی آئی درخواست نمٹا دی گئی، اسلام آباد ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس عامر فاروق نے محفوظ فیصلہ سنا دیا ۔

فیصلے میں ہائیکورٹ کے کسی ریٹائرڈ جج کو انکوائری افسر مقرر کرنے کا حکم دیا گیا جبکہ عدالت نے کہا کہ شہباز گل کے جسمانی ریمانڈ کے دوران ایس ایس پی رینک کا افسر سپروائز کرے، نگران افسر اس بات کو یقینی بنائے کہ ریمانڈ کے دوران شہباز گل پر کوئی تشدد نہ ہو۔

قبل ازیں پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) کے رہنما شہباز گل کے 48 گھنٹے کے جسمانی ریمانڈ کے خلاف درخواست کی سماعت قائم مقام چیف جسٹس عامر فاروق نے کی جس میں ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے عمران خان کے بیان کا معاملہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے ایڈیشنل سیشن جج کے خلاف بیان دیا، جس پر عدالت نے کہا کہ ہمیں پتا ہے ہم دیکھ لیں گے وہ الگ ایشو ہے۔

عدالت نے شہباز گل کے وکیل کو جسمانی ریمانڈ کے خلاف درخواست پر دلائل دینے کی ہدایت کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ مقدمہ 302 کا ہو یا دہشت گردی کا عدالت نے حقوق کا تحفظ یقینی بنانا ہے۔

شہباز گل کے وکیل سلمان صفدر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ٹارچر پاکستان میں روٹین کی ایکسرسائز بن چکا ہے، شہباز گِل پر پولیس حراست میں بدترین تشدد کیا گیا، شہباز گل کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ فزیکل ٹارچر کے نشانات 5 یا 6 روز سے زائد نہیں رہ سکتے۔

قائم مقام چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ایف آئی آر اور میڈیکل رپورٹ سے متعلق بتائیں، اس موقع پر شہباز گل پر تشدد کے الزامات سے متعلق آئی جی اسلام آباد کی رپورٹ جمع کرائی گئی جبکہ کیس کے تفتیشی افسر عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔

شہباز گل کے وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ مجسٹریٹ نے اپنے آرڈر میں کہا اگر یہ ٹھیک تھا تو اس کو ایمبولینس میں کیوں لائے ہیں؟، وکیل نے دلائل دیتے ہوئے مزید کہا کہ اب اس کے زخم بھر چکے ہیں تو ویڈیو لیک کررہے ہیں۔ عدالت نے کہا کہ ٹارچر اور میڈیکل کو میں دیکھوں گا، آپ اس کے علاوہ دلائل دیں۔

وکیل سلمان نے عدالت کو بتایا کہ شہباز گل کے موبائل فون کی ریکوری کا کہا گیا کہ وہ ڈرائیور کے پاس ہے، پھر موبائل فون کی ریکوری کے لیے شہباز گل کے ریمانڈ کی کیا ضرورت ہے؟، موبائل فون اور عینک ساتھ ہی ہوتی ہے، موبائل پولیس کے پاس ہے، یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ شہباز گل سے سازش کا پتا کرنا ہے۔

سلمان صفدر کے دلائل مکمل ہونے کے بعد سپیشل پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے عدالت کو بتایا کہ پولیس کی ڈائریز سے متعلق ملزم کے وکلا کو نہیں بتایا جا سکتا، قانون کہتا ہے کہ ڈائریز صرف عدالت دیکھ سکتی ہے، ان کو ڈائریز نہ دکھانے کی وجہ یہ ہے کہ ان کو پہلے پتا چل جائے تو یہ ثبوت ضائع کر سکتے ہیں۔

سپیشل پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ ابھی تک شہباز گل سے 90 فیصد تفتیش ہونا باقی ہے، ابھی موبائل فون ہم نے ریکور کرنا ہے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ وہ تو بتا رہے ہیں کہ انہوں نے لینڈ لائن نمبر سے کی تھی جس پر تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان کے گھر بنی گالہ کے لینڈ لائن نمبر سے نجی چینل سے شہباز گل نے بات کی تھی۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے تفتیشی افسر سے استفسار کیا کہ موبائل کیوں چاہتے ہیں؟، جس پر تفتیشی افسر نے بتایا کہ شہباز گل نے تفتیش میں کہا ہے کہ اس نے موبائل فون سے دیکھ کر ٹی وی پر گفتگو کی تھی، موبائل فون ہم نے اس لیے بھی ریکور کرنا ہے کہ اس میں اور کون کون شامل ہے، شہباز گل کا پولی گرافک ٹیسٹ بھی کرانا ہے، جس پر شہباز گل کے وکیل نے کہا کہ پولی گرافک ٹیسٹ کی ٹرائل میں کوئی ویلیو نہیں، سپیشل پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ ملزم نے کہا تھا کہ اسے وقت دیا جائے وہ جواب دے گا پھر اس کو جوڈیشل کر کے جیل بھیج دیا گیا۔

عدالت نے استفسار کیا کہ اگر ملزم کو جیل بھیج دیا جائے اور تفتیش کرنی ہو تو کیا طریقہ کار ہے؟، جس پر سپیشل پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ تفتیش ہو سکتی ہے لیکن ریکوری کے لیے نہیں لایا جا سکتا، اس کے لیے لانے کا الگ سے پراسس ہے، بیمار یا زخمی ملزم کو علاج کی سہولت فراہم کرنا ضروری ہے، شہباز گل کا عام فون ریکور ہوا، سمارٹ فون کی ریکوری باقی ہے۔

عدالت عالیہ نے استفسار کیا کہ دوران تفتیش کوئی ملزم بیمار ہو جائے تو کیا ہو گا؟، سپیشل پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ بیمار اور زخمیوں کے لیے بھی رولز موجود ہیں، زندگی ہے تو سب کچھ ہے، عدالت نے استفسار کیا کہ اگر 15 دن میں تفتیش مکمل نہ ہو تو کیا اس کے بعد بھی ریمانڈ مل سکتا ہے؟، سپیشل پراسیکیوٹر نے جواب دیا 15 دن سے زیادہ جسمانی ریمانڈ نہیں دیا جا سکتا، عدالت نے پوچھا کہ اگر اس کے بعد بھی تفتیش کی ضرورت ہو تو پھر جیل میں تفتیش کی جائے گی؟

دوران سماعت شہباز گل کی حوالگی میں تاخیر کرنے سے متعلق اڈیالہ جیل حکام کا جواب جمع عدالت میں جمع کروایا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ میڈیکل آفیسر کے پاس اختیار ہے وہ ملزم کی بیماری کی وجہ سے تاخیر کر سکتا ہے، عدالت نے کہا کہ خواہ کتنا بڑا آدمی ہو یا چھوٹا، ہمیں قانون کے مطابق چلنا چاہیے۔

جیل حکام کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ملزم کی حوالگی میں استھما اٹیک کی وجہ سے 4 گھنٹے کی تاخیر ہوئی، اسلام آباد کی اپنی جیل نہیں، اڈیالہ جیل رکھنا پڑتا ہے، اگر کسی ملزم کی طبیعت خراب ہو تو قریبی ہسپتال لے جایا جاتا ہے، جس پر قائم مقام چیف جسٹس نے کہا کہ اسلام آباد کا ملزم ہو تو اسے اسلام آباد کے ہسپتال ہی میں رکھا جاتا ہے۔

عدالت نے وکلا کو روکے جانے کی ہدایت کے باوجود بولنے پر برہمی کا اظیار کیا، شہباز گل کی 48 گھنٹے کے جسمانی ریمانڈ کے خلاف درخواست پر فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر وکیل بابر اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ شہباز گل کو گرفتار کرنے سے اب تک 14 روز مکمل ہو چکے ہیں، جس پر عدالت نے کہا کہ آپ کا کیس تو کچھ اور ہے، اُس پر بات کریں۔

ایڈووکیٹ بابر اعوان نے کہا کہ ملزم کی حراست گرفتاری کے روز سے شروع ہو جاتی ہے، زیادہ سے زیادہ ریمانڈ پہلے ہی مکمل ہو چکا ہے۔

عدالت نے کہا کہ 2 گھنٹے ہم نے ریمانڈ پر لگا دئیے، ان کا کیا قصور ہے جن کے کیسز ابھی نہیں سنے جا سکے۔ بعدازاں عدالت نے شہباز گل کے 48 گھنٹے کے فزیکل ریمانڈ کے خلاف درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

Advertisement