اسلام آباد: (دنیا نیوز) پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان ، ڈاکٹر شہباز گل اور دیگر پارٹی رہنماؤں کے خلاف تھانہ آبپارہ میں ایک اور ایف آئی آر درج کرلی گئی۔
پولیس کے مطابق عمران خان کے خلاف مقدمہ دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر درج کیا گیا ہے، مقدمے میں تحریک انصاف کے 17 رہنماؤں کو نامزد کیا گیا ہے۔ مقدمے میں مراد سعید، فواد چودھری، فیصل جاوید، اسدعمر، راجہ خرم نواز، علی نواز اعوان سمیت سابق وفاقی وزیر داخلہ اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید بھی مقدمے میں نامزد کیے گئے ہیں۔
ایف آئی آر کے مطابق عمران خان سمیت پی ٹی آئی قیادت نے دفعہ 144 کی خلاف ورزی کی، سابق وزیراعظم کی ایما پر پی ٹی آئی رہنماؤں اور تقریباً 1 ہزار افراد نے سڑک بلاک کی، پی ٹی آئی چیئر مین اور رہنماؤں نے لاؤڈ سپیکرکا بھی استعمال کیا۔
عمران خان کے خلاف مقدمہ اسلام آباد پولیس کے اے ایس آئی کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے۔
شہباز گل کیخلاف ایک اور مقدمہ درج
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما شہباز گل کے خلاف ایک اور مقدمہ درج کرلیا گیا۔
شہباز گل کے خلاف غیر قانونی اسلحہ رکھنے کا مقدمہ تھانہ سیکریٹریٹ میں درج کیا گیا، گزشتہ شب پی ٹی آئی رہنما کے کمرے سے پستول برآمد ہوا تھا۔
مقدمہ کے متن کے مطابق ملزم شہباز گل نے اسلحہ کی ملکیت اپنے ملازم کی بتائی تھی، شہباز گل کو اپنا ملازم بمعہ اسلحہ پیش کرنے کا حکم دیا گیا تھا، پی ٹی آئی رہنما نہ ملازم کو پیش کرسکے اور نہ ہی اسلحہ لائسنس یا اجازت نامہ، شہباز گل نے لائسنس کے بغیر نائن ایم ایم پسٹل رکھ کر ارتکاب جرم کیا۔
پی ٹی آئی اجلاس
اس سے قبل پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی زیر صدارت مشاورتی اجلاس ختم ہوگیا جس میں موجودہ صورتحال، آئندہ کی حکمت عملی، جلسوں سمیت دیگر امور پر مشاورت ہوئی۔
اجلاس کے دوران فیصلہ کیا گیا کہ تحریک انصاف نے جلد الیکشن کروانے کے لیے دباؤ مزید بڑھائے گی، اور اس کے ساتھ ہی پارٹی قیادت نے کسی بھی طرح کا دباؤ قبول نہیں کیا جائے گا۔
ذرائع کے مطابق اجلاس میں عمران خان کو ضمنی انتخابات کی تیاریوں کے حوالے سے امور پر بریفنگ دی گئی اور عمران خان کی عوامی رابطہ مہم کے حوالے سے بھی حکمت عملی طے کی گئی۔ متفقہ طور پر طے کیا گیا کہ عمران خان شیڈول کے مطابق جلسے کریں گے۔
عمران خان نے دوران اجلاس کہا کہ دنیا نے دیکھ لیا کہ پاکستانی قوم کس کے ساتھ کھڑی ہے، نہ پہلے دباؤ میں آیا تھا اور نہ اب دباؤ میں آؤں گا، ملک کا نظام بہتر کرنے کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھیں گے۔
خاتون جج کو دھمکی، توہین عدالت کیس، عمران خان کو شوکاز نوٹس، ذاتی حیثیت میں طلب
اسلام آباد ہائیکورٹ میں عمران خان کے خلاف خاتون جج کو دھمکی دینے پر توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی، جسٹس محسن اختر کیانی کی سربراہی میں لارجر بنچ نےکیس کی سماعت کی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس بابر ستار بنچ میں شامل ہیں۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ یہ قابل اعتراض ریمارکس کب دیے گئے ہیں؟ ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون نے عدالت کو بتایا کہ 20 اگست کو عمران خان نے ایف نائن پارک میں یہ ریمارکس دیے۔ عمران خان نے کہا زیبا صاحبہ آپ کو شرم آنی چاہیے ہم آپ کے خلاف بھی ایکشن لیں گے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے سوال کیا کہ وہ کونسا کیس سن رہی تھیں جس پر یہ ریمارکس دیے گئے؟ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے بتایا کہ ایڈیشنل سیشن جج شہباز گِل سے متعلق کیس سن رہی تھیں۔
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آبا د نے کہا کہ عمران خان مسلسل اداروں کے خلاف بیانات دے رہے ہیں، کسی بھی جماعت کو اب اداروں کے خلاف بیانات سے روکا جانا چاہیے، عمران خان نے عدلیہ پر عوام کا اعتماد ختم کرنے کی کوشش کی۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس میں کہا کہ زیرالتواء کیس میں کوئی ریمارکس کس طرح دے سکتا ہے؟ یہ آپکا معاملہ نہیں ہے یہ عدالت اور ملزم کے درمیان ہے۔ہماری عدلیہ کی تضحیک کی کوشش کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر یہی ماحول بنانا ہے تو ملک میں کام تو ہو گا ہی نہیں۔عوام کی امید عدالتیں ہیں وہ بھی کام چھوڑ دیں تو کیسے چلے گا۔جو بھی عدالت کسی کے خلاف فیصلہ دے گی اسکے خلاف بیانات دینا شروع کر دینگے؟
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ کیا یہ چاہتے ہیں کہ لوگ اٹھیں اور خود اپنا انصاف کرنا شروع کر دیں؟ وزیر اعظم رہنے والے لیڈر سے اس طرح کے بیان کی توقع نہیں کی جا سکتی ۔ خاتون جج کا نام لے کر اس طرح کی گفتگو کی گئی۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا ہے کہ ایڈووکیٹ جنرل صاحب آپ کیس میں زیادہ دلچسپی لے رہے ہیں تو سوال کا جواب دیں۔کیا عمران خان کو نوٹس جاری کیا جائے یا شوکاز نوٹس ہونا چاہیے؟ ایڈووکیٹ جنرل نے جواب میں کہاکہ بادی النظر میں یہ کیس شوکاز نوٹس کا ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے قرار دیا کہ قانون کے مطابق اس کیس میں شوکاز نوٹس جاری کیا جاتا ہے۔اس قسم کے بیانات کے اثرات کو دیکھنا ہے۔بہت سے لوگ کھڑے ہوں تو تقاریر میں ایسے بات کرنی چاہیے؟ جلسے میں جتنے بھی لوگ ہیں میڈیا کے توسط سے پوری دنیا دیکھ رہی ہوتی ہے۔ سوشل میڈیا کو پتہ ہے کہ کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا تو اس پر بہت کچھ ہو رہا ہو گا۔
جسٹس محسن اختر کیانی کا ایڈووکیٹ جنرل سے مکالمے میں کہا کہآپکی حکومت ہے آپ کریں نا کیوں نہیں کر رہے؟ ایڈووکیٹ جنرل نے جواب دیا کہ اگر پارٹی لیڈر اس طرح کی بات کر رہا ہے تو نچلے درجے پر بھی یہی ہو گا۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا یہ بہت سنجیدہ معاملہ ہے۔ماتحت عدلیہ تو وہی فیصلے کرتی ہے جس پر اعلیٰ عدلیہ فیصلے دیتی ہے۔سول بیوروکریسی اور آئی جی کو دھمکی دے رہے ہیںکیا یہ حکومت چلی جائے گی دوسری آئے گی تو یہ ایسے بیان شروع کر دینگے؟
انہوں نے کہا ہے کہ یہاں تو مخصوص لوگوں نے پورے نظام کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔یہ کیس بنتا تو شوکاز نوٹس کا ہی ہے،معاملے کو ایک ہی بار طے ہو جانا چاہیے۔
بعدازاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کو توہین عدالت کیس میں شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے عمران خان کو 31 اگست کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا۔
کراچی کو واپس روشنیوں کا شہر اور معاشی حب بنائیں گے: عمران خان
عمران خان سے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عمران اسماعیل، نو منتخب ایم این اے محمود مولوی نے ملاقات کی، ملاقات میں پی ٹی آئی رہنما زبیر گیلانی بھی موجود تھے۔ ملاقات کے دوران سابق وزیراعظم نے محمود مولوی کو کامیابی، عمران اسماعیل کو زبردست مہم چلانے پر مبارکباد دی۔
اس موقع پر انہوں نے کہا کہ این اے 245 کی مہم میں حصہ لینے والے تمام انصافین کو مبارکباد پیش کرتا ہوں، کراچی کے عوام نے ہمیشہ تحریک انصاف کا ساتھ دیا ہے، کراچی کے باشعور لوگ اپنا بہتر مستقبل تحریک انصاف کو سمجھتے ہیں، کراچی پر حکمرانی کرنے والوں نے شہر کی روشنیاں اجاڑدی ہیں۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ کراچی کے شہریوں کی تکلیف اور پریشانی سے میں زیادہ واقف ہوں، ہم کراچی کو واپس روشنیوں اور معاشی حب شہر بنائیں گے، حقیقی آزادی کے لیے کراچی کے لوگوں کا جوش کبھی نہیں بھول سکتا، شہر قائد کے لوگ سب سے زیادہ میرے دل کے قریب ہیں، میں جلد کراچی آکر کراچی کے لوگوں کا شکریہ ادا کروں گا۔
پی ٹی آئی چیئر مین کا کہنا تھا کہ این اے 245 کی عوام کا بھی مشکور ہوں انہوں نے ہمارا ساتھ دیا، بلدیاتی الیکشن میں بھی کراچی کی عوام تحریک انصاف کے نمائندوں پر اعتماد کا اظہار کرے، ہم اس شہر کو مضبوط اور بااختیار بلدیاتی نظام دیں گے۔