لاہور: (امجد محمود چشتی) باہمی اختلاف انسان کی فطرت ہے۔ تہذیبوں کا تصادم ان گنت ذیلی تنازعات کو جنم دیتا ہے۔ جملہ معاملاتِ حیات کی طرح زبانوں کے مابین بھی تعصبات کے عناصر پائے جاتے ہیں۔ ہر قوم خود کو کسی بنیاد پرکسی نہ کسی زبان سے منسلک ثابت کرتی ہے۔ حکمران طبقوں نے زبان کو بھی سیاسی حربوں کے طور پر استعمال کیا۔ تاریخ میں عوامی زبانوں سے کچھ ایسے ہی برتائو کیا گیا۔ چرچ اور یورپ کی عدالتی کارروائیاں لاطینی میں ہوا کرتی تھیں۔ برصغیر میں مغل دور میں فارسی رائج رہی اور اب ہمارے ہاں انگریزی دفتری زبان ہے۔ 712ء تک مسلمان یہاں آتے رہے اور کچھ نہ کچھ لے کر ہی واپس جاتے رہے لیکن 1526ء کے بعد آئے اور واپس جانے سے انکار کر دیااور زبان سمیت براجمان ہو گئے۔ عوامی زبانوں کی بجائے بیگانی اور قابل فہم زبانوں کا مقصد یہی تھا کہ عام لوگ اپنے حقوق اور قوانین کا ادراک نہ کر پائیں اور مقامی مزاحمت کا خدشہ جاتا رہے۔ سیاسی وجوہات کے علاوہ معاشرتی، نسلی، جغرافیائی اور مذہبی حسود تعصبات بھی زبانوں کو متنازعہ بناتے ہیں۔ انیسویں صدی کا ہندی اردو تنازعہ اسی سلسلے کی کڑی تھی۔
ہندی اردو جھگڑا:1867ء میں بنارس میں اردو کے خلاف پھٹنے والا لاوا لمحہ فکریہ تھا۔ مغل دور میں فارسی پڑھنا اور سیکھنا ہندوئوں کی مجبوری رہی مگر جب مسلمانوں نے حکمرانی سے ہاتھ دھوئے تو مقامی آبادی نے فارسی کو ترک کرنا شروع کر دیا۔ قانونی و عائلی کتب ہندی میں چھاپنے کا تقاضہ عام ہوا جو لسانی ٹکرائو کا سبب بنا۔ سادہ لوح مسلمانوں کو تاثر دیا جاتا رہا کہ اردو مشرف بہ اسلام ہو گئی ہے اور یہی اسلام کی نمائندہ زبان ہے۔ اسی طرح ہندو مذہبی بنیاد پر اردو کے مخالف رہے۔ یہی وجہ تھی کہ ہندی کانگریس اور اردو مسلم لیگ کی زبان سمجھی گئی۔ گاندھی نے اردو زبان و تحریر کو اس بنا پر مسترد کر دیا کہ یہ زیادہ تر عربی سے مشتق ہے۔
آزادی کے بعد آج بھی پاکستان کے مختلف طبقوں کے بنیاد پرست مقامی لوگ اپنے آباء کی زبانوں کو اردو، فارسی، انگریزی اور عربی پر فوقیت دیتے رہے۔ یہاں تک کے اردو پر بہت بری نظر رکھتے ہیں۔ ان کی عرق ریزیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اردو نے ان کی مادری زبان کی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ کہتے ہیں کہ اردو اپنے نام سمیت بہت سے الفاظ کیلئے ادھر ادھر کی زبانوں کی مقروض اور محتاج ہے۔
فرنگی سے بذریعہ زبان انتقام:جس طرح ادب سے محبت کرنے والے بہت سے لوگ ادب آشنا نہیں ہوتے اور متشاعرین کے زمرے میں شمار کئے جاتے ہیں ایسے ہی آبادی کی کثیر تعداد انگریزی بولنے کا شوق رکھتی ہے۔ ہمہ وقت اور ہمہ جا انگریزی کا رعب جھاڑنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ لیکن ذرا غور کریں تو انگریزی کی روح اور قلب کو کپکپا کے رکھ دیتے ہیں۔ تاہم اس کا مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ اس صورت فرنگیوں سے سامراجیت کا کچھ بدلہ تو چکاتے رہتے ہیں۔ جیسے Bookکی جمع ’’بکسیں‘‘ وغیرہ۔ بجلی کو الیکٹرک سٹی اور C.t scanکو سٹی سکین لکھ کر الفاظ کے سماجی فاصلوں اور انگریزوں کی درگت بنائی جاتی ہے۔ انگریزی کے شوق میں ایک صاحب تو جگر مراد آبادی کو لیور مراد آبادی اور غالب کو مرزا ڈومی نینٹ تک کہتے سنے گئے۔ خواتین رنگوں کے نام انگریزی میں بولتی ہیں۔ رہی سہی کسر ٹی وی اینکر نکال رہے ہیں۔ انداز تخاطب سنیے: ’’ہیلولسز، وی ہوپ کہ آپ کو ہماری لاسٹ ایپی سوڈ پسند آئی ہو گی‘‘۔
کتب خانوں کی خانہ خرابیاں:سوشل میڈیا نے کتب خانے بیگانے کر دیئے ہیں اور ورقی کتابوں کی جگہ برقی کتابوں نے لے لی ہے۔ ادب کے حوالے سے تو ہم ڈھیروں بے ادب ہیں۔ کتاب بینی کا شوق قصہ پارینہ ہو چکا۔ اب کتابوں کے صفحات دکانداروں، خوانچہ فروشوں اور سموسہ پکوڑے والوں کے ہاں پرچون میں تقسیم ہوتے ہیں۔ لوگ گھروں میں آگ جلانے کیلئے کتاب استعمال کرتے ہیں جبکہ باقی ماندہ کتب، گھر کے بچے قلفیوں اور پاپڑوں کے عوض ارزاں فروخت کر دیتے ہیں۔ طلباء ہاتھوں میں کتابیں پکڑ کر بسوں میں مفت سفر کرتے ہیں۔ طالبات سورج کی الٹرا وائلٹ ریز سے بچنے کیلئے اپنے پاس رکھتی ہیں۔ بے خوابی کا شکار حضرات رات کو کتابوں کو خواب آور نسخے کے طور پر برتتے ہیں۔ کچھ احباب کتابوں کو بطور تکیہ بھی استعمال کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں کتابیں فٹ پاتھ پر بکتی ہیں اور جوتے شیشے کی الماریوں میں نظر آتے ہیں۔ کتابیں پڑھنے کا فریضہ صرف فارغ لوگ انجام دیتے ہیں مگر یہ حقیقت ہے کہ کتابیں کبھی ایکسپائر نہیں ہوا کرتیں مگر ہتھیاروں کے غلط استعمال کی طرح قلم کا غلط استعمال بھی تباہی و بربادی کا باعث بنتا ہے۔ سعود عثمانی نے تو بات ہی ختم کر دی کہ کاغذ کی یہ مہک، یہ نشہ روٹھنے کو ہے یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی۔
مزاح نگار امجد محمود چشتی کی کتاب "اردو بے ادبی کی تاریخ" سے اقتباس