اسلام آباد: (دنیا نیوز) سابق وزیراعظم و چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے توہین عدالت کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ میں نیا جواب جمع کرا دیا۔
عمران خان نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم پر نیا تحریری جواب جمع کرایا جو 19 صفحات پر مشتمل ہے، عمران خان نے شوکاز نوٹس کے جواب میں ضمنی جواب عدالت میں جمع کرایا ہے۔
چیئرمین تحریک انصاف نے عدالت میں جمع کرائے گئے جواب میں جج زیبا چوہدری سے متعلق کہے گئے الفاظ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ غیر ارادی طور پر منہ سے نکلے الفاظ پر گہرا افسوس ہے۔
عمران خان کا اپنے جواب میں کہا کہ یہ حوصلہ افزا بات ہے کہ مجھے اپنا مؤقف پیش کرنے کا موقع دیا گیا، میں نے ہمیشہ اداروں کی عزت پر مبنی رائےکا اظہار کیا ہے، یقین دہانی کراتا ہوں کہ عدالت اور ججز کی عزت کرتا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ ججز عام آدمی کو انصاف فراہم کرنے میں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں، میرا مقصد خاتون مجسٹریٹ کی دل آزادی نہیں تھا، ہائیکورٹ اور اس کی ماتحت عدالتوں کے لیے بہت احترام ہے، خاتون جج کے احساسات کو ٹھیس پہنچانا مقصد نہیں تھا، پبلک ریلی میں نادانستگی میں ادا کیے گئے الفاظ پر افسوس ہے، خاتون جج کو دھمکانے کا ارادہ نہیں تھا بلکہ ایسا کرنے کا تو سوچ بھی نہیں سکتا۔
عمران خان کی جانب سے جواب میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ مجھے معلوم نہیں تھا کہ ہائیکورٹ میں شہباز گل کیس کی اپیل زیرالتوا ہے، مجھے لگا کہ ماتحت عدالت نے جسمانی ریمانڈ دیدیا تو بات وہاں ختم ہو گئی، شہباز گل پر ٹارچر کی خبر تمام پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر آئی۔
انہوں نے کہا کہ ویڈیوزمیں شہباز گل کو سانس لینے میں دشواری تھی اور وہ آکسیجن ماسک کیلئے منتیں کر رہا تھا، شہباز گل کی اس حالت نے ہر دل اور دماغ کو متاثر کیا ہو گا، خواتین کے حقوق کا علمبردار ہوں جو کہا اس کا مقصد خاتون جج کے جذبات مجروح کرنا نہیں تھا۔
عمران خان نے کہا ہے کہ عدالت کو یقین دہانی کراتا ہوں کہ آئندہ ایسے معاملات میں انتہائی احتیاط سے کام لوں گا، کبھی ایسا بیان دیا نہ مستقبل میں دوں گا جو کسی عدالتی زیر التوا مقدمے پر اثر انداز ہو۔
انہوں نے کہا ہے کہ میں عدلیہ مخالف بدنتیی پر مبنی مہم چلانے کا سوچ بھی نہیں سکتا، عدالتی کارروائی میں رکاوٹ ڈالنے یا انصاف کی راہ میں رکاوٹ کا سوچ بھی نہیں سکتا،عدالت سے استدعا ہے کہ میری وضاحت کو منظور کیا جائے۔
عمران خان نے توہین عدالت کا شوکاز نوٹس واپس لینے کی استدعا بھی کردی۔ انہوں نے کہا ہے کہ عدالتیں ہمیشہ معافی اور تحمل کے اسلامی اصولوں کو تسلیم کرتی ہیں، امید کرتا ہوں عفو و درگُزر اور معافی کے وہ اسلامی اصول اس کیس پر بھی لاگو ہوں گے۔