لاہور: (ویب ڈیسک) طویل ترین حکمرانی کا سورج غروب ہو گیا۔ برطانیہ کی ملکہ الزبتھ دوئم 96 سال کی عمر میں چل بسیں۔ ان کے انتقال پر ملک بھر میں دس روزہ سوگ کا اعلان کیا گیا ہے، جبکہ تدفین لندن برج آپریشن کے منصوبے کے تحت سر انجام پائے گی۔ ان کے بڑے صاحبزادے 73 سالہ چارلس متحدہ برطانیہ کے بادشاہ بن گئے ہیں، جو آسٹریلیا، کینیڈا اور نیوزی لینڈ سمیت دیگر 14 ریاستوں کا سربراہ ہوتا ہے۔ ملکہ الزبتھ دوئم کون تھیں؟
ملکہ الزبتھ دوم کا مکمل نام الزبتھ الیگزینڈرا میری تھا، وہ مملکت متحدہ کی ملکہ اور دولت مشترکہ قلمرو کی آئینی ملکہ ہیں۔ ملِکہ الزبتھ 21 اپریل 1926 کو لندن میں پیدا ہوئیں اور ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی۔ 1947 میں ان کی شادی شہزادے فلپ کے ساتھ ہوئی، جن سے 4 بچے ہیں۔ جب ان کے والد بادشاہ جارج ششم کا 1952 مین انتقال ہوا، تب الزبتھ دولتِ مشترکہ کی صدر اور مملکت متحدہ، کناڈا، اوسٹریلیا، نیو زیلینڈ، جنوبی افریقا، پاکستان اور سری لنکا کی حکمران بن کئیں۔ ان کی تاجپوشی سال 1953 میں ہوئی اور یہ اپنی طرح کی پہلی ایسی تاج پوشی تھی جو ٹیلی ویژن پر نشر ہوئی۔ 9 ستمبر 2015 کو انھوں نے ملِکہ وِکٹوریا کے سب سے لمبے دورِ حکومت کے ریِکارڈ کو توڑ دیا اور برطانیہ پر سب سے زیادہ وقت تک حکومت کرنے والی ملِکہ بن گئیں۔ وہ پورے عالم میں سب سے عمردراز حکمران اور سب سے لمبے وقت تک حکومت کرنے والی ملِکہ ہیں۔
1936ء میں جب الزبتھ کے والد پرنس البرٹ اپنے بھائی کے تخت چھوڑنے کے بعد بادشاہ بنے، تو الزبتھ ان کی ولی عہد بن گئی۔
2 جون 1953ء کو ویسٹ منسٹر ایبے، لندن میں تخت نشینی کی تقریب منعقد ہوئی، جس میں ملکہ الزبتھ باقاعدہ طور پر مملکت متحدہ، کناڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جنوبی افریقہ، پاکستان اور سری لنکا کی حکمران بن گئیں۔
6 فروری 1952 کو پاکستان کے بادشاہ جارج ششم کی موت کے بعد ان کی بیٹی شہزادی الزبتھ پاکستان کی نئی حکمران بن گئیں۔ ملکہ الزبتھ کو پاکستان سمیت اپنے تمام علاقوں میں ملکہ قرار دیا گیا تھا۔ پاکستان میں 8 فروری کو گورنر جنرل نے اعلان کیا کہ ملکہ معظمہ الزبتھ دوم اب اپنے علاقوں اور ریاستوں کی ملکہ اور دولت مشترکہ کی سربراہ بن گئی ہیں۔ انہیں پاکستان میں 21 توپوں کی سلامی بھی دی گئی۔
مورخ اینڈریو میچی نے 1952 میں لکھا تھا کہ ملکہ الزبتھ برطانیہ کا تو چہرہ تھی ہیں ساتھ ہی وہ برابری سے پاکستان کا بھی چہرہ تھی، 1953 میں ملکہ الزبتھ کی تاجپوشی کے دوران انہیں پاکستان کی ملکہ اور دولت مشترکہ قلمرو کا تاج پہنایا گیا۔ ملکہ نے تاجپوشی کے دوران یہ حلف لیا کہ وہ پاکستان کی عوام پر لوگوں کے متعلقہ قوانین اور رواج کے مطابق حکومت کریں گی۔
ملکہ کے تاجپوشی گاؤن پر ہر دولت مشترکہ قوم کے نشانیاں سے کڑھائی کی گی تھی۔ شاہی گاؤن میں پاکستان کے 3نشانات نمایاں تھے: ہیرے اور سنہرے کرسٹل کے بنے گندم ، چاندی اور سبز ریشم اور پٹ سن سے بنا کپاس ، اور سبز ریشم اور سنہرے دھاگے سے بنا پٹ سن۔ پاکستان کے وزیر اعظم محمد علی بوگرا نے بھی اپنی اہلیہ اور دو بیٹوں کے ساتھ لندن میں تاجپوشی کی تقریب میں شرکت کی۔ تاجپوشی کی پریڈ میں پاکستانی فوجیوں اور جہازوں نے بھی حصہ لیا۔
23 مارچ 1956 کو جمہوریہ آئین کو اپنانے پر پاکستانی بادشاہت ختم کر دی گئی۔ تاہم پاکستان دولت مشترکہ کے ممالک میں ایک جمہوریہ بن گیا۔ ملکہ الزبتھ نے صدر مرزا کو ایک پیغام بھیجا جس میں انہوں نے کہا کہ میں نے آپ کے ملک کے قیام کے بعد سے اس ملک کی ترقی کو گہری دلچسپی کے ساتھ پیروی کی ہے۔ میرے لیے یہ جان کر بہت اطمینان کا باعث ہے آپ کا ملک دولت مشترکہ میں رہنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ مجھے یقین ہے پاکستان اور دولت مشترکہ کے دیگر ممالک ترقی کرتے رہیں گے اور ان کی باہمی رفاقت سے فائدہ اٹھائیں گے۔
ملکہ نے 1961ء اور بعد میں 1997ء میں پاکستان کی آزادی کی گولڈن جوبلی کے موقع پر پاکستان کا دورہ کیا۔ ان کے ساتھ شہزادہ فلپ ، ڈیوک آف ایڈنبرا بھی تھے۔
حادثاتی بادشاہت
برطانیہ کے بادشاہ جارج پنجم کے دوسرے بیٹے جارج ششم کے گھر 21 اپریل 1926 کو جنم لینے والی الزبتھ الیگزینڈرا شاہی خاندان کا حصہ تو ضرور تھیں لیکن اس وقت کسی نے یہ نہیں سوچا تھا کہ وہ اپنے عہدِ جوانی ہی میں برطانیہ کے تخت پر براجمان ہوجائیں گی۔ لیکن ایک ڈرامائی تبدیلی نے یہ ممکن بنا دیا۔
الزبتھ کے والد جارج ششم سے پہلے ان کے بڑے بھائی ایڈورڈ ہشتم برطانیہ کے بادشاہ تھے جو 20 جنوری سے 11 دسمبر 1936 تک اس منصب پر براجمان رہے۔ ایڈورڈ ایک طلاق یافتہ امریکی خاتون ویلس وارفیلڈ سمپسن کی محبت میں گرفتار تھے اور ان سے شادی کرنا چاہتے تھے۔
برطانیہ میں بادشاہ یا ملکہ چرچ آف انگلینڈ کا سربراہ بھی ہوتا ہے۔ چرچ کے تحت شادی کا رشتہ پوری زندگی کے لیے ہوتا ہے اور طلاق یافتہ افراد کا شریکِ حیات اگر زندہ ہو تو کسی اور سے اس کی شادی نہیں ہو سکتی۔
طلاق کے بعد ویلس کے سابق شوہر چوںکہ ابھی زندہ تھے تو اسی بنیاد پر چرچ بادشاہ کے ساتھ ان کی شادی کی مخالفت کررہا تھا۔شاہی خاندان اور چرچ آف انگلینڈ کی سخت مخالفت کے باوجود ایڈورڈ نے ویلس سے اپنی شادی کا ارادہ ترک نہیں کیا اور اپنی محبت پر تاج و تخت کو قربان کردیا۔
ایڈورڈ کے اس فیصلے کے نتیجے میں ان کے چھوٹے بھائی اور الزبتھ کے والد جارج ششم کو برطانیہ کی بادشاہت ملی۔ یہ وہی بادشاہ جارج ہیں جنہیں ہکلاہٹ کی شکایت تھی اور اس پر قابو پانے کے لیے ان کی مستقل مزاجی سے کی گئی کوششوں کو 2010 میں ریلیز ہونے والی فلم ’کنگز اسپیچ‘ میں دکھایا گیا ہے۔
جارج ششم کی موت کے بعد 1954 میں صرف 25 برس کی عمر میں الزبتھ ملکہ بنیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اگرچہ اس معاملے پر چرچ کے مؤقف میں نرمی آئی اور 2018 میں شہزاہ ہیری کی طلاق یافتہ امریکی اداکارہ میگھن مرکل سے شادی پر چرچ آف انگلینڈ معترض نہیں ہوا۔
یہ اتفاق ہی کا نتیجہ تھا کہ ان کے والد کے بڑے بھائی نے محبت کی خاطر تاج کو ٹھکرا دیا جس کے بعد بادشاہت پہلے ان کے والد کو ملی اور پھر ملکہ الزبتھ کے حصے میں آئی۔
دادا کی پیش گوئی
عام طور پر الزبتھ دوم کی تاجپوشی اور طویل ترین حکمرانی کو ان خاندان میں آنے والی اس ڈرامائی تبدیلی کا نتیجہ قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن برطانیہ کے شاہی خاندان کے مؤرخین کےمطابق ملکہ کے دادا جارج پنجم پہلے ہی اپنی عزیز پوتی کے تخت نشیں ہونے کی پیش گوئی کرچکے تھے۔
برطانوی مؤرخ اور سوانح نگار رابرٹ لیسی نے برطانی نشریاتی ادارے بی بی سی کے لیے اپنے ایک طویل مضمون میں لکھا کہ الزبتھ کے دادا انہیں پیار سے للی بٹ کہہ کر بلایا کرتے تھے۔ الزبتھ کی تیسری سالگرہ پر اسی نام سے ان کی تصویر ٹائم میگزین کے سرورق پر بھی شائع ہوئی تھی۔
1929 ہی سے الزبتھ کے دادا بادشاہ جارج پنجم ، جنھیں وہ گرینڈ پاپا انگلیڈ کہا کرتی تھیں، یہ پیش گوئی کرچکے تھے کہ ان کی عزیز پوتی برطانیہ پر حکمرانی کرے گی۔ رابرٹ لیسی کے مطابق بادشاہ جارج نے سب سے پہلے اپنے بیٹے اور شہزادی الزبتھ کے والد کو یہ بتادیا تھا کہ ان کا بڑا بھائی ایک دن بادشاہی چھوڑ دے گا۔
اس پیش گوئی پر الزبتھ کی دادی اور والد نے ایک دوسرے کو دیکھ کر آنکھوں ہی آنکھوں میں اسے ایک غیر منطقی بات قرار دیا تھا۔ لیکن آنے والے وقت نے بوڑھے بادشاہ کی اس پیش گوئی کو درست ثابت کیا تھا۔
ثابت قدم ملکہ
الزبتھ دوم اس دور میں ملکہ بنی تھیں جب برطانیہ 1946 میں ختم ہونے والی دوسری عالمی جنگ کے اثرات سے نکل رہا تھا۔ انہوں ںے اپنے دور میں کئی وزرائے اعظم، صدور، پوپ بدلتے دیکھے۔ سرد جنگ اور پھر سوویت یونین کا انہدام بھی اسی ستر سالہ تاریخ کا حصہ ہے۔
انہوں نے برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی اور کرونا کی عالمی وبا سے پیدا ہونے والے غیرمعمولی حالات بھی دیکھے۔ ان ستر برسوں میں دنیا کی سیاست اور سماج میں کئی انقلابی تبدیلیاں رونما ہوئیں لیکن وہ نہ صرف اپنے منصب پر برقرار رہیں بلکہ انہیں برطانیہ میں استحکام کی علامت سمجھا جاتا تھا۔
ماضی میں شاہی فرماں روا اپنی کسی خصوصیت کی بنا پر دیے گئے لقب کی وجہ سے بھی یاد رکھے جاتے ہیں مثلاً برطانیہ میں ولیم فاتح، الفریڈ اعظم وغیرہ۔ شاہی مؤرخ ہیوگو وکرز کا کہنا ہے کہ ملکہ الزبتھ کی زندگی کو دیکھا جائے تو ان کے لیے ’ثابت قدم‘ کا لقب ذہن میں آتا ہے۔
سو سال بعد آئرلینڈ کا دورہ
مئی 2011 میں ملکہ 100 سال کے دوران آئرلینڈ کا دورہ کرنے والی پہلی برطانوی فرماں روا تھیں۔ ان سے قبل 1911 میں بادشاہ جارج پنجم نے آئرلینڈ کے آزاد ریاست بننے سے ایک دہائی قبل وہاں کا دورہ کیا تھا۔
ملکہ نے اپنے دورے کے موقعے پر دونوں ممالک کے کشیدہ تعلقات کی وجہ سے مشکلات برداشت کرنے والوں سے اظہارِ ہمدردی کیا تھا۔ ان کے اس دورے کو دونوں اقوام کے درمیان مفاہمت کے لیے تاریخی قرار دیا گیا تھا۔
مشکل سال
گزشتہ کچھ عرصے کے دوران برطانیہ کے شاہی خاندان کو ایک بار پھر دو بڑے بحرانوں کا سامنا کرنا پڑا۔ 2020 میں ملکہ کے پوتے شہزادہ ہیری اور ان کی اہلیہ میگھن امریکہ منتقل ہوگئے اور اپنے انٹرویو میں شاہی خاندان پر نسل پرستانہ رویے کا الزام عائد کیا۔ہیری اور میگھن 2020 میں شاہی ذمے داریوں سے علیحدگی اختیار کرچکے ہیں۔
اسی برس ملکہ کے منجھلے بیٹے شہزادہ اینڈریو پر جنسی ہراسانی کے الزامات سامنے آٗئے۔امریکہ کی ایک عدالت میں ان پر مقدمہ بھی چلا جس جس میں ایک خاتون نے الزام عائد کیا تھا کہ شہزادہ اینڈریو نے انہیں اس وقت جنسی تعلق قائم کرنے پر مجبور کیا تھا جب اس خاتون کی عمر 17 برس تھی۔ رواں برس شہزادہ اینڈریو نے الزام عائد کرنے والی خاتون سے عدالت کے باہر مصالحت کرلی تھی۔
اس مقدمے کی کارروائی شروع ہونے کے بعد شہزادہ اینڈریو سے فوجی اعزازات واپس لے لیے گئے تھے۔ اس فیصلے کو ان سے شاہی خاندان کے فاصلہ اختیار کرنے کا اشارہ قرار دیا گیا تھا۔