اسلام آباد (دنیا نیوز) چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ لاپتہ افراد ایک بہت بڑا مسئلہ ہے، بہت مہینوں سے لاپتہ افراد کے کیسز عدالت میں زیر سماعت ہیں، اس پر ریاست کا وہ رویہ نظر نہیں آتا جو ہونا چاہیے، لوگوں کو غائب کرنا ریاست کی غیر اعلانیہ پالیسی ہے، وزیراعظم یہ کیسز حل کریں ،اس عدالت میں کوئی نیا کیس نہیں آنا چاہیے، بادی النظر میں عدالت سمجھتی ہے کہ لاپتہ افراد کیسز آئین توڑنے کے مترادف ہیں، اگر حکومت کا اپنے ماتحت اداروں پر کنٹرول نہیں تو پھر سب کو گھر چلے جانا چاہیے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں لاپتہ افراد سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، سماعت کے دوران چیف جسٹس ہائیکورٹ اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ عدالت آئین اور قانون توڑنے والوں کو ذمہ دار سمجھتی ہے، اگر حکومت کا اپنے ماتحت اداروں پر کنٹرول نہیں تو پھر سب کو گھر چلے جانا چاہیے، صوبے یا مرکز جہاں سے بھی کوئی لاپتہ ہو چیف ایگزیکٹو ذمہ دار ہے، جس نے آئین توڑا آپ اس کے خلاف ایکشن لیں۔
لاپتہ افراد کیسزمیں وزیر اعظم شہباز شریف اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش ہوئے، وزیراعظم کے ہمراہ وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب اور وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ بھی تھے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے دوران سماعت وزیراعظم سے مکالمہ میں کہا کہ اچھا نہیں لگتا عدالت آپ کو بلائے، آپ منتخب وزیر اعظم ہیں اگر کوئی لاپتہ ہو تو کس کو ذمہ دار ٹھہرائیں، عدالت کو آپ پر اعتماد ہے، لاپتہ افراد کیسز کا حل بتائیں، کیا اداروں نے ریاست کے اندر ریاست بنائی ہوئی ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ لگتا ہے لوگوں کو لاپتہ کرنا ریاست کی غیر اعلانیہ پالیسی ہے، آئین اور قانون کے مطابق تمام ذمہ داری چیف ایگزیکٹو پر آتی ہے، آپ کا لاپتہ افراد کیسز میں کمیٹی بنانا خوش آئند ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ عدالتی احکامات پر حاضر ہوا ہوں، میں لاپتہ افراد کے لواحقین سےملا، چھوٹے بچے نے کہا مجھے میرے ابو سے ملا دیں، چھوٹے بچے کا سوال روزانہ مجھے تکلیف دیتا ہے، بہانے بنانے نہیں آیا،اللہ اور عوام کو جواب دہ ہوں یقین دہانی کراتا ہوں لاپتہ افراد کیسز کو حل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑوں گا، لاپتہ افراد کمیٹی کے ہر اجلاس کی نگرانی کروں گا، رپورٹ بنا کر عدالت میں پیش کروں گا جو کہانی نہیں بلکہ حقائق پر مبنی ہوگی۔
وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ نے عدالت میں موقف اپنایا کہ لاپتہ افراد کے مسئلے کے حل کیلئے جگہ جگہ بارودی سرنگیں بچھی ہیں، اس کا حل ڈائیلاگ کے ذریعے آئین اور قانون کے تحت ہی ہونا ہے، ہم ہفتہ وار بنیادوں پر ملاقاتیں کر رہے ہیں، یہ دو چار دنوں کی بات نہیں، کم از کم 2 ماہ کا وقت چاہئے، امید ہے ہم کسی منطقی انجام تک پہنچ جائیں گے،لاپتہ افراد کیسز ایک دن کا معاملہ نہیں 20 سالوں کا مسئلہ ہے، دس دن میں مسئلہ حل ہو جائے گا یہ تو مصنوعی بات ہوگی، لاپتہ افراد کیسز کا مستقل حل تلاش کررہے ہیں۔
عدالت نے وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی استدعا پر اقدامات کےلئے 2 مہینوں کا وقت دیتے ہوئے سماعت 14 نومبر تک ملتوی کر دی ہے۔