لاہور: (دنیا نیوز) صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ ٹیکنوکریٹس کی بھی حکومت اگر بنتی ہے تو ان کا عوام سے رابطہ نہیں ہوتا، ہمیں اچھے ٹیکنوکریٹ اوراچھی ٹیکنیکل مدد کی ضرورت ہے،ایسی سیاسی حکومت جس پرعوام کا اعتمادبھی ہو جو پوری چیز قابو کر سکے۔ ملک میں بریک تھرو دور نہیں، جلد اچھی خبر آنے والی ہے، انتخابات ملکی بحرانوں سے نکلنے کا بہترین حل ہے۔ الیکشن میں چند ماہ کا فرق رہ گیا ہے، آرمی چیف کی نئے الیکشن تک تعیناتی موخر کرنے پر رائے نہیں دوں گا، فیصلہ ساز ٹیبل پر سپہ سالار کا معاملہ طے کریں تو اچھا ہے، اچھے مینڈیٹ کے ساتھ سارے فیصلے ہوں تو اچھا ہے۔
ان خیالات کا اظہار صدر مملکت نے دنیا نیوز کے پروگرام ’دنیا کامران خان کے ساتھ’ میں میزبان کامران خان کے ساتھ خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کیا۔
صدر مملکت کا کہنا تھا کہ سیاست کا بحران ہے جس کو حل کرنا آسان ہے،بہت سارے لوگ وقتی مفاد کی وجہ سے اس بحران سے نکلنے کو تیار نہیں۔ تمام سیاسی لیڈر جلد الیکشن کی بات کرتے رہے ہیں،سپریم کورٹ نے قومی اسمبلی بحران پر چیف الیکشن کمشنر سے الیکشن کرانے بارے پوچھا تھا،الیکشن کمیشن نے کہا تھا 7 ماہ لگیں گے،انتخابات شائد ان بحرانوں سے نکلنے کا بہترحل ہے۔ سیاستدانوں کے درمیان الیکشن کے حوالے سے بات چیت ہونی چاہیے، قوم کو کلیئر لیڈر شپ چاہیے، عوام مشکل میں پھنسے ہوئے ہیں، بجلی بل، مہنگائی کے اعتبارسے عوام مشکل میں ہیں، حکومت اپنی طرف سے محنت کررہی ہے۔
ڈاکٹر عارف علوی کا کہنا تھا کہ آئین کے اعتبارسے اسٹیک ہولڈرز سے بات چیت کر سکتا ہوں، سب ملکر کسی چیز پر اتفاق کریں گے، مجھے ڈر ہے کہیں معاشی بحران اس نہج پر نہ چلا جائے، عوام سڑکوں پر آ جائیں، الیکشن میں اب چند ماہ کا فرق رہ گیا ہے، آپس میں گفتگو کے لیے میرے دروازے کھلے ہیں، کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر معاملے کو نمٹانا چاہیے، الیکشن کے بعد جو بھی پارٹی جیتے اسے مینڈیٹ لیکر آنا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہٹ دھرمی سے ملک کا نقصان ہو گا، انا پر قابو پا لیں تو ہم سو فیصد یہ کام کر سکتے ہیں، سیلاب کو ٹھیک کرنے کے لیے تو پیسے کی ضرورت ہے، سیاسی جماعتوں کو آپس میں بٹھانا صرف سوچ کی بات ہے، اگرہم اکٹھے نہ ہوئے تو تاریخ ہمیں ذمہ دار ٹھہرائے گی۔ موجودہ حکومت میں شامل سیاسی قیادت بھی نئے الیکشن پر متفق تھی، حکومت سے باہر موجود سیاسی قیادت بھی جلد انتخابات چاہتی ہے، شائد انتخابات ان بحرانوں سے نکلنے کا ایک بہتر حل ہے، کچھ لے اور دے کر انتخابات کا معاملہ نمٹانا چاہیے، بہتر ہے عوام کی نمائندہ حکومت ہو چاہے موجودہ اتحادی کامیاب ہوں۔
صدر مملکت کا کہنا تھا کہ وزیراعظم شہباز شریف سے رابطہ رہتا ہے، اصل کام حکومت اور اپوزیشن بیٹھ کر چیزیں طے کریں، عدم اعتماد کے بعد جب دوسری حکومت آئی تب سے یہ بات کر رہا ہوں، پہلے دن سے کہہ رہا ہوں الیکشن کی تاریخ اور میز پر بیٹھ کر بات چیت کر لیں، عمران خان نے پیشکش کی ہیں، سیاسی میچورٹی کا تقاضا ہے تمام سیاسی جماعتیں ایک جگہ پر بیٹھ جائیں۔ خاندانی جھگڑوں میں بھی بزرگ ہی سمجھاتے ہیں، حالات ایسے ہیں لوگ آپس میں بات کرنے کے قابل ہو جائیں، رابطے بے انتہا ضروری ہے، کہا سنا معاف کر کے آگے چلنا چاہیے۔
عارف علوی کا کہنا تھا کہ کچھ بہتری ہو گئی ہے، میری کوششیں جاری ہیں اظہار زیادہ نہیں کر سکتا، الفاظ کو پکڑنے کے بجائے اصل مسائل پر بات کرنا ہو گی، اس وقت رنجشوں، انا کو قربان کر کے آپس میں بیٹھ جانا چاہیے، عمران خان سے فون یا میسجنگ کے حوالے سے رابطہ رہتا ہے، عمران خان سے روزانہ کی بنیاد پر رابطہ رہتا ہے، نئے وزیراعظم کے ساتھ بھی کمیونیکشن رہتی ہے،نیب بل، الیکٹرانک ووٹنگ مشین، اوورسیز ووٹنگ بل پر صرف دستخط سے انکارکیا تھا، بل کے حوالے سے بھی میرا موجودہ حکومت سے اچھا رابطہ ہے، موجودہ حکومت کےساتھ بھی کمیونیکشن اچھا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم سے ملکی معاملات پر مثبت انداز میں گفتگو ہوتی ہے، بہت پُراعتماد ہوں سارے سٹیک ہولڈرز کہیں نہ کہیں کوششیں کر رہے ہیں، پوری قوم منتظرہے کم سے کم کوئی آپس میں کوئی معاہدہ ہو جائے، بڑا پُر امید ہوں ٹیبل پر بات چیت کی آفرہے، اس وقت بحران بہت بڑا ہے مثبت حل بے حد ضروری ہے، اگر ہم نے اس کرائسز کو حل نہ کیا توتاریخ سب کوملزم ٹھہرائے گی۔
صدر مملکت کا کہنا تھا کہ بات چیت کے لیے میرے دروازے سب کے لیے کھلے ہیں، سیاسی استحکام کے لیے بہترین طریقہ ہے کچھ ادھر کچھ ادھرکرلیا جائے، میرے کہنے کا مطلب ہے ایک دو مہینے اِدھر اُدھر کر لینے چاہئیں، ایسا ماحول بنانا چاہیے سیاستدانوں کو بیٹھ کر بات کرنے کے لیے راضی کرنا چاہیے، ہٹ دھرمی سے ملک کا نقصان ہو رہا ہے، ہٹ دھرمی کا کسی کوفائدہ نہیں ہو گا ملک کا نقصان ہو گا، پہلے دن سے کہہ رہا ہوں کچھ ایشوزہیں انہیں بیٹھ کرحل کرنا چاہیے، آج پاکستان کے بانڈز کمزور ہیں تو اس کی وجہ کیا ہے، دنیا دیکھ رہی ہے۔
عارف علوی کا کہنا تھا کہ سیلاب کا بحران اپنی جگہ پریشان کن ہے، ریلیف ہمارے بس میں ہے، سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے معیشت بہتر ہونا ضروری ہے، مسائل سارے ہیں یہ کہنا پہلے یہ کر لو وہ کر لودرست نہیں ہے، ہمیں سارے مسائل حل کرنے ہیں لیکن کہیں سے تو ابتدا کرنا ہو گی، بطور صدر اسٹیک ہولڈرز کے سامنے اپنی رائے رکھ سکتا ہوں، خاکہ اس صورت میں بنے گا جب سب مل کراتفاق کریں گے، پاکستان اب مزید بحرانوں کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
انہوں نے کہا کہ اگر معیشت کمزور ہوتی ہے تو دفاع کے اعتبارسے بھی فرق پڑتا ہے، سیلاب ہو یا زلزلہ افواج پاکستان نے بہترین کردار ادا کیا، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں افواج پاکستان نے بہت قربانیاں دیں، معاشی حالات کے افواج پر بھی اثر پڑتا ہے، افواج پاکستان کے ساتھ بھی بڑی اچھی کمیونیکشن رہتی ہے، پچھلے ڈیڑھ ماہ کے دوران افواج کے ساتھ کمیونیکشن میں اضافہ ہوا ہے، مِس کمیونیکشن، دوریوں کو ہر خاندان جانتا ہے، جب بھی معاملات کو جوڑا جاتا ہے تو رفع دفع کر کے کیا جاتا ہے، دوریاں مِس کمیونیکشن، سوشل میڈیا کی وجہ سے پھیلیں، دنیا سوشل میڈیا سے پریشان ہے، سوشل میڈیا کی فیک نیوزپرقابوپانا ہوگا۔ 2007ء سے ٹویٹر پر میرا اکاؤنٹ ہے، سوشل میڈیا کو بند کرنا یا دہشت گردی کا الزام لگانے سے تناؤ پیدا ہو گا، آج کی دنیا میں سوشل میڈیا کو بند نہیں کیا جاسکتا، پارلیمنٹ میں بھی گفتگو ہوتی ہے، ٹیبل پر پروپوزل موجود ہے ٹیبل پر تو آئیں۔
صدر کا کہنا تھا کہ نئے آرمی چیف کی نئے الیکشن تک تعیناتی موخرکرنے پر رائے نہیں دوں گا، فیصلہ ساز ٹیبل پر سپہ سالار کا معاملہ طے کریں تو اچھا ہے، اچھے مینڈیٹ کے ساتھ سارے فیصلے ہوں تو اچھا ہے۔ بات چیت کے لیے میرا کام کوشش کرنا ہے، اللہ کی مدد کی بھی ہمیں ضرورت ہے، بہت جلد سیاسی بحران کا حل نکل آئے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ دنیا کے سامنے سیاست دانوں کے متحد ہونے کا پیغام جانا چاہیے،اصل کام حکومت اوراپوزیشن کا ہے بیٹھ کر باتیں طے کریں، ٹیکنوکریٹس کی بھی حکومت اگر بنتی ہے تو ان کا عوام سے رابطہ نہیں ہوتا، ہمیں اچھے ٹیکنوکریٹ اوراچھی ٹیکنکل مدد کی ضرورت ہے،ایسی سیاسی حکومت جس پرعوام کا اعتمادبھی ہو جو پوری چیز قابو کر سکے، الیکشن شیڈول اور قبل از الیکشن میں چند ماہ کا فرق رہ گیا ہے،الیکشن میں چند ماہ کے فرق پر آپس میں کوئی بات طے کرنا ہو تو میرے دروازے کھلے ہیں،اتفاق کا راستہ یہی ہے کہ کچھ لو اور کچھ دو، بحران اتنا بڑا ہے گفتگو کرنی چاہیے،ٹیبل پر پہلا پروپوزل شفاف انتخابات کے حوالے سے ہے بات کر لی جائے، سوشل میڈیا کوکوئی قوت ڈسپلن نہیں کر سکتی، سوشل میڈیا کی وجہ سے دوریاں پیدا ہوئی یہ تمہارا آدمی ہے،مس کمیونیکشن، الفاظ کی وجہ سے دوریاں ہوتی ہیں،سوشل میڈیا پرجوآدمی آتا ہے جومرضی کہہ دیتا ہے،کیا تاریخ یہ لکھے گی سوشل میڈیا میں لوگوں نے منافرت پیدا کر دی تھی، دنیا سوشل میڈیا کی وجہ سے پریشان ہے،سوشل میڈیا پرمنفی گفتگوسے پرہیزکرنا چاہیے،پارٹی کے لوگوں کوسوشل میڈیا پرایسے لوگوں کی بیکنی کرنی چاہیے۔