اسلام آباد: (محمد عادل)آج کل عمران خان کی سیاست ایک خاص بیانیے کے گرد گھوم رہی ہے۔ نومبر جیسے جیسے قریب آرہا ہے عمران خان کا اضطراب بڑھ رہاہے ،وہ دبائو بڑھا رہے ہیں،اسلام آباد مارچ کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔
سیاسی بیان بازی اور کشیدگی بڑھ رہی ہے ۔آنے والے دنوں میں اس میں مزید اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔سیلاب کے باعث فوری انتخا بات ممکن تو نظر نہیں آتے ،اس لئے نیا بیانیہ لایا گیا ہے۔ساتھ ساتھ کوشش بھی کررہے ہیں کہ فروری تک الیکشن اور اپریل سے پہلے حکومت تشکیل پاجائے ۔انہیں یقین ہے کہ وہ الیکشن میں دوتہائی اکثریت حاصل کرلیںگے ،اسی لئے ٹیمپو نہیں توڑنا چاہتے لیکن بدقسمتی سے انہیں خدشات بھی ہیں کہ کیا وہ صرف عوامی مقبولیت کی بدولت اقتدار کی منزل تک پہنچ پائیں گے؟ آئین اور قانون کے مطابق آرمی چیف کا تقرر وزیراعظم کا اختیار ہے۔ شہبازشریف کو آئینی اور قانونی طور پر اپنے اختیارات کے استعمال سے کوئی نہیں روک سکتا لیکن عمران خان پر اپنی مقبولیت کی وجہ سے ایک مخصوص کیفیت طاری ہے ۔وہ اب ہر چیز پراپنا استحقاق سمجھتے ہیںاور جو چیز ان کی دسترس میں نہ آئے تو وہ اسے متنازعہ بنانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ وزیراعظم نے لندن میں نوازشریف سے بھی مشاورت کی ہے، حتمی فیصلہ بھی نوازشریف نے اتحادیوں کو اعتماد میں لے کر ہی کرنا ہے۔ سب سے زیادہ تقرریوں کا اعزاز بھی نوازشریف کو ہی حاصل ہے لیکن ان کے کئے فیصلے انہیں کبھی راس نہیں آئے ۔
عمران خان پردہشت گردی کی دفعات ختم ہو گئی ہیں، اب توہین عدالت کا کیس باقی ہے ،22 تاریخ کوفردجرم لگنی ہے ، الیکشن کمیشن نے توشہ خانہ کا فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔ کپتان کے وکلا ایک طرف کہتے ہیں کہ سارے ثبوت دیئے دوسری طرف کہتے ہیں کہ ایک سو بیس دن بعد الیکشن کمیشن کا دائرہ اختیار ہی نہیں کہ وہ گوشواروں پر کارروائی کرسکے لیکن فیصلہ تو الیکشن کمیشن نے کرنا ہے ،خلاف آیا تو معاملہ پھر عدالت جائے گا۔اعلیٰ عدلیہ پہلے ہی نوازشریف کو بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر نااہل کرچکی ہے، اسی لئے عمران خان بار بار کہہ رہے ہیں کہ بیلنس کرنے کیلئے وہ بھی نااہل ہوسکتے ہیں اور ان کی نااہلی سے ہی نوازشریف کی واپسی کا راستہ نکلے گا ۔اگر عمران خان نے قانون کی خلاف ورزی کی ہے تو سزا بھی انہیں قانون کے مطابق ہی ملنی چاہئے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ماضی میں سیاسی انجینئرنگ اور سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے نیب اور دیگر اداروں کو استعمال کیا جاتا رہا ہے ،اسی لئے ملک میں کبھی سیاسی استحکام نہیں آسکا۔باربار غلطیوں کو دہرانا نہیں چاہئے اورالیکشن سے پہلے تمام سیاسی جماعتوں اور رہنمائوں کو کھل کر الیکشن لڑنے کا موقع دینا چاہئے۔ احتساب قوانین میں تبدیلی کے نتائج آنا شرو ع ہوگئے ہیں، سیاستدان ایک ایک کرکے نیب کے شکنجے سے نکل رہے ہیں۔ وزیراعظم شہبازشریف ،ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز کا رمضان شوگر ملز کا کیس نیب کے دائرہ کار سے باہر ہوگیا ہے ۔سابق وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی اور راجا پرویز اشرف سمیت کئی سیاسی رہنمائوں کے کیسز ختم ہوگئے ہیں۔اب جب عمران خان کہتے ہیں کہ حکمران اپنے کیسز ختم کروانے آئے ہیں تو لوگ کیوں کر ان پر یقین نہ کریں ۔اسلام آباد ہائیکورٹ میں ایون فیلڈ کیس میں مریم نواز کی اپیل پر سماعت کے دوران معزز ججوں نے نیب سے چند سوالوں کے جواب مانگے ہیں کہ،فلیٹس اور کمپنیوں کی ملکیت نوازشریف کے ساتھ ثابت کریں اور یہ بھی کہ یہ جائیدادیں نوازشریف نے خریدیں، عدالت نے نیب کو مریم نواز کے ساتھ بھی فلیٹس کا تعلق ثابت کرنے کا کہہ دیا ہے، یعنی اب ثبوت اور تعلق ثابت کرنا نیب کی ذمہ داری ہے۔
شہبازشریف اب تک کامیاب وزیراعظم ثابت نہیں ہوسکے، انہوں نے اب تک ساری سیاست نوازشریف کی چھتری تلے کی ہے ، پہلی بار بھائی کے بغیر اقتدار میں ہیں ۔ان کے بارے میں یہی خیال کیا جاتا تھا کہ بہترین ایڈمنسٹریٹر ہیں ،کاروبار حکومت کو اچھے طریقے سے چلاتے ہیں لیکن اب وہ مکمل طور پر ایکسپوز ہوگئے ہیں ۔شہباز شریف کی فیصلہ سازی کا یہ عالم ہے کہ تین صوبوں کے پی کے ،سندھ اور بلوچستان کے گورنر تک تعینات کرسکے نہ اتحادیوں کو ایک ٹیبل پر لا کرتحفظات دور کرا سکے۔ صرف کابینہ میں لوٹ سیل لگا رکھی ہے جو جماعت چاہتی ہے دبائو ڈال کر اپنا مشیر لگوالیتی ہے۔ آئی ایم ایف معاہدے کے بعد توقع تو یہی تھی کہ معاشی حالات بہتری کی طرف جائیں گے لیکن ایک بار پھر ڈالر کی قیمت مسلسل بڑھ رہی ہے ۔مہنگائی نے عوام کا برا حال کردیا ہے، عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں کم ہورہی ہیں لیکن خلاف توقع دو مرتبہ پٹرول کی قیمتیں بڑھا دی گئی ہیں۔ مریم نواز قیمتوں میں اضافے پر مسلسل اپنی حکومت کیخلاف ردعمل دے رہی ہیں لیکن اس مرتبہ تو وزیراعظم اور مفتاح اسماعیل کی نوازشریف سے ملاقات کے بعد قیمتیں بڑھی ہیں۔مریم نواز اب جو بھی کہیں عوام کو صرف بیان بازی سے مطمئن نہیں کیا جاسکتا۔