سپریم کورٹ: نیب سے 23 سال کے ہائی پروفائل کرپشن کیسز کا ریکارڈ طلب

Published On 11 October,2022 04:08 pm

اسلام آباد: (دنیا نیوز) نیب قانون میں ترامیم کے خلاف مقدمے میں سپریم کورٹ نے 23 سال کے ہائی پروفائل کرپشن کیسز کا ریکارڈ طلب کر لیا۔

نیب قانون میں حالیہ ترامیم کے خلاف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی درخواست پر سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں ‏جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل 3 رکنی بنچ نے سماعت کی۔

دوران سماعت پی ٹی آئی وکیل وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نیب قانون میں تبدیلی سے بے نامی دار کی تعریف انتہائی مشکل بنا دی گئی ہے۔ اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کس آئینی شق کو بنیاد بنا کر نیب قانون کو کالعدم قرار دیں۔ وکیل نے استدعا کی کہ معاملہ اہم سیاسی رہنماؤں کے کرپشن میں ملوث ہونے کا ہے جہاں عوامی پیسے کا تعلق ہو، وہ معاملہ بنیادی حقوق کے زمرے میں آتا ہے جعلی بینک اکاؤنٹس کیسز میں بھی بے نامی کا معاملہ تھا، معاشی پالیساں ایسی ہونی چاہییں کہ بنیادی حقوق متاثر نہ ہوں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ معاشی پالیسیوں کو دیکھنا سپریم کورٹ کا کام نہیں ہے۔ اگر کسی سے کوئی جرم سرزد ہوا ہے تو قانون میں مکمل شفاف ٹرائل کا طریقہ کار موجود ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ معیشت پالیسی کا معاملہ ہوتا ہے جس میں عدالت مداخلت نہیں کر سکتی۔ عوام کے اثاثوں کی حفاظت ریاست کی ذمے داری ہے۔ بے تحاشا قرض لینے کی وجہ سے ملک بری طرح متاثر ہوا ہے۔ قرضوں کا غلط استعمال ہونے سے ملک کا یہ حال ہوا۔ زیادہ تر غیر ضروری اخراجات ایلیٹ کلاس کی عیاشی پر ہوئے۔ ملک میں 70 سے 80 فیصد لوگ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ عدالت حکومت کو قرض لینے سے نہیں روک سکتی۔ معیشت کے حوالے سے فیصلے کرنا ماہرین ہی کا کام ہے۔

وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ میں معاشی پالیسی کے الفاظ واپس لیتا ہوں۔

دوران سماعت چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے ہیں کہ پاکستان میں جائیداد اور دولت بنانے پر کوئی کنٹرول نہیں، نہ ہی احتساب ہے۔

نیب قوانین میں ترامیم سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ نے 1996ء میں ایک کیس میں زندہ درخت کی مثال دی۔ زندہ درخت گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ بڑھے گا۔ قانون نہیں ہوگا تو مافیاز ہوں گے ۔ پاکستان میں بہت سے مافیاز ہیں۔ میں کسی مافیا کا نام نہیں لوں گا ، لیکن مافیاز کی وجہ سے بد امنی اور انتشار پیدا ہوتا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمارے نظام میں مناسب ریگولیٹر موجود نہیں۔دنیا میں جائیداد اور دولت پر ٹیکس لیا جاتا ہے، ہمارے ہاں 2001ء میں ویلتھ ٹیکس کو ختم کردیا گیا۔ ملک میں جائیداد بنانے پر کوئی کنٹرول نہیں، نہ احتساب ہے ۔ یہ سب نکات ہیں جو سیاسی نوعیت کے ہیں ،جو پارلیمان نے طے کرنے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ احتساب تندرست معاشرے اور تندرست ریاست کے لیے اہم ہے۔ کرپشن دنیا میں ہر جگہ موجود ہے۔ کچھ نقائص بھی موجود ہیں۔ نقص یہ بھی ہے کہ کچھ سرکاری ملازمین جیلیں کاٹ کر بری ہو چکے ہیں۔ کچھ کاروباری شخصیات بھی نیب سے مایوس ہوئیں، نیب ترامیم میں کچھ چیزیں بھی ہیں جن سے فائدہ ہوا۔ کچھ ایسی ترامیم بھی ہیں جو سنگین نوعیت کی ہیں۔ ہم نے توازن قائم کرنا ہے۔ نیب قانون میں حالیہ تبدیلی کے سبب ملزمان کو فائدہ بھی پہنچا۔ پلی بارگین اور 500 ملین روپے کی حد مقرر کرنے سے ملزمان کو فائدہ ہوا۔

چیف جسٹس نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ معیشت پالیسی کا معاملہ ہوتا ہے جس میں عدالت مداخلت نہیں کر سکتی۔ عوام کے اثاثوں کی حفاظت ریاست کی ذمے داری ہے۔ بے تحاشا قرض لینے کی وجہ سے ملک بری طرح متاثر ہوا ہے۔ قرضوں کا غلط استعمال ہونے سے ملک کا یہ حال ہوا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ زیادہ تر غیر ضروری اخراجات ایلیٹ کلاس کی عیاشی پر ہوئے۔ ملک میں 70 سے 80 فیصد لوگ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ عدالت حکومت کو قرض لینے سے نہیں روک سکتی۔ معیشت کے حوالے سے فیصلے کرنا ماہرین ہی کا کام ہے۔


جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ ہمیں پہلے یہ بتائیں کہ نیب ترامیم کے ذریعے کس بنیادی حق کی خلاف ورزی ہوئی ہے؟۔ فرض کریں پارلیمنٹ نے ایک حد مقرر کردی اتنی کرپشن ہوگی تو نیب دیکھے گا۔ سوال یہ ہے عام شہری کے حقوق کیسے متاثر ہوئے ہیں؟۔ پی ٹی آئی کے وکیل نے جواب دیا کہ نیب قانون سے زیر التوا مقدمات والوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا کوئی ایسی عدالتی نظیر موجود ہے جہاں شہری کی درخواست پر عدالت نے سابقہ قانون کو بحال کیا ہو؟۔ شہری کی درخواست پر عدالت پارلیمنٹ کا بنایا ہوا قانون کیسے کالعدم قرار دے سکتی ہے؟۔ وکیل نے جواب دیا کہ پبلک منی کے معاملے پر عدالت قانون سازی کالعدم قرار دے سکتی ہے۔عوام کا پیسہ کرپشن کی نذر ہونا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

بعد ازاں عدالت نے ریکارڈ طلب کیا کہ اب تک کتنے ایسے کرپشن کے کیسز ہیں، جن میں سپریم کورٹ تک سزائیں برقرار رکھی گئیں؟ اب تک نیب قانون کے تحت کتنے ریفرنسز مکمل ہوئے؟،نیب قانون میں تبدیلی کے بعد کتنی تحقیقات مکمل ہوئیں؟۔عدالت نے نیب سے 1999ء سے لے کر جون 2022ء تک تمام ہائی پروفائل کیسز کا ریکارڈ طلب کرتے ہوئے سماعت کل تک ملتوی کردی۔