لاہور: (روز نامہ دنیا) عوام کا سیاسی رحجان جاننے کا سب سے بہترین طریقہ کار انتخابات ہی ہوتے ہیں۔17 جولائی2022ء کو ہونے والے ضمنی انتخابات نے یہ واضح کر دیا تھا کہ عمران خان پاکستان کے سب سے مقبول لیڈر ہیں اورتحریک انصاف سب سے مقبول سیاسی جماعت ہے۔
انتخابات پر اثرانداز ہونے والے بہت سے عوامل ہوتے ہیں، جس میں مقامی سطح پر امیدوار کا کردار ،برادری ، حلقے میں کتنا سر گرم ہے اور ان سب سے اہم کہ اس حلقے میں صحت ،تعلیم اور صفائی ستھرائی کے کیا انتظامات ہیں ۔قومی سطح پرمہنگائی اور بجلی کے نرخ انتخابات کے نتائج پر کافی حد تک اثرانداز ہوتے ہیں ۔ مگر ماضی قریب میں جماعتوں کے وطن پرستی کے بیانیہ نے سیاسی جماعتوںکو زوال اور عروج سے ہمکنار کیا ہے۔
جولائی 2022ء میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں عمران خان کے وطن پرستی کے بیا نیہ میں کافی جان موجود تھی مگر ہر گزرتے دن کے ساتھ عمران خان کا بیانیہ کمزور ہوتا محسوس ہو رہا ہے لیکن اب بھی عوامی روابط میں عمران خان کا کوئی ثانی نہیں ۔ ان ضمنی انتخابات میں ان حلقوں کا ہی انتخاب کیوں کیا گیا تھا یہ وہ سوال ہے جو سیاسی ماہرین کی نظر میں کافی اہمیت کا حامل ہے ۔ مربوط حکمت عملی کے تحت ان حلقوں کا انتخاب کیا گیا جہاں پر جیتے والے اور ہارنے والے امیدواروں میںجند سو ووٹوں کا فرق تھا۔
ان ضمنی انتخابات میں پیپلزپارٹی نے ایک بار بھر ثابت کیا ہے کہ وہ وفاق کی نمائندہ جماعت ہے اور خاص طور پر جنوبی پنجاب میں بھی ایک مقبول جماعت ہے ۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے صوبائی انتخابات میں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کیا اور یوں محسوس ہوا کہ انہوں نے اپنے امیدواروں کو بے یارومدگار چھوڑ دیا ہے ۔ مارچ 2022 ء سے ان ضمنی انتخابات تک کسی پارٹی کی مقبولیت کو خطرناک حد تک نقصان پہنچا ہے تو وہ ایم کیو ایم ہے ۔ایم کیو ایم سیاسی طور پر اپنے مشکل ترین دور سے گزر رہی ہے۔
اگر مستقبل میں وہ اپنی سیاسی حکمت عملی پر غور نہیں کرتی تو کراچی میں بھی پاکستان تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی ان کے اس خلا ء کو پر کرنے کے لیے تیار بیٹھی ہیں ۔ان ضمنی انتخابات نے یہ واضح کر دیا ہے کہ خیبر پختونخوا میں عمران خان اپنے پنجے مضبوطی سے گاڑ چکے ہیں اور ان ضمنی انتخابات سے مستقبل میں بھی خیبر پختوخوا میں سیاسی صورتحال کا اندازہ لگا یا جا سکتا ہے۔
عمران خان نے فرنٹ فٹ پرکھیلتے ہوئے پشاور سے بلدیاتی انتخابات میں شکست کا بدلہ ضمنی انتخابات میں فتح کی صورت میں خود لیا ہے۔ خیبر پختونخوامیں عمران خان نے جمعیت علمائے اسلام ، عوامی نیشنل پارٹی ، پنجاب میں مسلم لیگ (ن) اور سندھ میں ایم کیو ایم کے امیدواروں کو شکست دے کر ثابت کر دیا ہے کہ ان کی مقبولیت پوری پی ڈی ایم سے زیادہ ہے۔
این اے 22 مردان
مردان کے اس حلقے میں سخت مقابلے کی توقع تھی۔عمران خان خود بھی اپنے مخالف امیدوار کی تعریف کر چکے تھے، اس حلقے میں بہت زیادہ مذہبی رجحان پایا جاتا ہے۔2018ء کے عام انتخابات میں بھی پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار علی محمد خان نے مولانا محمد قاسم کو شکست دی تھی۔اس حلقے میں2018ء کے عام انتخابات میں جیتنے اور ہارنے والے امیدواروں کے درمیاں ووٹوں کا فرق سیکڑوں میں تھا جسے عمران خان نے اس ضمنی انتخاب میں ہزاروں میں بدل دیا ہے۔
این اے 24 چارسدہ
چارسدہ کے حلقہ این اے 24میں عمومی طور پراے این پی کو کافی مضبوط تصور کیا جاتاتھا۔ عام خیال کیا جارہا تھا کہ عمران خان کو اس حلقے میں مشکلات پیش آ سکتی ہیں ۔ اس حلقے میں ایمل ولی خان نے بہترین عوامی مہم چلائی مگرعمران خان کی مقبولیت یہاں بھی سر چڑ کر بولی اور ایمل ولی خان کی انتخابی مہم سود مند ثابت نہ ہو سکی۔عمران خان نے اے این پی کو شکست دے کر اس تاثر کو بھی زائل کر دیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف خیبر پختونخوا میں اپنی مقبولیت کھو رہی ہے۔
این اے 31 پشاور
پشاور کے اس حلقے میں بلدیاتی انتخابات کے بعد یہ خیال کی جارہا تھا کہ اے این پی اس حلقے میں اپ سیٹ کر سکتی ہے کیونکہ پشاور شہر کا مئیر جے یو آئی سے تعلق رکھتا ہے اور پی ڈی ایم کی جماعتیں بھی اے این پی کی حمایت کر رہی ہیں۔غلام احمد بلور محترمہ بے نظیر بھٹو کو بھی شکست سے دوچار کر چکے ہیں ۔ اس لحاظ سے وہ اس حلقے میں بہترین امیدوار تصور کئے جارہے تھے لیکن عمران خان نے نہ صرف بلدیاتی انتخابات میں شکست کا بدلہ اتار دیا ہے بلکہ تحریک انصاف اور اپنی مخالف جماعتوں کو یہ باور کروا دیا ہے کہ وہ آج بھی پاکستان کے سب سے زیادہ مقبول لیڈر ہیں۔
این اے 108 فیصل آباد
فیصل آباد کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کا گڑھ سمجھا جاتا ہے ۔ 2018ء کے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف نے یہاں اپ سیٹ کرتے ہوئے نواز لیگ کو ایک بھی سیٹ پر کامیاب نہیں ہو نے دیا۔ پی ٹی آئی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے عابد شیر علی اور راناء ثنا اللہ کی دیرینہ سیاسی رنجشیں رفاقتوں میں بدل گئیں لیکن یہ دوستی بھی عابد شیر علی کو ضمنی انتخاب میں شکست سے نہ بچا سکی۔ عابد شیر علی ، رانا ء ثنا اللہ کی اپنی یونین کونسل سے بھی شکست کھا گئے۔
این اے 118 ننکانہ صاحب
ضمنی انتخابات سے قبل سیاسی مبصرین کا خیال تھا کہ ننکانہ صاحب عمران خان کیلئے سیاسی ہمالیہ ثابت ہو سکتا ہے ۔ ننکانہ صاحب میں ووٹرز کی ایک بڑی تعداد برادری نظام کی پیروی کرتی ہے لیکن یہاں بھی دیگر حلقوں کی طرح عمران خان کی مقبولیت نے روایتی سیاست اور برادری ازم کو شکست دے کر کامیابی حاصل کی۔شذرہ منصب ننکانہ صاحب میں ایک مقبول سیاسی گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں ۔شذرہ منصب کی شکست کی ایک بڑی وجہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کی ننکانہ صاحب اس ضمنی انتخاب میں عدم دلچسپی بھی ہے ۔زیادہ تر شذرہ منصب اکیلی ہی اپنی انتخابی مہم چلاتی نظر آئیں۔
این اے 239 کراچی کورنگی
این اے239کراچی کا یہ حلقہ زیادہ تر شہری علاقوں پر مشتمل ہے۔کافی عرصہ سے پاکستان تحریک انصاف کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ کے متبادل کے طور پر دیکھی جارہی ہے۔متحدہ کے قیام سے اب تک اگر کسی سیاسی جماعت نے اسے سب سے زیاد ہ سیاسی نقصان پہنچایا ہے تو وتحریک انصاف ہے۔ایم کیو ایم کے اندورنی اختلافات اور کوئی واضع سیاسی حکمت عملی کا نہ ہونابھی ایم کیو ایم کو غیر مقبول کر رہا ہے۔اس حلقے میں عمران خان کے مدمقابل ایم کیو ایم کا امیدوار بے بس نظر آیا۔