ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو گرے لسٹ سے نکال دیا

Published On 21 October,2022 07:53 pm

اسلام آباد: (دنیا نیوز،ویب ڈیسک) ملک کے لیے بڑی خوشخبری ہے، فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) نے پاکستان کو 4 سال بعد گرے لسٹ سے نکال دیا۔

ایف اے ٹی ایف کے صدر ٹی راجا کمار نے پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ پاکستان 2018 سے گرے لسٹ میں تھا اور حکام کی جانب سے بڑی محنت کے بعد منی لانڈرنگ اور انسداد دہشت گردی فنڈنگ کے حوالے سے کمزور پر قابو پاتے ہوئے 34 نکات پر عمل درآمد مکمل کرلیا۔ ایف اے ٹی ایف پاکستان کو اس پیش رفت پر خیرمقدم کرتا ہے۔

 ٹی راجا کمار نے کہا کہ پاکستان اب منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے لیے فنڈنگ پر مؤثر کام کر رہا ہے، ایف اے ٹی ایف کی ٹیم نے تصدیق کی کہ اصلاحات کی گئی ہیں اور اصلاحات جاری رکھنے کے لیے اعلیٰ سطح کی قابلیت اور عزم ہے۔ یہ اصلاحات ملک اور خطے کے استحکام اور سلامتی کے لیے اچھے ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انہیں مزید کام کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں امید ہے پاکستان نظام کو مزید مضبوط کرنے کے لیے ایف اے ٹی ایف کے ریجنل شراکت دار ایشیا پیسفک گروپ سے تعاون جاری رکھے گا۔ میانمار کو بلیک لسٹ کردیا گیا ہے، جس کی وجہ گزشتہ ڈھائی برس میں انسداد دہشت گردی اور منی لانڈرنگ پر قابو پانے میں بڑے پیمانے پر حکمت عملی میں خامیاں پائی گئیں۔

وزیر خارجہ

وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری نے ٹوئٹر پر بیان میں لکھا کہ پاکستان کے عوام کو مبارک ہو۔  پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سےباقاعدہ طور پر نکال دیا گیا ہے۔ 

وزیراعظم شہباز شریف

دوسری طرف وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ فیٹف گرے لسٹ سے پاکستان کا نام نکلنے پر شکر ادا کرتے ہیں، اللہ کا شکر ہے پاکستان کو فیٹف کی گرے لسٹ سے نجات ملی، پاکستان کا سربلند ہونے پر میری گردن اللہ تعالیٰ کے حضور شکر سے جھکی ہوئی ہے، عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ اور وقار کی بحالی قوم کو مبارک ہو، دہشتگردی کے خلاف جنگ میں یہ ہماری عظیم قربانیوں کا اعتراف ہے۔

شہباز شریف نے کہا کہ انسداد دہشت گردی کے لئے پاکستان کی کاوشوں کو دنیا نے تسلیم کیاہے، فیٹف میں شامل ممالک کا شکریہ ادا کرتا ہوں انہوں نے پاکستان کے موقف کو تسلیم کیا، افواج پاکستان، ڈی جی ایم او سمیت دیگرتمام ٹیم کو مبارک دیتا ہوں، آرمی چیف کو کامیابی میں کلیدی کردار پر سراہتے ہیں اور مبارک دیتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے ہمیشہ قومی اور ریاستی مفاد کو ترجیح دی، گرے لسٹ سے نجات کے پاکستان کی معیشت، سفارت اور سیاست پر مثبت اثرات ہوں گے، آنے والے وقت میں ملک اور قوم کے لئے اور بھی خوش خبریاں آئیں گی۔

وزیر مملکت برائے خارجہ حنا ربانی کھر

وزیرمملکت برائے خارجہ حنا ربانی کھر نے ایف اے ٹی ایف کے اعلان کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے حوالے سے پاکستانی قوم طویل عرصے سے خوش خبری کا انتظار کر رہی تھی۔

انہوں نے کہا کہ میں گزشتہ دو دن سے پیرس میں ایف اے ٹی ایف کی پلینری اور آئی سی آر جی میں پاکستان کی نمائندگی کر رہی ہوں، جس کا آج اختتام ہوا ہے۔ اجلاس کے دوران پاکستان میں دو ہفتے قبل ایف اے ٹی ایف کے آن سائٹ وزٹ کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیا، الحمد اللہ پاکستان کی چار سالہ مستقل اور پائیدار کوششوں کا اعتراف کیا گیا۔ پاکستان نے 2018 اور 2021 کے تمام ایکشن پلان پر مکمل عمل کر لیا ہے، لہٰذا ایف اے ٹی ایف نے متفقہ طور پر پاکستان کو گرے لسٹ سے نکال دیا اور وائٹ لسٹ میں شامل کر لیا ہے۔ ایف اے ٹی ایف نے اے ایم ایل اور سی ایف ٹی کے حوالے سے نمایاں پیش رفت کو سراہا، پاکستان نے 34 نکات پر مشتمل 2 علیحدہ ایکشن پلانز کی تمام شرائط پوری کرلی ہیں۔ یہ عمل تھوڑا غیرمعمولی تھا، پاکستان کو ایک وقت میں دو ایکشن پلان پر عمل کرنا پڑا، فیٹف نے 2018 اور جون 2021 میں جن اسٹریٹجک مسائل کی نشان دہی کی تھی، پاکستان نے 2021 کے ایکشن پلان پر وقت سے پہلے ہی عمل کر لیا تھا، جس سے ایف اے ٹی ایف کی جانب سے تسلیم کیا گیا تھا۔

حنا ربانی کھر نے کہا کہ پاکستان ایف اے ٹی ایف کے ایشیا پیسیفک گروپ کے ساتھ کام جاری رکھے گا تاکہ اے ایم ایل اور سی ایف ٹی کے نظام کو مزید بہتر کرسکے اور ہماری کامیابیاں مزید درست سمت میں جائیں۔ یہ پورے ملک کی کوششوں کی وجہ سے ممکن ہوا، مکمل سیاسی اتفاق رائے کے بغیر گرے لسٹ سے نکلنا ممکن نہیں ہوسکتا اور یہ اس بات کا اظہار ہے کہ اگر پاکستان بطور قوم متحد ہو کر کام کرے تو کوئی بھی مقصد حاصل کرسکتا ہے۔

حنا ربانی کھر نے کہا کہ وزارت داخلہ، وزارت خارجہ، وزارت خزانہ، پولیس، سی ٹی ڈی سمیت دیگر تمام اداروں نے کردارا دا کیا ہے۔ ایف اے ٹی ایف کی وائٹ لسٹ میں شامل ہونے کا مطلب ہے کہ لوگ آپ کے ملک میں بغیر سوچے سرمایہ کاری کرسکتے ہیں، بغیر سوچے آپ کے ملک کے ساتھ تجارت کرسکتے ہیں اور یقیناً یہ بہت اچھی خبر ہے۔ پاکستان کا پچھلے چار سالوں میں کھٹن سفر رہا ہے، پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی جانب سے 2 ورکنگ پلان 2018 اور 2021 میں ہمیں دیا گیا، ان دونوں ورکنگ پلان کے تقریبا 34 نکات تھے، جن پر پاکستان کو کام کرنا تھا۔

حنا رضا کھر کا کہنا تھا کہ ہمیں قانونی، انتظامی اور ادارہ جاتی تبدیلیاں کرنا پڑیں اور کیونکہ ہم گرے لسٹ میں آ گئے تھے، اس لیے ہمیں باقی ممالک سے بہت آگے نکلنا پڑا تاکہ ہم یہ بتا سکیں کہ ایف اے ٹی ایف کی جانب سے دیے گئے تمام ایکشن پلان کو پورا کرنے کے لیے پاکستان پُرعزم ہے۔ اینٹی منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کے خلاف جو قانون سازی ہوئی، وہ آج پوری دنیا میں نمایاں ہوئی ہے، ہمارا یہ عزم ہے کہ جو فائدہ ہمیں حاصل ہوا ہے۔ایک ملک کے علاوہ ہر ملک نے پاکستان کی کاوشوں کو سراہا، اور کہا کہ پاکستان نے گزشتہ چار سالوں میں جو کچھ حاصل کیا ہے وہ غیر معمولی ہے۔
 

پاک فوج کا کردار

 فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (فیٹف) نے پاکستان کو اپنی گرے لسٹ سے نکال دیا۔ اس بڑی کامیابی کا سہرا آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے نام ہے۔ پاکستان نے عالمی رسک بیسڈ اسٹریٹیجی کی پاسداری کی روایت برقرار رکھی۔ پاکستان نے فیٹف میں دیے گئے تمام اہداف وقت سے پہلے مکمل کیے۔ پاکستان نے تمام نکات پر عمل درآمد کر کے ذمہ دار ریاست کا ثبوت دیا۔

آرمی چیف نے بھی کلیدی کردار ادا کیا اور اداروں کے ساتھ مل کر نکات پر عمل یقینی بنایا۔ بھارت کی کوشش تھی کہ پاکستان بلیک لسٹ ہو لیکن پاک فوج نے سازش کو ناکام بنایا۔ فیٹف کے تمام نکات پر عمل کرنے کے بعد پاکستان گرے سے وائٹ لسٹ کی طرف گامزن ہے۔ آرمی چیف کے حکم پر میجر جنرل کی سربراہی میں اسپیشل سیل قائم کیا گیا تھا۔ سیل نے مختلف محکموں، وزارتوں اور ایجنسیز کے درمیان کوآرڈی نیشن میکنزم بنایا جس کے تحت ہر پوائنٹ پر ایک مکمل ایکشن پلان بنایا گیا۔

سیل نے دن رات کام کر کے منی لانڈرنگ، ٹیرر فنانسنگ اور بھتہ خوری پر قابو پایا۔ دہشت گردوں کی مالی معاونت کے ضمن میں تمام پوائنٹس پر عمل ہو چکا ہے۔ منی لانڈرنگ کے سدباب کے لیے تمام 7 پوائنٹس پر عمل کیا گیا جو اہم پیشرفت تھی۔ پاکستان کو فیٹف کی جانب سے 2018 میں 27 نکاتی ایکشن پلان دیا گیا تھا۔ جون 2022 میں پاکستان کے تمام 27 ایکشن آئٹمز مکمل کیے گئے تھے۔ پاکستان کی جانب سے فیٹف کا آخری ایکشن پلان بھی جون 2022 میں مکمل کیا گیا۔

پاکستان کو جون 2021 میں فیٹف کی جانب سے ایک اور ایکشن پلان دیا گیا۔ پاکستان کے لیے فیٹف کے دونوں ایکشن پلانز 34 نکات پر مشتمل تھے۔ پاکستان نے 2021 کا ایکشن پلان مقرر ٹائم لائنز جنوری 2023 سے پہلے مکمل کیا۔ پاکستان نے فیٹف کے خدشات کو دور کرنے کے لیے جامع حکمت عملی اور روڈ میپ تیار کیا۔ فیٹف نے نامزد افراد کی فہرست میں پاکستان کی پیشرفت کو سراہا۔

 فیٹف کی تکنیکی ٹیم کا دورہ پاکستان

14 ستمبر کو پاکستانی دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ فیٹف کی تکنیکی ٹیم نے حال ہی میں پاکستان کا دورہ مکمل کیا ہے جس میں ان کی متعلقہ ایجنسیوں سے تفصیلی بات چیت ہوئی ہے۔ ہمارے نقطہ نظر سے یہ ایک ہموار اور کامیاب دورہ تھا۔

دفتر خارجہ کے مطابق فیٹف ٹیم کے ساتھ ملاقاتیں تعمیری، مثبت ماحول میں ہوئیں۔ پاکستان جاری جائزہ طریقہ کار کے جلد منطقی انجام کا منتظر ہے۔

گرے لسٹ سے نکلنے سے کیا فائدہ ہو گا؟

کسی ملک کے فیٹف کی گرے لسٹ میں شامل ہونے کے مطلب ہے کہ فیٹف کی جانب سے مالی نظام میں کوتاہیوں اور خامیوں کی نشاندہی کو دور کرنے کے لیے ایک ملک آمادہ ہوتا ہے۔

پاکستانی تھنک ٹینگ تبادلیب کی 2021ء کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کو حالیہ گرے لسٹنگ اور ماضی میں دو دفعہ (2008-09 اور 2012-15) رہنے سے 38 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔

تبادلیب کے مضمون کے مطابق گرے لسٹنگ سے ملکی معیشت کے حوالے سے تاثر پر منفی اثرات پڑتے ہیں جس سے مقامی سرمایہ کاری، برآمدات اور غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی ہوتی ہے۔ جب پاکستان 2009 اور 2015 میں گرے لسٹ سے نکلا تو اس کے بعد بھی اس کے اثرات پاکستانی معیشت پر موجود رہے اور پاکستان کو سنبھلنے کے لیے ایک سال تک کے وقت کی ضرورت ہے۔

عالمی طاقتوں اور اداروں کی شرائط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بھی دیکھیں تو پاکستان نے جن 34 نکات میں اصلاحات اور قانون سازی کی ہیں وہ پاکستان کے نظام میں سقم تھے اور اسی گرے لسٹ کے بہانے یہ سقم دور ہو گئے ہیں۔

فیٹف کی جانب سے پاکستان کو 34 نکات پر مشتمل دو پلان دیے گئے تھے جن کی تکمیل کے بعد پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالے جانے کا فیصلہ کیا جانا تھا۔

پاکستان کو کب گرے لسٹ میں شامل کیا گیا تھا؟

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس ایک بین الاقوامی ادارہ ہے جو کہ مختلف ممالک کی جانب سے دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے اور انسداد منی لانڈرنگ جیسے اقدامات پر نظر رکھتا ہے۔

جون 2018 میں فیٹف نے پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈالا تھا اور 2019 کے آخر تک منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت سے متعلق 27 نکاتی ایکشن پلان پر عمل در آمد کے لیے کہا تھا۔

بعد ازاں ان 27 نکاتی پلان کے بعد پاکستان کو ایک اور پلان بھی دیا گیا تھا جن میں 7 نکات پر پاکستان نے عمل در آمد کرنا ہے۔

گرے لسٹ اور بلیک لسٹ کیا ہے؟

ایف اے ٹی ایف عمومی طور پر انسداد منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت سے متعلق قوانین اور ان کے نفاذ کی نگرانی کرتا ہے۔ جن ممالک کے قوانین اور ان کے نفاذ میں مسائل ہوں تو ان کی نشاندہی کی جاتی ہے۔

اگرچہ ایف اے ٹی ایف خود کسی ملک پر پابندیاں عائد نہیں کرتا مگر ایف اے ٹی ایف کے رکن ممالک خلاف ورزی کرنے والے ممالک پر اقتصادی پابندیاں بھی عائد کر سکتے ہیں۔ ایف اے ٹی ایف ممالک کی نگرانی کے لیے لسٹس کا استعمال کیا جاتا ہے جنہیں گرے لسٹ اور بلیک لسٹ کہا جاتا ہے۔

بلیک لسٹ میں ان ہائی رسک ممالک کو شامل کیا جاتا ہے جن کے انسداد منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت سے متعلق قوانین اور قواعد میں سقم موجود ہو۔ ان ممالک کے حوالے سے قوی امکان ہوتا ہے کہ ایف اے ٹی ایف کے رکن ممالک ان پر پابندیاں بھی عائد کر سکتے ہیں۔

گرے لسٹ میں ان ممالک کو ڈالا جاتا ہے جن کے قوانین اور ان کے نفاذ میں مسائل ہوں اور وہ ایف اے ٹی ایف کے ساتھ مل کر ان قانونی خامیوں کو دور کرنے کے لیے اعادہ کریں۔

ایف اے ٹی ایف ہے کیا؟

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس ایک عالمی ادارہ ہے، جس کا قیام 1989ء میں جی ایٹ سمٹ کے دوران ترقی یافتہ ممالک کے ایما پر پیرس میں عمل میں آیا تھا۔ اس کا بنیادی مقصد عالمی سطح پر منی لانڈرنگ کی روک تھام تھا۔ تاہم 2011ء میں اس کا دائرہ کار وسیع کر دیا گیا۔ اس کے اختیارات میں بین الاقوامی مالیاتی نظام کو دہشت گردی، کالے دھن کو سفید کرنے اور اس قسم کے دوسرے خطرات سے محفوظ رکھنے اور اس حوالے سے مناسب قانونی، انضباطی اور عملی اقدامات کرنا بھی شامل ہے۔

اس ادارے کے کُل 38 ارکان میں امریکا، برطانیہ، چین اور بھارت بھی شامل ہیں جبکہ پاکستان اس کا رکن نہیں۔ ادارے کا اجلاس ہر چار ماہ بعد، یعنی سال میں تین بار ہوتا ہے، جس میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس کی جاری کردہ سفارشات پر کس حد تک عمل کیا گیا ہے۔

امریکا میں 11 ستمبر2001ء کے حملوں کے بعد یہ ضرورت محسوس کی گئی کہ دہشت گردی کی فنڈنگ کی روک تھام کے لیے بھی مشترکہ اقدامات کی ضرورت ہے، جس کے بعد اکتوبر2001ء میں ایف اے ٹی ایف کے مقاصد میں منی لانڈرنگ کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کی مالی معاونت کو بھی شامل کر لیا گیا۔ اپریل 2012ء میں بڑے پیمانے پر ہتھیاروں کی فنانسنگ پر نظر رکھنے اور اس کی روک تھام کے اقدامات پر عمل درآمد کرانے کی ذمہ داری بھی اسی ٹاسک فورس کے سپرد کر دی گئی۔