کوئی ادارہ قانون سے اوپر نہیں، مارچ کسی حکومت کو گرانے یا لانے کیلئے نہیں: عمران

Published On 27 October,2022 07:07 pm

لاہور: (دنیا نیوز) پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ لانگ مارچ کسی کی حکومت کو گرانے یا لانے کے لئے نہیں۔ ترجمان پاک فوج اور ڈی جی آئی ایس آئی کہتے ہیں سیاست سے کوئی تعلق نہیں لیکن پریس کانفرنس بھی کر دی۔ایوان صدر میں جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات ہوئی تھی۔

اپنے ایک ویڈیو بیان میں سابق وزیراعظم نے کہا کہ جمعہ کو گیارہ بجے لبرٹی چوک سے حقیقی آزادی مارچ شروع ہو رہا ہے، یہ لانگ مارچ کسی ذاتی مفاد کے لئے نہیں، یہ لانگ مارچ کسی کی حکومت کو گرانے یا لانے کے لئے نہیں، یہ لانگ مارچ انگریز سے حاصل کی گئی آزادی کے بعد حقیقی آزادی کے لئے ہے۔ ہم ایسی حقیقی آزادی چاہتے ہیں جس میں پاکستان کے فیصلے پاکستانی کریں۔

پی ٹی آئی چیئر مین کا کہنا تھا کہ ہم ایسی حقیقی آزادی چاہتے ہیں جس میں باہر سے مسلط کئے گئے کٹھ پتلیاں فیصلے نہ کریں، ہم چھوٹے سے طبقے کے چوری کرکے این آراو لے لینے کو روکنا چاہتے ہیں، حقیقی آزادی مارچ کی تحریک عوام کے فیصلے عوام کو کرنے دینے تک جاری رہے گی، ہم اس وقت تک حقیقی آزادی کی جدوجہد جاری رکھیں گے جب تک بیرونی سازش سے اقتدار میں آنے والے راستے بند نہ ہوجائیں۔

ہماری حکومت بیرونی سازش، میر جعفر، میر صادق نے ملکر گرائی: عمران خان

صوبائی دارالحکومت لاہور میں پی ٹی آئی سوشل میڈیا ٹیم سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیراعظم نے کہا کہ زندہ معاشرہ اور مرے ہوئے معاشرے میں کیا فرق ہوتا ہے، انسان تو جیل میں بھی زندہ رہ سکتا ہے، سوشل میڈیا انسانی تاریخ میں انقلاب آرہا ہے، امریکا میں کوئی اسرائیل کے خلاف بات نہیں کرسکتا وہ میڈیا پر بات نہیں آتی، لاکھوں کشمیری شہید ہوچکے ہیں لیکن مغربی میڈیا میں ذکر نہیں۔

اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا نے اس ٹرینڈ کو بدل دیا ہے، جب ہماری حکومت بیرونی سازش، اندرونی میر جعفر، میر صادق نے مل کر گرائی تو سوشل میڈیا نے دکھایا، ہر شہری جس کے پاس موبائل فون ہے اس کی آواز ہے، یہ جمہوریت کی خالص ترین شکل میں ہم جارہے ہیں۔

پی ٹی آئی چیئر مین کا کہنا تھا کہ لندن والے پیسے دے کر ٹرینڈ چلواتے ہیں لیکن وہ ٹرینڈ نہیں چل سکتا، حکمرانوں نے 1100 سو ارب روپے معاف کروا لیے، انسانوں کے معاشرے میں حکم ہے ناانصافی کا مقابلہ کرو، ارشد شریف حق کے لیے ڈٹا دہا، وہ اس لیے گیا کہ یہاں بول نہیں سکتا تھا، کل سے جدوجہد حقیقی آزادی کا جہاد ہے سمجھیں کہ جہاد کررہے ہیں۔

ایوان صدر میں آرمی چیف سے ملاقات ہوئی: عمران خان

عمران خان نے ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کا جواب ٹوئٹر سپیس میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ  ان کی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات ایوان صدر میں ہوئی تھی جس میں صدر عارف علوی بھی بیچ میں تھے۔ میں نے یہ بات بتائی تھی ایکسٹینشن کا سن رہے ہیں، اگر یہ آپ کو توسیع دے رہے ہیں تو پھر ہم دے دیتے ہیں۔ ملک کے لیے یہ بات چیت کی تھی، میں نے بند کمروں کی ملاقاتوں سے کیا لینا ہے۔ 5 ماہ پہلے کہا تھا کہ پاکستان ڈیفالٹ کر جائے گا۔ یہ سازش روک سکتے تھے لیکن نہیں روکی۔ میں کہیں ڈگی میں نہیں گیا تھا، ایوان صدر میں ملاقات ہوئی تھی۔

عمران خان نے کہا اسٹیبلشمنٹ کو امپائر کے طور پر بیچ میں ڈالا تھا۔ اللہ نے انسان کو نیوٹرل ہونے کی اجازت ہی نہیں دی ہے۔ یہ قرآن میں لکھا ہوا ہے۔ ہمارے لوگوں کو ’اپروچ‘ کیا جا رہا ہے اور ہمارے ایک بندے کو ’چینج‘ کیا ہے۔

چیئرمین تحریک انصاف نے کہا کہ میری پوری کوشش ہوتی ہے کہ فوج پر تعمیری تنقید ہو۔ اگر اس تنقید کی اجازت نہ ہو اور ایسی تنقید کو بند کر دیا جائے تو پھر معاشرہ تباہ ہو جاتا ہے۔ ان کے مطابق وہ فوج پر ایسی تنقید نہیں کرتے جو دشمن کرتا ہے۔ وہ خود اچھے کرکٹر اس وجہ سے بنے ہیں کہ وہ خود پوچھتے تھے کہ بتائیں میں کہاں پر غلط ہوں۔

نجی ٹی وی کو انٹرویو

 نجی ٹی وی سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ آئین کے مطابق پاکستانی فوج حکومت کا ادارہ ہے، اداروں کے سربراہ آ کر پریس کانفرنس کررہے ہیں، اور ساتھ کہہ رہے ہیں کہ ہم سیاست میں نہیں ہیں، ایم آئی 6 کا سربراہ آ کر کب پریس کانفرنس کرتا ہے؟ میں نے کبھی یہ دیکھا ہی نہیں ہے۔ یا تو ان کے متعلق کوئی چیز کوئی، مثلا کوئی سیکیورٹی کا مسئلہ ہو اس پر آ کر بات کریں، سیاسی پریس کانفرنس کررہے ہیں، مجھے سمجھ نہیں آیا، وزیر دفاع نہیں کر سکتا تھا؟ یا وزیر داخلہ یا پھر وزیراعظم کرتے، میرا پہلا اعتراض ہے کہ ان کا پریس کانفرنس کرنے کا کیا کام تھا؟ فیصل واڈا نے ڈرا دیا ہے کہ خونی مارچ ہوگا اور لاشیں گریں گی، اس پر بات کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ میں 26 سال سے سیاست کررہا ہوں، اور شاید ہی کسی نے اتنے احتجاج کیے ہوں جو ہم نے کیے ہیں، ہم نے 126 دن کا دھرنا دیا، ہماری تاریخ ہے کہ ہم پُرامن آئین اور قانون کے اندر رہ کر احتجاج کرتے ہیں، 25 مئی کو ہمیں اکسایا گیا، اگر میں آگے نکل جاتا اور دھرنا کرتا تو انتشار ہونا تھا میں نے صرف اس لیے احتجاج ختم کر دیا تھا، ہمارا احتجاج پُرامن ہوگا۔

 انہوں نے کہا کہ ہمارا احتجاج پرُامن اور آئین و قانون کے اندر ہوگا، اسلام آباد میں ہم کوئی ایسی چیز نہیں کریں گے جس کی قانون اور عدالت نے اجازت نہیں دی ہوگی، ہم ریڈ زون میں نہیں جائیں گے۔ میں نے زندگی میں بڑے لوگوں کو بدلتے دیکھا ہے، جن کو میں اپنے قریب سمجھتا تھا، جب امتحان آیا تو میں نے ان کی دوسری سائیڈ بھی دیکھی ہے، اس (فیصل واڈا) نے کل جو کیا مجھے اس پر بہت افسوس ہوا، میں اس کی توقع نہیں کررہا تھا، اور یہ ڈرٹی ہیری کی فرمائش پر کیا ہے، ڈرٹی ہیری صاحب جب سے اسلام آباد آئے ہیں، اس کے بعد جو ظلم اور تشدد ہونا شروع ہوا اور یہ فیصل واڈا کا بڑا قریب ہے، مجھے کوئی شک نہیں کہ اس کی فرمائش پراس نے یہ ڈرامہ کیا ہےکہ خون ہوگا اور پتا نہیں کیا ہوگا، جن جلسوں میں فیملیز آتی ہیں، وہ کیا خون کرنے جاتی ہیں۔

ڈی جی آئی ایس آئی نے ڈی جی آئی ایس پی آر کے ہمراہ طویل پریس کانفرنس پر عمران خان نے کہا کہ آئین کے مطابق پاکستانی فوج حکومت کا ادارہ ہے، اداروں کے سربراہ آ کر پریس کانفرنس کررہے ہیں، اور ساتھ کہہ رہے ہیں کہ ہم سیاست میں نہیں ہیں، ایم آئی 6 کا سربراہ آ کر کب پریس کانفرنس کرتا ہے؟ میں نے کبھی یہ دیکھا ہی نہیں ہے، یا تو ان کے متعلق کوئی چیز کوئی، مثلا کوئی سیکیورٹی کا مسئلہ ہو اس پر آ کر بات کریں، اگر سیاسی پریس کانفرنس کررہے ہیں، مجھے سمجھ نہیں آیا، وزیر دفاع نہیں کر سکتا تھا؟ یا وزیر داخلہ یا پھر وزیراعظم کرتے، میرا پہلا اعتراض ہے کہ ان کا پریس کانفرنس کرنے کا کیا کام تھا؟ پریس کانفرنس میں انہوں نے کئی چیزیں کہیں، اور پی ٹی آئی کے لوگوں نے بڑا اچھا جواب دیا، میرا پوائنٹ صرف یہ ہے کہ اس میں ایسی چیزیں کہی گئیں کہ اگر میں جواب دینا شروع کر دوں تو میرے ملک کو نقصان پہنچنے گا، جب سے میں حکومت سے ہٹا ہوں، اتنی کوشش کی کہ کوئی ایسی بات نہ ہو جس سے فوج کو نقصان پہنچنے، اور میں انٹرنیشنل حوالے سے بات کررہا ہوں کیونکہ مجھے پتا ہے کہ دشمن چاہتے ہیں کہ پاکستانی فوج کمزور ہو، اور ہمیشہ کوشش کرتا ہوں کہ کوئی ایسی چیز نہ کہوں کہ دنیا میں فوج کا امیج خراب ہو کیونکہ فوج بھی میری ہے اور ملک بھی میرا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نے کوشش کی ہے کہ اگر تنقید کروں تو تعمیری تنقید ہو، ان کا فائدہ ہو، جس طرح آپ بچوں پر تنقید کرتے ہیں کہ بچے بہتر ہوں ان کا فائدہ ہو، اب میں ڈرٹی ہیری پر تنقید کررہا ہوں، یہ ڈرٹی ہیری جب سے آیا ہے اس نے جو اعظم سواتی سے کیا ہے، پہلے شہباز گِل کو ننگا کرکے اس پر تشدد کیا، کون سی قیامت آ گئی۔

سابق وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ میں کہہ رہا ہوں اگر میں اپنا منہ کھولنا شروع کروں تو نقصان تو میرے ملک کو ہی ہوگا، اس لیے بہت محتاط ہو کر بولتا ہوں، کئی دفعہ اشاروں سے بات کرتا ہوں، کبھی ایکس اور وائی کہہ دیتا ہوں اور اب ڈرٹی ہیری کہہ دیتا ہوں، میں چاہتا ہوں کہ یہ انفرادی لوگ غلطیاں کررہے ہیں، فوج کا ادارہ بچا رہے، پوری بات بتا دیں کہ بند کمروں میں اور بھی کیا باتیں ہوتی تھیں۔ امریکی سفارت خانے میں لوگ جا کر مل رہے تھے، پھر خبریں آ رہی تھیں کہ نواز شریف سے جا کر لوگ مل رہے ہیں، مجھے پوری سازش کا تو پتا چل گیا تھا، میں نے جنرل باجوہ کو بتایا کہ اس وقت اگر یہ سازش کامیاب ہو گئی تو اس کا پاکستان کی معیشت پر ڈائریکٹ نقصان ہوگا، اور کوئی سنبھال نہیں سکے گا کیونکہ معیشت کا انحصار سیاسی استحکام پر ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ یہ سن رہا ہوں کہ توسیع کی بات ہو رہی ہے یا آرمی چیف کی بات ہو رہی ہے، میں نے کہا تھا کہ اگر یہ آپ کو آفر کررہے ہیں تو ہم بھی آفر کر دیتے ہیں لیکن اس وقت حکومت کو نہیں ہٹانا ورنہ پاکستان نہیں سنبھلے گا، اور بالکل وہی ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نے کیا ڈیل کرنا تھی؟ مجھے کوئی کیا دے سکتا ہے؟ انہوں نے نہیں روکا، میں نہیں کہتا کہ یہ اس سازش کا حصہ تھے، اگر انکوائری ہو گی تو پتا چلے گا لیکن روک تو سکتے تھے، نہیں روکا تو ملک کے حالات دیکھیں، میں ڈگی میں ملنے نہیں گیا تھا، ہماری ملاقات ایوان صدر میں ہوئی تھی، ڈاکٹر عارف علوی بیچ میں تھے، اجلاس میں صرف ایک بات کہی تھی کہ اس ملک کو دلدل سے نکالنا ہے تو سوائے صاف اور شفاف انتخابات کے اور کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔

رانا ثنا اللہ نے پریس کانفرنس میں آپ کو بھی ارشد شریف کے قتل میں شریک جرم کردیا ہے، اس پر جواب دیتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ بدقسمتی دیکھیں کہ رانا ثنا اللہ اس ملک کا وزیر داخلہ ہے، عابد شیر علی کے والد کہتے ہیں کہ اس نے 18 قتل کیے ہوئے ہیں، سارا فیصل آباد جانتا ہے کہ یہ ہر جرم میں شریک ہے۔ شہباز شریف اور ان کے بیٹے کو سزا ہونے لگی تھی، 16 ارب روپے کے ایف آئی اے کے کیس تھا، اور نیب میں 8 ارب روپے کا ٹی ٹی کا کیس تھا، ان کو سزا ہونے لگی تھی وہ وزیر اعظم بن گئے، وزیر اعظم بننے کے بعد 4 گواہ مر چکے ہیں، اور ایف آئی اے کا ایک تفتیش کار مر چکا ہے، کسی نے تحقیقات نہیں کیں کہ ان سب کو دل کا دورہ کیسے پڑ گیا، اور یہ بری ہوگئے۔ اسحٰق ڈار تحریری حلف نامہ دے کر جاتا ہے کہ میں شریف خاندان کے لیے منی لانڈرنگ کرتا تھا، اس پر بی بی سی کی ڈاکومینٹری بنی، وہ آج وزیر خزانہ بنا ہوا ہے۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ شیریں مزاری کے پاس ارشد شریف کا میسیج ہے، اس میں کہہ رہا ہے کہ میری جان خطرے میں ہے، ان کی والدہ سے جا کر پوچھ لیں کہ اس کو کدھر سے خطرہ تھا، کیا اس کو عمران خان سے خطرہ تھا؟ میں نے اس کو مشورہ دیا کہ تم ملک سے باہر چلے جاؤ، وہ دلیر اتنا تھا کہ نہیں جانا چاہتا تھا۔

ارشد شریف سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ سب کو پتا ہے کہ ارشد شریف کا منہ کیوں بند کرانے کی کوشش کی گئی؟ اس کے پروگرام اٹھا کر دیکھ لیں، ارشد شریف سے کس کو خطرہ تھا، ان کی ٹوئٹس دیکھ لیں، یہ چھپی ہوئی بات تو نہیں ہے، ان کے جنازے پر بہت عوام تھی، شاید ضیا الحق کے زمانے میں مجھے کہتے ہیں کہ اتنا بڑا جنازہ تھا، لوگ ارشد شریف کی سچائی کو جانتے تھے، میں نے لوگوں میں اتنا زیادہ صدمہ نہیں دیکھا، گھروں میں خواتین افسردہ ہیں، ڈرٹی ہیری نے خوف پھیلا ہوا ہے، سارے ڈرتے ہیں کہ میں کچھ بولوں گا تو کچھ ہو جائے گا۔

سائفر سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ سائفر کو پہلے میں نے کابینہ میں رکھا، کابینہ میں اس کے منٹس تھے، پہلے تو یہ جھوٹ بولتے رہے کہ سائفر نہیں ہے، لوگوں سے جھوٹ نہ بولیں، کامرہ کے اندر پتا نہیں کیا ہوا تھا؟ میں نے سائفر کو نیشنل سیکیورٹی کونسل میں رکھا، اس میں فیصلہ ہوا کہ ہم امریکا کی مذمت کریں گے اور ڈی مارش کریں گے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی وجہ سے ہماری ایجنسیز کا رول بڑھ گیا تھا، وہ لوگوں کو اٹھا لیتے تھے، میرے دور میں دو کیس تھے، اسد طور کا مجھے پتا چلا کہ کیس کی کچھ اور تھا، وہ ایجنسز کا کیس نہیں تھا، مطیع اللہ کا کیس ایجنسیز کا تھا اور مجھے نہیں پتا، کوئی ادارہ قانون سے اوپر نہیں ہونا چاہیے، ہمارے مافیاز قانون سے اوپر ہیں، سیاست دان این آر او مانگتے ہیں، اگر پاکستان میں سیاسی جماعت نہ ہو تو پاکستان افراتفری کی طرف جائے، اور کوئی فوج ملک کو کنٹرول نہیں کرسکے گی اگر ملک میں افراتفری ہو گی کیونکہ 22 کروڑ افراد کا پاکستان ہے۔

لانگ مارچ کا اچانک اعلان کرنے سے متعلق سوال پر سابق وزیر اعظم نے کہا کہ ہر چیز ٹیپ ہوتی ہے، ہمارے اجلاس کی ساری خبریں نکل جاتی ہیں، اس لیے میں نے کسی کو نہیں بتایا تھا کیونکہ ہماری ہر خبر پہنچ جاتی ہے، پتا نہیں ہمارے کتنے اور لوگوں کو یہ اپروچ کررہے ہیں، ڈرٹی ہیری نے جو کل گیم کھیلی ہے، ہم اب بات کرتے ہوئے گھبراتے ہیں کیونکہ ہر چیز اُدھر پہنچ جاتی ہے اس لیے میں نے تاریخ خفیہ رکھی تھی۔ شہباز شریف اور رانا ثنا اللہ کو سیاست دان نہیں جرائم پیشہ لوگ سمجھتا ہوں، مجھے پتا ہے کہ انہوں نے الیکشن نہیں کروانے، اسٹیلبشمنٹ کو بطور امپائر بیج میں ڈالا کیونکہ میں ان کو قبول نہیں کروں گا، انہوں نے 20 سے 25 کروڑ روپے لگا دیے ہمارے لوگوں کو خریدنے کے لیے، ہمارے لوگوں نے کہا کہ ہم بھی ریٹ لگا دیں، ہم ان کے لوگ خرید لیں، سوچا بھی کہ پیسے اکٹھے کریں، باہر سے دو تین لوگوں سے بات بھی ہوئی، ہم نے فیصلہ کیا کہ اگر ہم نے یہ نیلام گھر شروع کر دیا تو ہمارا نظریہ تباہ ہوتا تو ہم نے نہیں کیا۔

استعفوں سے متعلق سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ اسمبلی میں بیٹھنے کا مطلب ہوتا کہ آپ اس ساری سازش کو قبول کرچکے ہیں۔ پاکستان بدل چکا ہے، یہ لانگ مارچ پاکستان کے تمام لانگ مارچ سے مختلف ہوگا، ہمارا پلان ہے کہ جمعرات کی رات کو ہم راولپنڈی پہنچیں گے، اس کے بعد دیکھیں گے کہ اسلام آباد میں چاروں طرف سے عوام کا سمندر آئے گا، قانون نہیں توڑیں گے، قوم اپنا حق مانگے گی۔

سوات میں کالعدم تحریک طالبان سے متعلق عمران خان نے کہا کہ سوات کے لوگوں کا ردعمل بالکل ٹھیک آیا ہے، وہ دیکھ رہے ہیں کہ کالعدم تنظیم طالبان کے لوگ پھر سے واپس آ گئے ہیں، سرحدوں کی ذمہ داری وفاقی حکومت کی ہے، لوگ کدھر سے آ گئے، کون ذمہ دار ہے، اصل میں لوگ وفاقی حکومت کے خلاف نکلے ہیں، میری وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سے بات کی ہے ہم کسی صورت اس طرح کی عسکریت پسندی نہیں ہونے دیں گے۔

لاہور بار خطاب

اس سے قبل لاہور بار کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ یہ اب حتمی اور فیصلہ کن جنگ ہے، کل میں حقیقی آزادی مارچ کا آغاز کرنے جا رہا ہوں اور لاہور سے میرے مارچ کا آغاز ہوگا، میں اس قوم کے لیے یہ جنگ لڑ رہا ہوں، لاہور بار بھی اس مارچ میں بھرپور شرکت کرے۔ پنجاب حکومت کو کہوں گا کہ وکلاء پروٹیکشن بل منظور کرے، وکلاء کے ہسپتال کے لیے رقم جاری کی جائے۔

سینئر لیڈر شپ سے ملاقات

دریں اثنا عمران خان کی 90 شاہراہ قائد اعظم میں پارٹی کی سینئر لیڈر شپ کے ساتھ ملاقات ہوئی جس میں اسد عمر، شاہ محمود قریشی، شیخ رشید، عمر ایوب، میاں اسلم اقبال، عمر سرفراز چیمہ بھی شریک تھے۔ ملاقات میں لانگ مارچ اور دیگر امور پر پارٹی لیڈر شپ کی مشاورت ہوئی جس میں آئندہ حکمت عملی کے حوالے سے بھی بات چیت ہوئی۔

Advertisement