اسلام آباد: (دنیا نیوز) وزیراعظم محمد شہباز شریف نے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کو سابق وزیراعظم عمران خان پر فائرنگ کے واقعہ کے حقائق جاننے کے لئے جوڈیشل کمیشن بنانے کیلئے دوسرا خط لکھ دیا جس میں کہا گیا کہ شک ہے کہ پنجاب حکومت اور اس کے ذمہ دار شہادتوں سے گڑبڑ کر سکتے ہیں۔
وزیراعظم محمد شہباز شریف کی جانب سے چیف جسٹس کو لکھے گئے خط میں استدعا کی گئی ہے کہ سپریم کورٹ کے تمام دستیاب جج صاحبان پر مشتمل کمیشن بنایا جائے، کمیشن پانچ سوالات پر خاص طور پر غور کرسکتا ہے، کاررواں کی حفاظت کی ذمہ داری قانون نافذ کرنے والے کون سے اداروں کی تھی؟، کاررواں کی حفاظت کے لئے مروجہ حفاظتی اقدامات اور سٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز (ایس او پیز) لاگو کئے گئے؟ اور کیا ان پر عمل کیا گیا؟، حادثے کے اپنے حقائق کیا ہیں؟، ایک سے زیادہ شوٹرز کی موجودگی کی اطلاع، جوابی فائرنگ، مجموعی طور پر نشانہ بننے والوں کی تعداد، ان کے زخموں کی نوعیت سے متعلق حقائق کیا ہیں؟
خط میں لکھا کہ اس کی بھی تحقیقات کی ضرورت ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انتظامی حکام نے مروجہ تفتیشی طریقہ کار کو اختیار کیا، وقوعہ کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انتظامی حکام نے شہادتیں جمع کرنے اور صورتحال سے نمٹنے کے مروجہ طریقہ کار کو اختیار کیا؟، اگر ایسا نہیں ہوا تو ضابطے کی کیا خامیاں اور کمزوریاں سامنے آئیں؟
شہباز شریف نے چیف جسٹس پاکستان کو خط میں لکھا کہ ضابطے کی ان کوتاہیوں کا ذمہ دار کن انتظامی حکام، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور صوبائی حکومت کے عہدیداروں کو ٹھہرایا گیا؟ کیا وقوعہ کی تحقیقات کے عمل میں دانستہ رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں، اگر رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں تو یہ عناصر کون ہیں؟ اور ایسا کیوں کر رہے ہیں؟، کیا یہ قاتلانہ سازش تھی جس کا مقصد واقعی پی ٹی آئی چیئرمین کو قتل کرنا تھا یا یہ محض ایک فرد کا اقدام تھا؟، ان دونوں صورتوں میں سے کسی ایک کے بھی ذمہ دار عناصر کون ہیں ؟
وزیراعظم نے خط میں لکھا کہ قانون کی حکمرانی کے مفاد میں اس درخواست پر عمل پر وفاقی حکومت سپریم کورٹ کی مشکور ہوگی، اس مقصد کے حصول میں وفاقی حکومت کمیشن کو مکمل معاونت فراہم کرے گی، وزیر آباد میں عمران خان کے جلوس میں فائرنگ کے افسوسناک واقعہ سے ملک ہیجانی کیفیت اور امن وامان کے بحران کا شکار ہے، پی ٹی آئی لیڈرز زہر آلود تقاریر کر رہے ہیں، پرتشدد ہنگامہ آرائی سے ریاست افراتفری اور شہریوں کی جان ومال کو خطرات ہیں، پاکستان اور عالمی میڈیا میں اس کی کوریج ہو رہی ہے۔
انہوں نے خط میں لکھا کہ 72 گھنٹے گزرنے پر ایف آئی آر نہ ہوئی، پی ٹی آئی کے ماتحت پنجاب حکومت نے بدقسمتی سے تحقیقات میں ان قانونی تقاضوں کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا جن پر ایسے واقعات میں عمل کیا جاتا ہے، افسوسناک امر ہے کہ کرائم سین (جائے وقوعہ)کو محفوظ نہیں کیا گیا، جس کنٹینر پر یہ واقعہ ہوا، لوگ زخمی ہوئے، اسے بھی فرانزک کے لئے تحویل میں نہیں لیا گیا، پی ٹی آئی چیئرمین کی میڈیکو لیگل رپورٹ بھی نہیں ہوئی، عمران خان کو ایک پرائیویٹ ہسپتال لے جایا گیا جو قانون کے مطابق میڈیکو لیگل کا پروسیجر نہیں، وقوعہ کے بعد جو طریقہ کار اپنایا گیا اس سے شک ہے کہ پنجاب حکومت اور اس کے ذمہ دار شہادتوں سے گڑبڑ کر سکتے ہیں، تحقیقات اور شہادتیں جمع کرنے کا مروجہ طریقہ کار نہ اپنانا بدنیتی کا مظاہرہ ہے۔
وزیراعظم نے خط میں لکھا کہ وفاقی حکومت اس بارے میں پہلے ہی خط لکھ کر صوبائی انتظامیہ کو اپنے سنگین تحفظات سے آگاہ کر چکی ہے، پنجاب اور خیبرپختونخوا کی حکومتوں کی سرپرستی میں شرپسند نجی و سرکاری عمارتوں، گورنر ہاؤس پنجاب اور دیگر مقامات پر پرتشدد حملے کررہے ہیں، ریاستی اداروں خاص طور پر مسلح افواج کے خلاف کردار کشی اور بے بنیاد الزامات کی غلیظ مہم چلائی جا رہی ہے۔
خط میں لکھا کہ مسلح افواج پر وفاقی حکومت کے ساتھ مل کر سازش کرنے کے الزامات لگائے جا رہے ہیں، درست حقائق کے تعین اور عوامی اعتماد کی خاطر وفاقی حکومت کی رائے میں سپریم کورٹ کا کمیشن بننا ضروری ہے، سپریم کورٹ کا کمیشن ذمہ داروں کا تعین کرے، اصل حقائق سامنے لائے، سپریم کورٹ نے ہمیشہ آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
وزیراعظم نے لکھا کہ موجودہ حالات امن عامہ اور پاکستان کی ریاستی سلامتی کے لئے سنگین خطرہ ہیں، ان حالات میں وفاقی حکومت کی درخواست ہے کہ سپریم کورٹ کے تمام دستیاب جج صاحبان پر مشتمل جوڈیشل کمیشن بنایا جائے۔