ہمارے لانگ مارچ سے جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں: عمران خان

Published On 10 November,2022 11:40 pm

لاہور: (ویب ڈیسک) پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ 60 فیصد حکومتی اراکین ضمانت پر ہیں، یہی وجہ ہے میرے پاس قبل از وقت انتخابات کے مطالبے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ لانگ مارچ سے جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں ہے

ڈی ڈبلیو کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ مجھے گولی لگی ہے اور صحتیابی میں 4 ہفتے لگ سکتے ہیں۔ پی ٹی آئی کی بے مثال مقبولیت کی وجہ سے موجودہ حکومت نے انہیں سب سے زیادہ دھمکیاں دیں۔ میری حکومت جانے کے بعد ضمنی انتخابات میں بھاری اکثریت سے جیتے۔

اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے سابق پی ٹی آئی چیئر مین کا کہنا تھا کہ میرے خلاف دہشت گردی کے مقدمات بنائے گئے اور ان صحافیوں کو نشانہ بنایا گیا جنہوں نے سچ بولنے کی کوشش کی یا حکومت میں موجود موجودہ جماعتوں کے خلاف تھے۔

سابق وزیراعظم نے مزید کہا کہ مجھے مذہب کا سہارا لیکر قتل کرنے کی کوشش کی گئی، ستمبر میں اس بارے میں پہلے ہی خبردار کر چکا ہوں۔ 

میزبان خاتون صحافی نے سوال کیا کہ آپ حفاظتی اقدامات کیوں نہیں کر رہے اس پر جواب دیتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ حکومت سے نکالے جانے کے بعد میرے پاس دو ہی راستے تھے یا تو وہ گھر بیٹھیں یا پھر اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر عوام کے سامنے چلے جائیں۔ میں نے دوسرا آپشن منتخب کیا، وہ گزشتہ چھ ماہ سے عوام میں ہیں۔ مجھے یقین ہے آئندہ الیکشن میری جماعت جیتے گی، حکمران خوف کے باعث الیکشن میں تاخیر کر رہے ہیں، ملک دیوالیہ ہونے کے دہانے پر ہے، معیشت عدم استحکام کا شکار ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاری صرف سیاسی استحکام کے باعث آتی ہے، اس کے بعد معیشت مضبوط ہوتی ہے، کوئی بھی ایسے ملک میں بیرون ملک سے سرمایہ کاری نہیں کرے گا جو پہلے ہی معاشی مسائل کا شکار ہے۔

اگلے انتخابات تک انتظار کرنے سے متعلق ایک سوال کا جواب میں انہوں نے کہا کہ اسلام آباد مارچ سے جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ میری حکومت کے دوران پارٹی کے اراکین قومی اسمبلی کو لاکھوں ڈالر دے کر غیر آئینی طور پر خریدا گیا۔ اور حکومت گرائی گئی۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ 60 فیصد امپورٹد حکومتی ارکان ضمانت پر ہیں اور یہی وجہ ہے کہ میرے پاس قبل از وقت انتخابات کے مطالبے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔

اینکر نے سوال کیا کہ وہ اپنے دور میں احتساب کے حوالے سے ڈیلیور کیوں نہیں کر سکے۔ اس پر جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مجھے اس پر افسوس ہے، میں اپنی حکومت میں قانون کی حکمرانی کا نفاذ نہ کر سکا، میرے دور حکومت میں طاقتور اور کرپٹ کو قانون کے کٹہرے میں لانے کا اختیار نہیں تھا۔

لانگ مارچ کا دوبارہ آغاز

تحریک انصاف نے ایک ہفتےکے وقفے کے بعد جمعرات کو احتجاجی لانگ مارچ کا دوبارہ آغاز کر دیا ہے۔ مختلف شہروں سے لوگ وزیر آباد پہنچنا شروع ہو گئے ہیں۔ لانگ مارچ نے اسی مقام سے اسلام آباد کے لیے اپنے سفر کا دوبارہ آغاز کیا، جہاں 3 نومبر کو عمران خان کے کنٹینر پر فائرنگ کے بعد اس مارچ کو معطل کر دیا گیا تھا۔

وزیر آباد میں پاکستان تحریک انصاف کے لانگ مارچ سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیراعظم نے کہا کہ چوروں کو دین سے تعلق نہیں ان کو اپنی چوری بچانے کی فکرتی ہوتی ہے۔ زندگی موت جس کے ہاتھ میں ہے اس نے مجھے بچا لیا، شہباز گل کے بعد اعظم سواتی پر تشدد کیا گیا اس پر ایکشن نہیں لیا گیا، ملک میں جو کچھ کیا جا رہا ہے اس پر دنیا میں بدنامی ہوئی ہے، اعظم سواتی نے بتایا ویڈیو بنا کر بیوی کو بھیجی گئی، دیکھنا ہو گا ہمارے ملک کا نظام کب تحفظ دے گا۔

اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس صاحب! آپ کو چار چیزیں دیکھنا پڑیں گی، ایف آئی آر، اعظم سواتی، ارشد شریف کیساتھ جو ہوا اس پر انصاف ضروری ہے، ارشد شریف کی تصویر دکھائی وہ کس طرح ان کے پاس آئی، ارشد شریف کی والدہ پوسٹمارٹم رپورٹ مانگ رہی ہیں مگر ان کو نہیں ملی، اب تو واضح ہو گیا ہے ارشد شریف کو پلان کر کے تشدد کر کے مارا گیا، غریب اور امیر ملکوں میں فرق یہ ہے ان کے ادارے مضبوط ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مجھے سیاست چمکانے کی ضرورت نہیں ہے، یہ ملک کا مسئلہ ہے، قوم چیف جسٹس کی طرف دیکھ رہی ہے، قوم عدلیہ کی طرف دیکھ رہی ہے، وکلاء سے امید کرتا ہوں وہ کردار ادا کریں گے، قوم جب تک آزادی چھینتی نہیں کوئی پلیٹ میں رکھ کر نہیں دیتا، جب تک زندہ ہوں میں کبھی پیچھے نہیں ہٹوں گا، میں راولپنڈی پہنچ کر قافلوں کا استقبال کروں گا، میں پورے پاکستان کو حقیقی آزادی کی دعوت دیتا ہوں، اللہ کا حکم ہے ظلم کے خلاف اور اچھائی کے ساتھ کھڑے ہوں، اکیلا کوئی کچھ نہیں کر سکتا، قومیں ہی چوروں اور کرپشن کے خلاف لڑتی ہیں۔

سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پلان کر کے مجھے قتل کرنے کی کوشش کی گئی، مجھے قتل کرنے کا پلان ستمبر میں بنا تھا، 24 ستمبر کو رحیم یار خان جلسے میں پلان کا بتایا تھا، انہوں نے سانحہ ماڈل ٹاؤن میں لوگوں کو قتل کیا، عابد شیر علی کے باپ نے بھی کہا رانا ثناء اللہ نے قتل کیے، مجھے قتل کرنے کے لیے توہین مذہب کا رنگ دینے کی کوشش کی گئی، مذہبی جنونیت سے متعلق ملزم کا فوری بیان آنا کوراپ تھا، ملزم کہتا ہے میں اکیلا تھا، پتہ چل رہا ہے کہ طوطے کو پڑھایا گیا ہے، فرانزک میں واضح ہو گیا دو جگہوں سے فائرنگ ہوئی یعنی دو شوٹر تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ ابتسام ایک ہیرو ہے، اسے سلام پیش کرتا ہوں، میں نے اببتسام اور ان کی والدہ کا بھی شکریہ ادا کیا، دوسرا بڑا سانحہ معظم کی شہادت ہے، ہم معظم کے بچوں کی ساری زندگی ذمہ داری لیں گے، ہمارا مارچ رُکے گا نہیں بلکہ زور پکڑے گا،جب تک انصاف نہیں ہو گا آزاد نہیں ہوں گے، عدل و انصاف کو طاقت دیتا ہے، ارشد شریف مجھے بتاتا تھا اسے کون کون دھمکیاں دیتا تھا، مجھ پر قاتلانہ حملے کی ایف آئی آر درج نہیں ہو رہی۔ میں پاکستان کا سابق وزیراعظم اور پارٹی کا سربراہ ہوں، جب تک جنگل کا قانون رہے گا ملک آزاد نہیں ہو سکتا، یہاں سابق وزیراعظم کے حقوق نہیں ہیں، چیف جسٹس کی بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ قوم چیف جٹسس کی طرف دیکھ رہی ہے، سابق وزیراعظم اپنی ایف آئی آر درج نہیں کروا سکتا، سرکاری ٹی وی 4 دن سے اشتعال دلانے کے لیے ویڈیو چلا رہا ہے، مریم اورنگزیب اور جاوید لطیف جھوٹی پریس کانفرنسز کرتے تھے۔

عمران خان نے کہا کہ میں پاکستان کا سابق وزیر اعظم اور ملک کی سب سے بڑی جماعت کا سربراہ ہوں مگرمیں اپنی ایف آئی آر درج نہیں کروا سکتا کیونکہ اس میں ایک افسر کا نام تھا۔ ترجمان پاک فوج سے کہتا ہوں توہین تب ہوگی جب وہ ایکشن نہیں لے گی اور اداراہ خود کو قانون سے اوپر سمجھے گا۔ پنجاب میں ہماری حکومت ہے مگر پولیس کہیں اور سے کنٹرول ہو رہی ہے اور میں اپنی ایف آئی آر درج نہیں کروا سکتا۔ چیف جسٹس صاحب ہم بنانا ریپبلکن بننے جا رہے ہیں جہاں کوئی انصاف نہیں ہوتا اس لیے اس وقت آپ نے ملک کو بچانا ہے جہاں قوم اداروں پر اعتبار کھو بیٹھی ہے جس کو بحال کرنے کی ضرورت ہے۔

شاہ محمود قریشی

اس سے قبل وزیر آباد میں پی ٹی آئی کے لانگ مارچ سے خطاب کرتے ہوئے سابق وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ عمران خان کے پاس دو راستے تھے ایک مصلحت اور سر جھکا کر کمپرومائز کرنے کا راستہ اور دوسرا اس قوم کو جگا کر حقیقی، خودمختار اور خوددار قوم بنانے کا راستہ تھا۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ نے بھارت کے مایوس مسلمانوں کو آزادی کا راستہ دکھایا اور اب عمران خان پاکستان کے مایوس لوگوں کو حقیقی آزادی کا راستہ دکھانے کی کوشش کر رہا ہے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ جنہوں نے تحریک انصاف کی حکومت پر سازش کے ذریعے حملہ کیا ان کا خیال تھا کہ تحریک انصاف جب اقتدار سے باہر ہوگی تو بکھر جائے گی۔ وہ لوگ طنزیہ کہتے تھے تحریک انصاف ’ممی ڈیڈی‘ پارٹی ہے مگر آج تحریک انصاف کے کارکنوں نے پورے پاکستان میں ثابت کردیا ہے کہ یہ وہ جماعت ہے جو جناح کے پاکستان اور اقبال کے خواب کو پروان چڑھانے کے لیے میدان میں اتری ہے۔

فوج کیساتھ ہوں، عمران خان

پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ فوج میری ہے اور اپنی فوج کے ساتھ ہوں، حکمران طبقہ مجھے فوج کے سامنے کھڑا کرنا چاہتے ہیں ایسا کبھی نہیں ہو گا، لانگ مارچ میں مجھے جلدی نہیں اسلام آباد والوں کو جلدی ہے۔

ان خیالات کا اظہار پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین نے زمان پارک میں سینئر صحافیوں کے ساتھ ملاقات کے دوران کیا، اس ملاقات میں لانگ مارچ اور ملکی سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا، جبکہ پی ٹی آئی چیئر مین نے صحافیوں کو اپنی زندگی سے لاحق خطرات اور حملے کے حوالے سے آگاہ کیا۔

اس موقع پر سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ حکمرانوں نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) کی اس لئے مخالفت کی، انہیں معلوم تھا کہ میں جیت جاؤں گا، مجھے اسٹیبلشمنٹ کی مدد چاہیے ہوتی تو ای وی ایم پر کیوں انحصار کرتا ، نواز شریف کو بلانے کی کوشش ہو رہی ہے تاکہ ایک جیسا ماحول دینے کا تاثر دیا جا سکے۔

اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے عمران خان نے شہباز شریف پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جو ڈگی میں چھپ کر عسکری حکام سے ملنے جاتا ہے اس سے کیا مذکرات ہونگے، ای وی ایم کے بغیر بھی انتخاب ہوتے ہیں تو انشاءاللہ ہم جیتیں گے، جس قدر عوام ہمارے ساتھ ہے انشااللہ دو تہائی اکثریت ملے گی، اسی خوف سے ہماری مقبولیت کو دیکھتے ہوئے یہ انتخابات نہیں کروا رہے۔

پی ٹی آئی چیئر مین کا کہنا تھا کہ میں صرف شفاف الیکشن چاہتا ہوں، اسٹیبلشمنٹ کی حمایت مجھے نہیں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کو درکار ہے، میں فوج کے ساتھ کھڑا ہوں، فوج میری ہے، یہ لوگ مجھے فوج کے سامنے کھڑا کرنا چاہتے ہیں ایسا کبھی نہیں ہو گا، ملک کو درپیش پیش مسائل کا حل شفاف انتخابات میں ہے۔ میں لانگ مارچ کو لیکر چل رہا ہوں، مجھے جلدی نہیں اسلام آباد والوں کو جلدی ہے، نواز شریف ہمیشہ اپنے ایمپائر کے ساتھ کھیلتا ہے۔

برطانوی میڈیا کو انٹرویو:

اس سے قبل برطانوی میڈیا کے ساتھ تفصیلی انٹرویو کے دوران سابق وزیراعظم نے کہا کہ وزیرآباد میں ہونے والے حملے پر میرے بیٹے بہت پریشان تھے۔ 2 گھنٹے بعدجیسے ہی میں ہسپتال پہنچا، میں نے اپنے بیٹوں سے بات کی اور اپنی سابقہ بیوی سے بھی گفتگو کی جو کافی پر سکون تھی لیکن میرے بیٹے کافی پریشان تھے اور مجھے امید ہے کہ جلد ہی ان سے ملاقات ہوگی۔

عمران خان نے انکشاف کیا کہ جدم بڑے صاحبزادے سلیمان نے ہمیشہ سیاست میں آنے کے ان کے فیصلے کی مخالفت کی، جب مجھے گولی ماری گئی تو وہ کافی پریشان تھا۔ ہمارا اپنی زندگی پر کوئی قابو نہیں، یہ سب اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ مجھ پر حملہ اصل میں انہیں اشرافیہ کو بے نقاب کرنے سے روکنے کے لیے ہمیشہ کے لیے خاموش کرنے کی کوشش تھی۔ یہ طاقتور لوگ مجھے دوبارہ نشانہ بنانے کی کوشش کریں گے، اس لیے میں نے اپنی رہائشگاہ پر سکیورٹی بڑھا دی ہے۔ کیونکہ انہیں خوف ہے کہ میری پارٹی آئندہ انتخابات میں کلین سوئپ کرے گی۔ 

چیئرمین پی ٹی آئی نے اصرار کیا کہ قانون کی حکمرانی ہی وہ چیز ہے جو مہذب معاشرے اور بنانا ری پبلک میں فرق کرتی ہے، جو چیز ہمیں ترقی کرنے سے روک رہی ہےوہ یہ ہے کہ پاکستان میں انصاف نہیں ہے۔ حملے کے بعد تین لوگوں کے خلاف مقدمہ درج نہیں کروا سکے جس کا مجھے افسوس ہے، جبکہ ہماری شکایت میں نامزد افراد میں سے ایک اعلیٰ افسر تھا۔ ذرا تصور کریں کہ اس ملک میں ایک عام آدمی پر کیا گزرتی ہوگی، جب وہ طاقتور کے خلاف آتا ہے تو بے بس ہوجاتا ہے۔ مجھ پر حملے میں 2 افراد شامل تھے جب کہ دوسرا حملہ آور تاحال مفرور ہے۔ جب آپ مافیا کے خلاف کھڑے ہوتے ہیں تو آپ کی جان کو خطرہ رہتا ہے، میں نے انصاف کے لیے لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔

پی ٹی آئی چیئرمین نے کہا کہ امریکا کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کی اہمیت کے بارے میں ان کا مؤقف ہمیشہ واضح رہا ہے۔ امریکا سپر پاور ہے، یہ ناقابل تصور ہے کوئی ملک امریکا کے ساتھ اچھے تعلقات نہیں رکھنا چاہے گا۔ میں امریکا کے ساتھ ایسے ہی تعلقات رکھنا چاہوں گا جیسے کہ بھارت کے تعلقات ہیں امریکا کے ساتھ،

انٹرویو کے دوران رشی سوناک کے برطانوی وزیر اعظم کے طور پر منتخب ہونے پر اظہار خیال کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ وہ اقلیتی نسل سے تعلق رکھنے والے شخص کے انتخاب پر خوشگوار حیرت میں مبتلا ہیں۔ مجھے کاؤنٹی کرکٹ کےد وران نسل پرستی کا سامنا کرنا پڑا۔

Advertisement