اسلام آباد: ( دنیا نیوز ) وفاقی شرعی عدالت میں خواجہ سراؤں کے تحفظ سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جمعیت علمائے اسلام (ف) جے یو آئی کے وکیل کامران مرتضیٰ نے دلائل میں کہا کہ ٹرانسجینڈر ایکٹ سے خاندانی نظام کی بنیادیں ہل جائیں گی، ذاتی پسند نا پسند پر جنس کا تعین نہیں کیا جاسکتا۔
شرعی عدالت میں خواجہ سراؤں کے تحفظ سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، دوران سماعت کامران مرتضیٰ نے کہا کہ میر اجسم میری مرضی، میرا احساس میری مرضی کا نعرہ اسلامی معاشرے میں نہیں چل سکتا۔ جس پر قائم مقام چیف جسٹس سید محمد انور نے کہا کہ کوئی کسی کی عزت نہیں اچھال سکتا، کیا کوئی ایسی مثال ہے جس میں اس قانون کا غلط استعمال کیا گیا؟۔
جے یو آئی ف کے سینیٹر مشتاق خان کا کہنا تھا کہ پنجاب پولیس نے آئی جی کو خط لکھا کہ خواتین پولیس اہلکار خواجہ سرا کے ساتھ ٹریننگ کیلئے تیار نہیں، وہ خواجہ سرا لڑکی بن کر بھرتی ہوگیا تھا، قانون کے غلط استعمال کی اور بھی مثالیں موجود ہیں۔
جے یو آئی ف کے وکیل کامران مرتضیٰ نے دلائل مکمل کرلئے، دوران سماعت وزارت انسانی حقوق اور نادرا نے اپنی رپورٹس جمع کرا دیں۔
وزارت انسانی حقوق کی رپورٹ کے مطابق قانون آنے کے بعد ملک کے کسی ادارے میں ایک بھی خواجہ سرا کو ملازمت نہیں دی گئی، سندھ اور خیبرپختونخواکی جیلوں میں کل پانچ خواجہ سرا قید ہیں، پنجاب، بلوچستان میں کوئی خواجہ سرا جیل میں موجود نہیں ہے۔
رپورٹ کے مطابق اسلام آباد میں بنائے گئے پروٹیکشن سنٹر میں 100 خواجہ سرا کی رجسٹریشن کی گئی ہے۔
نادرا کے وکیل کے مطابق یہ قانون آنے سے پہلے شناختی کارڈ میں مر د خواجہ سرا یا خاتون خواجہ سرا لکھا جاتا تھا، اب ایسا نہیں، نادرا قانون آنے کے بعد اب ہر خواجہ سرا کی مرضی کے مطابق صنف لکھی جاتی ہے۔
قائم مقام چیف جسٹس وزارت انسانی حقوق کے حکام پر برہم ہوئے اور ریمارکس دیئے کہ تیسری مرتبہ عدالت میں غلط بیانی کی گئی ہے، بتایا گیا کہ کسی خواجہ سرا نے کوئی مقدمہ درج نہیں کرایا۔
نمائندہ این جی اوز شیر خان نے کہا کہ نادرا میں ایگزیکٹو پوسٹ پر تعینات نتاشا کو ہراساں کیا گیا، خواجہ سرا نتاشا نے مقدمہ درج کرا رکھا ہے، غلط جواب پر وزارت انسانی حقوق کے حکام نے عدالت سے معذرت کرلی۔
وزارت انسانی حقوق کے حکام نے کہا کہ وزارت داخلہ نے جو رپورٹ دی ویسے ہی عدالت میں جمع کرائی جبکہ عدالت نے حقائق پر مبنی رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کردی۔