لاہور: (ویب ڈیسک) وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان اور ترکیہ کو مشترکہ چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ملکر کام کرنا چاہیے۔
ترک خبر رساں ادارے کیساتھ خصوصی انٹرویو کے دوران وزیراعظم نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں پاکستان اور ترکی کو مل کر کام کرنا چاہیے،اجتماعی تحقیق اور مشترکہ ترقی ، وسائل کو جمع کرنے کے ذریعے اپنی شراکت داری کو مضبوط کرنا چاہیے۔
ترکیہ کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کو مثالی قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ تاریخی تعلقات مضبوطی سے مشترکہ مذہبی، ثقافتی اور لسانی روابط پر مبنی ہیں اور دونوں طرف سے سیاسی تبدیلیوں سے بالاتر ہیں۔ سات دہائیوں میں دونوں ممالک مشکل وقت میں بھی ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہیں۔ پاکستان اور ترکی بنیادی قومی مفادات کے تمام مسائل پر ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہیں چاہے وہ مقبوضہ کشمیر ہو یا شمالی قبرص۔
شہباز شریف نے کہا کہ ترکیہ خاص طور پر اس کی قیادت کا کشمیر کے تنازع پر اصولی حمایت پر شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ دونوں ممالک علاقائی، بین الاقوامی مسائل پر بھی یکساں رائے رکھتے ہیں جبکہ دوطرفہ، علاقائی اور کثیر جہتی فورمز پر قریبی تعاون سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ عوام سے عوام اور ثقافتی روابط اوپر کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ مشترکہ چیلنجوں اور نئے اور ابھرتے ہوئے خطرات کا سامنا کرتے ہوئے پاکستان، ترکی نے مختلف شعبوں میں اپنے تعاون کو دفاع سمیت دیگر معاملات پر تعلقات کو مضبوط کیا ہے۔
انہوں نے ترک دفاعی صنعت کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ صدر اردوان کی قیادت میں پچھلی دو دہائیوں میں مشکلات اور چیلنجز کے باوجود اس شعبے نے شاندار کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ پاکستان ترکی کا سب سے بڑا دفاعی گاہک ہے۔
وزیر اعظم نے زور دیتے ہوئے مزید کہا کہ ملجم کلاس جنگی جہازوں کی تعمیر پر ترکیہ کا تعاون، نہ صرف پاکستانی بحریہ کی صلاحیتوں میں اضافے کے لیے ایک منفرد قدر رکھتا ہے بلکہ نمایاں طور پر واضح ہے۔ ہماری دونوں قوموں اور ہماری دونوں بحریہ کے درمیان دوستی کے بندھن کو مزید مضبوط کرنے کا ایک اہم لمحہ ہے۔
اپریل میں منتخب ہونے والے وزیراعظم نے کہا کہ ملکی معیشت کو متعدد عالمی اور اندرونی چیلنجز کا سامنا ہے ، جب ملک کا چارج سنبھالا تو معیشت تباہی کے دہانے پر تھی۔ پچھلی حکومت کی معاشی پالیسیاں ترقی کے حامی نہیں تھیں اور معیشت کو متعدد چیلنجوں کی طرف لے گئی، معیشت کو ضرورت سے زیادہ مالیاتی سختی، سپلائی سائیڈ جھٹکے، طویل وبائی اثرات، سرمایہ کاروں کے اعتماد میں کمی، مہنگائی کی بلند شرح اور روس یوکرین تنازعہ کے اثرات کا سامنا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اب میری حکومت نے معاشی بدحالی سے نمٹنے کے لیے نئی پالیسیاں تشکیل دی ہیں، ہمارے پاس دیوالیہ پن اور مالیاتی تباہی کے دہانے سے پیچھے ہٹنے کے لیے بہت کم وقت ہے۔ ہماری پالیسیاں طویل مدتی ہیں۔ ہم سبسڈیز کا خاتمہ کر رہے ہیں، عوام شدید مشکلات کا شکار ہیں، ہمیں اس کا ادراک بھی ہے، تاہم اس مشکلات سے نمٹنے کے لیے ٹارگٹڈ سبسڈیز اور دیگر امدادی اقدامات کر رہے ہیں۔ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی سمیت دیگر معاملات کو کنٹرول کرنے کے لیے بہتر فیصلے کر رہے ہیں۔
شہباز شریف نے کہا کہ امسال آنے والے بدترین سیلاب نے ملک کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا جس کے باعث عوام کو بھی تکلیفیں اٹھانا پڑیں۔ کسانوں اور تاجروں کے لیے حال ہی میں اعلان کردہ پیکجوں سے معاشی سرگرمیوں کو تیز کرنے میں مدد ملے گی۔ پاکستان کا عالمی سطح پر ماحولیاتی اثرات میں صرف ایک فیصد حصہ ہے،تاہم اس وقت ماحولیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔