لاہور: (فرحان نذیر) کراچی میں 30 اگست 2020 کو بلدیاتی ادارے ختم ہو گئے تھے جس کے تقریباً اڑھائی سال بعد 15 جنوری 2023 کو ہونے والے بلدیاتی الیکشن کے بعد الیکشن کمیشن کی حتمی پارٹی پوزیشن کے مطابق 229 میں سے 91 نشستیں لے کر پیپلز پارٹی پہلی پوزیشن پر ہے۔ جماعت اسلامی نے 85، تحریک انصاف نے 42 نشستیں حاصل کیں، مسلم لیگ (ن) نے 7، جے یو آئی نے 2 جبکہ ٹی ایل پی ایک نشست حاصل کرسکی، اس کے علاوہ ایک نشست آزاد امیدوار نے بھی جیتی۔
الیکشن کمیشن نے 229 یوسیز میں چیئرمین اور وائس چیئرمین کے انتخابات کا نتیجہ مرتب کیا جبکہ 6 یوسیز پر نتیجہ روک لیا گیا ہے۔ 6 نشستوں کی سماعت الیکشن کمیشن پاکستان میں ہوگی، 11 نشستوں پر امیدواروں کے انتقال کے باعث انتخابات نہیں ہوئے۔
بلدیاتی انتخابات مکمل ہونے کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی اپنا اپنا میئرلانے کے لیے سیاسی جماعتوں سے رابطے کر رہی ہیں لیکن کراچی کے مئیر کا انتخاب تاخیر کا شکار ہونے کا امکان ہے کیونکہ شہر قائد کی تمام یونین کونسلز کے الیکشن نتائج آنے تک میئر کا انتخاب نہیں ہو سکے گا۔
ذرائع الیکشن کمیشن کے مطابق جب تک ہاؤس مکمل نہیں ہوتا، میئر کا انتخاب ممکن نہیں۔ الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ پہلے کراچی میں 11 حلقوں میں ملتوی شدہ بلدیاتی انتخابات کرانا ہوں گے، انتخابات ہو جانے کے بعد نمبر مکمل ہو گا۔
کئی مرتبہ التوا کا شکار ہونے والے کراچی بلدیاتی انتخابات کے بعد اب کہا جا رہا ہے کہ شہریوں کو اپنے مسائل کے حل کے لیے میئر کا 2 سے 3 ماہ مزید انتظار کرنا پڑے گا۔ الیکشن کمشنر سندھ اعجاز چوہان کے مطابق کراچی کی کُل 246 یونین کونسلز میں سے 11 پر الیکشن ہونا ابھی باقی ہیں، 11 یوسیز کے بعد مخصوص نشستوں پر ارکان کا انتخاب ہوگا، جب 246 یوسیز مکمل ہو جائیں گی اس کے بعد میئر اور ڈپٹی میئر کا انتخاب ہوگا۔
میئر کراچی کے اختیارات کیا ہیں؟
ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کے میئر اور ڈپٹی میئر کے انتخاب کیلئے جوڑ توڑ جاری ہے، جماعت اسلامی پیپلز پارٹی سے ہاتھ ملائے گی یا تحریک انصاف سے؟ بال جماعت اسلامی کے کورٹ میں ہے، کراچی میں 30 اگست 2020 کو بلدیاتی ادارے ختم ہوگئے تھے جس کے تقریباً ڈھائی سال بعد 15 جنوری 2023 کو ہونے والے بلدیاتی الیکشن کے بعد کراچی کا نیا مئیر منتخب ہوگا، پاکستان کے سب سے بڑے شہر کو چلانے کیلئے میئر کے پاس 106 شاہراہیں، 46 پارکس، 58 مارکیٹس، 14 ہسپتال اور 10 سے زائد پٹرول پمپس ہیں جبکہ بلدیہ کے 28 محکمے بھی اس کے ماتحت ہوں گے۔
ایم سی کی زمین پر موجود دکانوں اور پٹرول پمپس کے کرائے، چڑیا گھر اور چارجڈ پارکنگ سے بھی بلدیہ کو آمدنی ہوتی ہے لیکن حکومت سندھ کی مدد اور بلدیہ کی آمدنی کے باوجود ہر ماہ تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے کے ایم سی کو 4 کروڑ روپے کم پڑجاتے ہیں، سابق ایڈمنسٹریٹر کراچی فہیم الزمان صدیقی سمجھتے ہیں کہ اس کی وجہ اہم محکموں کا میئر کے پاس نہ ہونا ہے۔
فہیم الزمان صدیقی کا کہنا ہے کہ پانی، سیوریج، کچرا اٹھانا، سڑکوں کی مرمت، ڈسپوزل ٹریٹمنٹ، باغات، ماحولیات سمیت دیگر محکمے میئر کے پاس ہوتے ہیں اور یہ بلدیاتی امور ہیں لیکن اس وقت مایوس کن صورتحال ہے کیونکہ فائربریگیڈ اور چند سڑکوں کے علاوہ کے ایم سی کے پاس کچھ بھی نہیں۔
دوسری جانب وزیراعلیٰ سندھ کا دعویٰ ہے کہ اختیارات نچلی سطح پر منتقل ہوچکے ہیں اس لئے نیا میئر اختیارات کا رونا نہ روئے، گزشتہ دنوں ایک تقریب سے خطاب میں وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ میئربننے والا اختیارات کا رونا رونے کے بجائے قانون میں دیئے اختیارات کے تحت کام کرے، نئے قانون کے تحت اختیارات نچلی سطح پر منتقل کئے ہیں، میئر کام کرے سندھ حکومت سپورٹ کرے گی۔
سابق میئر کراچی وسیم اختر نے وزیراعلیٰ سندھ کے دعوے کو مسترد کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مالی اور انتظامی اختیار کے بغیر مرتضیٰ وہاب بھی شہر کیلئے کچھ نہیں کر سکے تھے، سابق ایڈ منسٹریٹر کراچی فہیم الزمان صدیقی بھی کہتے ہیں کہ بغیر اختیار اور فنڈز کے میئر شہر کو اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں کرسکتا، اس کیلئے میئر کے پاس تمام اہم محکمے ہونے چاہئیں، فنڈز اور اختیارات کے تنازع سے قطع نظر کراچی کے شہری بلدیاتی الیکشن کے بعد اب بنیادی سہولیات کی فراہمی اور مسائل کا مطالبہ کر رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ نیا میئر شہر کی تعمیر نو کے چیلنج کو قبول کرے۔