لیفٹیننٹ جنرل (ر) امجد شعیب 3 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے

Published On 27 February,2023 08:42 am

اسلام آباد: (دنیا نیوز) اسلام آباد کی عدالت نے عوام کو اداروں کےخلاف اکسانے اور نفرت پھیلانے کے کیس میں گزشتہ روز گرفتار کیے گئے لیفٹیننٹ جنرل (ر) امجد شعیب کو 3 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔

امجد شعیب کو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد میں پیش کیا گیا، تھانہ رمنا کے تفتیشی افسر، پراسیکیوٹر اور امجد شعیب کی لیگل ٹیم بھی جوڈیشل مجسٹریٹ عباس شاہ کی عدالت میں پیش ہوئی۔

پراسیکیوشن کی جانب سے عدالت سے امجد شعیب کے 7 روز کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کرتے ہوئے بتایا گیا کہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کا فوٹو گرامیٹرک ٹیسٹ لاہور سے کروانا ہے۔

ملزم کو 5 اور 7 سال کی سزا ہو سکتی ہے

عدالت میں پراسیکیوٹر عدنان نے امجد شعیب کے خلاف مقدمے کا متن پڑھا اور عدالت کو بتایا کہ نجی ٹیلی ویژن پر امجد شعیب بطور مہمان موجود تھے، ان کے بیان سے حکومت کے خلاف نفرت پھیلائی گئی، بیان سے حکومت، اپوزیشن اور سرکاری ملازمین کے درمیان نفرت پھیلانے کی کوشش کی گئی، اپوزیشن کو حکومت کے خلاف مزید سخت حکمتِ عملی کے لیے اکسایا گیا، امجد شعیب کے بیان سے 3 گروہوں کے درمیان نفرت پھیلائی گئی، ان پر لگی دفعات کے تحت 5 اور 7 سال کی سزا ہو سکتی ہے۔

امجد شعیب کے وکیل مدثر خالد عباسی نے اپنے مؤکل کے جسمانی ریمانڈ کی مخالفت کر دی اور انہیں کیس سے ڈسچارج کرنے کی استدعا بھی کی گئی۔

وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت نے دیکھنا ہے کہ امجد شعیب نے کوئی جرم کیا بھی ہے یا نہیں، اگر مجسٹریٹ کو لگتا ہے کہ کوئی جرم نہیں کیا تو انہیں کیس سے ڈسچارج کیا جا سکتا ہے، ان پر مقدمے میں لگائی گئی دفعات بنتی ہی نہیں، امجد شعیب نے ایک مخصوص صورت حال سے متعلق صرف مثال دی، انہوں نے ایسی کیا بات کر دی جس پر قانون نے کوئی پابندی لگائی ہو؟ انہوں نے ایسی بات آج تک نہیں کی جس سے ملک کو نقصان پہنچے، امجد شعیب کے خلاف صرف سیاسی بنیادوں پر مقدمہ دائر کیا گیا ہے، وہ تقریباً 80 سال کے ہیں، انہوں نے مثبت تنقید کی، انہیں کافی عرصے سے ہراساں کیا جا رہا ہے، ایک گھنٹے کے اندر مقدمہ درج کر کے امجد شعیب کو سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا گیا، جائز تنقید کرنا اگر غلط ہے تو اپوزیشن کو تو سسٹم سے نکال دیں۔

صدر اسلام آباد ڈسٹرکٹ بار کے دلائل

اس کے ساتھ ہی امجد شعیب کے وکیل کے دلائل مکمل ہو گئے جس کے بعد صدر اسلام آباد ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن قیصر امام نے ملزم کی جانب سے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ امجد شعیب اپنے بیان کا اقرار کر رہے ہیں کہ وہی ٹیلی ویژن پر بیٹھے ہوئے تھے، اگر بیان اور اپنی موجودگی کا اقرار کر لیا تو فوٹو گرامیٹرک اور وائس میچنگ ٹیسٹ کیوں کرانے چاہئیں؟

پراسیکیوٹر نے کہا کہ ٹرائل کے لیے وائس میچنگ اور فوٹو گرامیٹرک ٹیسٹ کا ثبوت ضروی ہوتا ہے۔

پراسیکیوٹر کی ڈسچارج کرنے کی مخالفت

پراسیکیوٹر نے امجد شعیب کو کیس سے ڈسچارج کرنے کی درخواست کی مخالفت کر دی۔

امجد شعیب کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 2 اداروں کے افسران کی گرفتاری رہ گئی تھی، ہو سکتا ہے کہ اگلی گرفتاری عدلیہ کے کسی افسر کی ہو۔

امجد شعیب کے وکیل ریاست علی آزاد نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ امجد شعیب نے 1965ء اور 1971ء کی جنگیں لڑیں، یہ پاکستان کے سب سے محب وطن شہری ہیں، انہوں نے شہریوں کو نہیں کہا کہ سرکاری دفاتر نہ جائیں۔

اس موقع پر امجد شعیب کے تینوں وکلاء نے عدالت سے کیس کو ڈسچارج کرنے کی استدعا کی۔

لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کے وکیل قاسم ودود کمرۂ عدالت میں آبدیدہ ہو گئے۔

بعدازاں عدالت نے امجد شعیب کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا پر فیصلہ محفوظ کر لیا جسے کچھ دیر بعد سناتے ہوئے امجد شعیب کو 3 روزہ جسمانی ریمانڈ پولیس کے حوالے کر دیا۔

امجد شعیب پر درج مقدمہ

لیفٹیننٹ جنرل (ر) امجد شعیب کےخلاف مقدمہ مجسٹریٹ اویس خان کی مدعیت میں تھانہ رمنا میں مقدمہ درج ہوا تھا، مقدمے میں عوام کو اکسانے کی 153 اے اور 505 کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔

مقدمے کے متن میں کہا گیا ہے کہ ٹی وی کے پروگرام میں امجد شعیب نے عوام کو بغاوت پر اکسایا، بیان میں سرکاری ملازمین اور اپوزیشن کو سرکاری قانونی فرائض سے روکنے پر اکسایا گیا۔

درج مقدمے کے مطابق ان کے بیان سے ملک میں بے چینی، بے امنی اور انتشار پیدا کرنے کی کوشش کی گئی، حکومت اور حزبِ اختلاف میں دشمنی، اشتعال انگیزی اور نفرت پھیلانے کی کوشش بھی کی گئی۔

مقدمے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ امجد شعیب کی جانب سے حکومت، اپوزیشن اور سرکاری ملازمین میں نفرت پیدا کر کے ملک کو کمزور کرنے کی سازش بھی کی گئی ہے۔