لاہور: (مولانا حامد علی خاں) علامہ اقبالؒ کو بعض لوگ مفکر پاکستان کہتے ہیں اور پاکستان کی تخلیق کے بعد بار ہا یہ بھی کہا گیا ہے کہ اقبال نے ایک خواب دیکھا تھا اور اسی خواب کو اس مرد مومن کی ضرب کلیمی نے حقیقت میں تبدیل کر دیا جسے ہم بابائے ملت قائداعظم محمد علی جناحؒ کہتے ہیں۔
اقبالؒ کے ذہن میں پاکستان کا دھندلا سا تصور بہت پہلے آ گیا تھا لیکن اس تصور کا واضح ترین اظہار انہوں نے 29 دسمبر 1930ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس (منعقدہ الٰہ آباد) کے خطبہ صدارت میں کیا تھا چونکہ اس خطبہ صدارت کی اشاعت اتنی نہیں ہوئی جتنی اس کی اہمیت کے لحاظ سے ہونی چاہئے تھی، اس لئے بہت سے لوگوں کو معلوم نہیں کہ اقبالؒ نے فی الواقع خاصے واضح اور زور دار الفاظ میں پاکستان کا مطالبہ پیش کیا تھا، مطالبہ پاکستان کتنی نیک نیتی سے کیا گیا تھا اور یہ غلط قسم کے تعصبات سے کس قدر پاک تھا اس کا اندازہ آئندہ اقتباسات سے ہوگا، جن کے تراجم کے ذمہ دار سید نذیر نیازی ہیں۔
علامہ اقبالؒ نے فرمایا:
’’جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے، مجھے یہ اعلان کرنے میں مطلق تامل نہیں کہ اگر فرقہ وارانہ امور کے ایک مستقل اور پائیدار تصفیے کے اس بنیادی اصول کو تسلیم کر لیا جائے کہ مسلمانان ہندوستان کو اپنی روایات و تمدن کے ماتحت اس ملک میں آزادانہ نشوونما کا حق حاصل ہے تو وہ اپنے وطن کی آزادی کیلئے بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریغ نہ کریں گے، یہ اصول کہ ہر فرد اور ہر جماعت اس امر کی مجاز ہے کہ وہ اپنے عقائد کے مطابق آزادانہ ترقی کرے، کسی تنگ نظر فرقہ واری پر مبنی نہیں، فرقہ واری کی بھی بہت سی صورتیں ہیں۔
وہ فرقہ واری جو دوسری قوموں سے نفرت اور ان کی بدخواہی کی تعلیم دے، اس کے ذلیل اور ادنیٰ ہونے میں کوئی شبہ نہیں، میں دوسری قوموں کے رسوم و قوانین اور ان کے معاشرتی و مذہبی ادارات کی دل سے عزت کرتا ہوں بلکہ بحیثیت مسلمان میرا یہ فرض ہے کہ اگر ضرورت پیش آئے تو احکام قرآنی کے حسب اقتضا ان کی عبادت گاہوں کی حفاظت کروں، بہ ایں ہمہ مجھے اس جماعت سے دلی محبت ہے جو میرے اوضاع و اطوار اور میرے زندگی کا سرچشمہ ہے اور جس نے اپنے دین اور اپنے ادب، اپنی حکمت اور اپنے تمدن سے بہرہ مند کرکے مجھے وہ کچھ عطا کیا جس سے میری موجودگی کی تشکیل ہوئی۔
یہ اسی کی برکت ہے کہ میرے ماضی نے از سر نو زندہ ہو کر مجھ میں یہ احساس پیدا کر دیا کہ وہ اب بھی میری ذات میں سرگرم کار ہے، نہرو رپورٹ کے واضعین تک نے بھی فرقہ واری کے اس پہلو کا اعتراف کیا ہے، علیحدگی سندھ کے مسئلے پر بحث کرتے ہوئے انہوں نے لکھا ہے’’ یہ کہنا کہ قومیت کے وسیع نقطۂ نگاہ کے ماتحت کسی فرقہ وارانہ صوبے کا قیام مناسب نہیں، بالکل ایسا ہے جیسا یہ دعویٰ کہ بین الاقوامی نصب العین کا تقاضا ہے کہ علیحدہ علیحدہ قوموں کا وجود قائم نہ رہے، حالانکہ قوموں کی پوری پوری آزادی کے بغیر کسی بین الاقوامی ریاست کا قائم کرنا مشکل ہے۔
بعض بے خبر یا بداندیش لوگ کہا کرتے تھے کہ دو قوموں کا نظریہ کسی خود غرض سیاسی جماعت نے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے خاص حالات میں خود وضع کر لیا ہے حالانکہ یہ کوئی نظریہ نہ تھا بلکہ ایک حقیقت نفس الامری کا اظہار تھا، سوچنے کی بات صرف یہ ہے کہ الگ قومیت سے دوسری قوموں کی دشمنی نہیں دوستی لازم آتی ہے، علامہ اقبال نے اپنے مذکورہ بالا خطبے میں ملت اسلامیہ کی وکالت یوں کی ہے۔
’’مغربی ممالک کی طرح ہندوستان کی یہ حالت نہیں کہ اس میں ایک ہی قوم آباد ہو، وہ ایک ہی نسل سے تعلق رکھتی ہو اور اس کی زبان بھی ایک ہو۔ ہندوستان مختلف اقوام کا وطن ہے جن کی نسل زبان، مذہب سب ایک دوسرے سے الگ ہیں، ان کے اعمال و افعال میں وہ احساس پیدا ہو ہی نہیں سکتا جو ایک ہی نسل کے مختلف افراد میں ہوتا ہے، غور سے دیکھا جائے تو ہندو بھی کوئی واحد الجنس قوم نہیں، پس یہ امر کسی طرح مناسب نہیں کہ مختلف ملتوں کے وجود کا خیال کئے بغیر ہندوستان میں مغربی طرز کی جمہوریت کا نفاذ کیا جائے، لہٰذا مسلمانوں کا مطالبہ کہ ہندوستان میں ایک اسلامی ہندوستان قائم کیا جائے بالکل حق بجانب ہے‘‘۔
اب علامہ اقبالؒ کے ملہمانہ الفاظ میں پاکستان کی واضح تر تصویر ملاحظہ فرمائیے، ارشاد ہوتا ہے!’’میری خواہش ہے کہ پنجاب، صوبہ سرحد، سندھ اور بلوچستان کو ایک ہی ریاست میں ملا دیا جائے، خواہ یہ ریاست سلطنت برطانیہ کے اندر حکومت خود اختیاری حاصل کرے، خواہ اس کے باہر۔ مجھے تو ایسا نظر آتا ہے کہ اور نہیں تو شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو بالآخر ایک منظم اسلامی ریاست قائم کرنی ہی پڑے گی، اس تجویز کو نہرو کمیٹی میں بھی پیش کیا گیا تھا لیکن ارکان مجلس نے اسے اس بنا پر روک دیا تھا کہ اس قسم کی کوئی ریاست قائم ہوئی تو اس کا رقبہ اتنا وسیع ہوگا کہ اس کا انتظام کرنا دشوار ہو جائے گا، اگر رقبے ہی کا خیال کیا جائے تو ارکان مجلس کا یہ خیال صحیح ہے مگر آبادی کا خیال کیا جائے تو اس ریاست کے باشندوں کی تعداد اس وقت کے بعض ہندوستانی صوبوں سے بھی کم ہو گی‘‘۔
اس حقیقت کا اظہار کہ پاکستان کی بنیاد جوع الارض پر نہیں، حضرت قائداعظمؒ کی صُلح جویانہ مفاہمتوں سے بھی ہوتا ہے، لیکن اقبالؒ نے بھی مدتوں پہلے اس بات کا اظہار کر دیا تھا کہ ان کا مقصد ہوس زمین نہیں بلکہ محض تحفظ تمدن و تصورات اسلامی ہے چنانچہ فرماتے ہیں:
’’غالباً قسمت انبالہ یا اس قسم کے بعض دوسرے اضلاع کو الگ کر دینے سے جن میں ہندو آبادی کا غلبہ ہے، اس کی وسعت اور انتظامی مشکلات میں اور بھی کمی ہو جائے گی، پھر ان اضلاع کی علیحدگی سے غیر مسلم اقلیتوں کے حقوق کہیں زیادہ محفوظ ہو جائیں گے‘‘۔
مسلمانوں کی اکثریت کے ایک صوبے کی رضاکارانہ تقسیم کی یہ فراخ دلانہ تجویز اور جوع الارض سے یہ کھلا ہوا اظہار بے تعلقی اب بھی پاکستان کے حامیوں اور مخالفوں کو دعوت غور و فکر دیتا ہے، پاکستان کی تجویز میں دوسرے پر اقتدار حاصل کرنے کی ہوس کارفرمانہ تھی، نہ اس کی تہ میں وہ فساد انگیز جذبات کار فرما تھے جن کو بعد میں خود مخالفین نے اپنے مقاصد کے لئے بھڑکایا، یہ تجویز پورے براعظم کی ہوا خواہی کو مدنظر رکھ کر کی گئی تھی۔
علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں۔
’’ یہ تجویز سن کر نہ انگریزوں کو پریشان ہونا چاہئے نہ ہندوؤں کو، ہندوستان دنیا میں سب سے بڑا اسلامی ملک ہے اور اگر ہم چاہتے ہیں کہ اسلام اس ملک میں بحیثیت ایک تمدنی قوت کے زندہ رہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایک مخصوص علاقے میں اپنی مرکزیت قائم کر سکے، اس سے خود مسلمانوں کے احساسات ذمہ داری قوی ہو جائیں گے اور ان کا جذبۂ حب الوطنی بڑھ جائے گا‘‘۔
جو لوگ اپنی تنگ نظری سے علیحدگی کو لازماً دشمنی پر محمول کرتے ہیں، وہ اگر غور کریں تو دونوں ملکوں کی موجودہ کشیدگی میں خود انہیں کی بدگمانیاں کار فرما ہیں، اگر یہ بدگمانیاں ترک کر کے دونوں ملکوں پر مخلصانہ اور دوستانہ تعلقات قائم کر دیئے جائیں تو اس سے دونوں کی بنیادیں زیادہ مستحکم ہو سکتی ہیں اور خود اہل پاکستان براعظم پر تمام بیرونی حملوں کے خلاف بقول اقبالؒ خواہ وہ حملہ بزور قوت ہو یا بزور خیالات، ہندوستان کے بہترین محافظ ثابت ہوں گے، اس باب میں اپنے مخالفین کے غلط خیالات کی تردید کرتے ہوئے علامہ اقبالؒ نے فرمایا:
’’مسٹر سری نواس شاستری کا خیال ہے کہ مسلمانوں کا یہ مطالبہ کہ شمال مغربی سرحد کے ساتھ ساتھ خود مختار اسلامی ریاستیں قائم کی جائیں، ان کی اس خواہش کا اظہار کرتا ہے کہ ضرورت پیش آئے تو حکومت ہند پر زور ڈالا جا سکے، میں عرض کروں گا کہ مسلمانوں کے دل میں اس قسم کا کوئی جذبہ موجود نہیں، ان کا مدعا صرف اس قدر ہے کہ وہ اپنی ترقی کی راہ میں آزادی کے ساتھ قدم بڑھائیں لیکن یہ اس مرکزی حکومت کے ماتحت ممکن نہ ہوگا جسے قوم پرست ہندو ارباب سیاست محض اس لئے قائم کرنا چاہتے ہیں کہ انہیں دوسری ملتوں پر ہمیشہ کیلئے غلبہ حاصل ہو جائے‘‘۔
قیام پاکستان سے قبل اس کے سیاسی مخالفین نے تصور پاکستان کے خلاف نہایت زہریلا اور مفسدانہ پروپیگنڈا کر کے پوری ہندو قوم کو پاکستان سے بدگمان کر دیا تھا، یہ پروپیگنڈا گرم گفتار حریفوں نے پیش بندی کے طور پر مدتوں پہلے ہی شروع کر رکھا تھا چنانچہ علامہ اقبالؒ کو بھی اس کا پورا اندازہ تھا، اس پروپیگنڈا کے متعلق انہوں نے ذیل کے الفاظ میں اظہار خیال کیا تھا :’’ہندوئوں کے دل میں اس قسم کا خدشہ نہیں ہونا چاہئے کہ آزادی اسلامی ریاستوں کے قیام سے ایک طرح کی مذہبی حکومت قائم ہو جائے گی۔ یاد رکھنا چاہئے کہ اسلام کوئی کلیسائی نظام نہیں بلکہ ایک ریاست ہے جس کا اظہار روسو سے بھی کہیں پیشتر ایک ایسے وجود میں ہوا جو ’’عقد اجتماعی‘‘ کا پابند ہے۔
ریاست اسلامی کا انحصار ایک اسلامی نصب العین پر ہے، جس میں انسان شجر و حجر کی طرح کسی خاص زمین سے وابستہ نہیں بلکہ وہ ایک روحانی ہستی ہے جو ایک اجتماعی ترکیب میں حصہ لیتی ہے اور اس کے ایک زندہ جزو کی حیثیت سے چند فرائض اور حقوق کی مالک ہے، اسلامی ریاست کی نوعیت کا اندازہ ’’ ٹائمز آف انڈیا‘‘ کے اس افتتاحیے سے کیا جا سکتا ہے جس میں لکھا ہے کہ ’’قدم ہندوستان میں ریاست کا یہ فرض تھا کہ سود کے متعلق قوانین بنائے لیکن اس کے باوجود کہ اسلام میں سود لینا حرام ہے، اسلامی حکومت نے شرح سود پر کوئی پابندیاں عائد نہیں کیں‘‘۔
میں صرف ہندوستان اور اسلام کی فلاح و بہبود کے خیال سے ایک منظم اسلامی سیاست کا مطالبہ کر رہا ہوں، اس سے ہندوستان کے اندر توازن قوت کی بدولت امن و امان قائم ہو جائے گا اور اسلام کو اس امر کا موقع ملے گا کہ وہ ان تاثرات سے آزاد ہو کر جو عربی شہنشاہیت کی وجہ سے اب تک اس پر قائم ہیں اس جمود کو توڑ ڈالے جو اس کی تہذیب و تمدن، شریعت اور تعلیم پر صدیوں سے طاری ہے، اس سے نہ صرف ان کے صحیح معانی کی تجدید ہو سکے گی بلکہ وہ زمانۂ حال کی روح کے بھی قریب تر ہو جائیں گے۔
مولانا حامد علی خان ادبی دنیا کی ممتاز شخصیت ہیں، زیر نظر تحریر ان کے اپنے ادبی شمارے کے لئے لکھے گئے اداریے سے ماخوذ ہے۔