اسلام آباد: (عدیل وڑائچ) وہی ہوا جس کا خدشہ تھا، سپریم کورٹ کو مذاکراتی عمل کا بتا کر پنجاب اسمبلی کے عام انتخابات کا معاملہ چند دن کیلئے التوا کا شکار کیا گیا مگر کئی روز گزرنے کے باوجود مذاکراتی عمل کا باقاعدہ آغاز ہی نہ ہوسکا۔ بظاہر مذاکراتی عمل ایک دکھاوا اورعدالتی حکم کو التوا میں ڈالنے کے سوا کچھ نہیں تھا۔
مذاکراتی عمل کے معاملے پر سیاسی جماعتوں کی جانب سے جو تیزی عید سے قبل دیکھی گئی اچانک ہی سست روی کا شکار ہو گئی، سب سے پہلے مذاکرات کا پتہ پھینکنے والی پاکستان پیپلز پارٹی کی ترجیحات بھی بدل چکی ہیں۔ پیپلز پارٹی نے اس تاثر کو زائل کر دیا کہ وہ انتخابات کا بروقت انعقاد چاہتی ہے، اتحادی جماعتوں نے تحریک انصاف کیساتھ مذاکرات کئے بغیر ہی فیصلہ سنا دیا ہے کہ انتخابات تو حکومت کی مدت پوری ہونے پر ہی ہوں گے۔
دوسری جانب سپریم کورٹ کی جانب سے دی گئی ایک اور ڈیڈ لائن گزرنے کے باوجود انتخابات کیلئے 21 ارب روپے بھی جاری نہیں ہو سکے، بیانات اور اقدامات نے واضح کر دیا ہے کہ 13 جماعتی اتحاد فوری انتخابات میں جانے کیلئے کسی صورت تیار نہیں ہے اور اس کے لئے وہ کوئی بھی سیاسی قیمت ادا کرنے کو تیار ہے، امیدواروں کیلئے اپنے پارٹی ٹکٹس ریٹرننگ افسران کو جمع کرانے کی آخری تاریخ گزر گئی مگر( ن) لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے اپنے امیدواروں کو ٹکٹس جاری نہیں کئے گئے، جو ظاہر کرتا ہے کہ حکومت اتنی پریقین ہے کہ 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات کسی صورت نہیں ہوں گے۔
19 اپریل کو جب سپریم کورٹ آف پاکستان کو یہ بتایا گیا کہ پاکستان تحریک انصاف اور حکومتی اتحادی جماعتوں نے مذاکراتی عمل شرو ع کرنے کیلئے کمیٹیاں تشکیل دے دی ہیں تو عدالت نے اس اقدام کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے سیاسی جاعتوں کو مہلت دے دی اور درمیانی راستہ نکالنے کا مشورہ دیا مگر ساتھ ہی اپنے حکم نامے میں یہ واضح کر دیا کہ 14 مئی کو انتخابات کرانے کا حکم اپنی جگہ موجود ہے، حکومت کی اہم اتحادی جے یو آئی (ف) ابھی تک عمران خان کیساتھ بیٹھنے کیلئے تیار نہیں جبکہ حکومت کا مؤقف ہے کہ جے یو آئی (ف) کے فیصلے تک مذاکراتی عمل شروع نہیں ہوگا، ساتھ ہی یہ فیصلہ بھی ہوا کہ مذاکراتی عمل پارلیمنٹ کی سطح پر شروع ہوگا۔
پی ڈی ایم حکومت انتخابات کو التوا کا شکار کرنے کیلئے توجیہہ تو یہ پیش کر رہی ہے کہ ملک بھر میں انتخابات ایک ساتھ ہونے چاہئیں تاکہ صوبے میں بننے والی حکومت قومی اسمبلی کے انتخابات پر اثر انداز نہ ہوسکے مگر اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ حکومت میں بیٹھی جماعتیں عوام کی عدالت میں جانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ تاریخ کی بدترین مہنگائی اور موجودہ صورتحال میں حکومتی بے بسی کے بعد عوام میں جانے کا نتیجہ کیا ہو گا۔
ایسے میں حکمران جماعت (ن) لیگ تو شاید توہین عدالت کے نتیجے میں دو تین شخصیات کی نا اہلی کی صورت میں قربانی دینے کو بھی تیار نظر آتی ہے، حکومت کی جانب سے الیکشن کمیشن کو 21 ارب روپے جاری کرنے کے معاملے کو ایک مرتبہ پھر پارلیمان میں لانے کا فیصلہ کیا گیا ہے مگر اس مرتبہ حکمت عملی کچھ تبدیل کی گئی ہے، کیونکہ اس سے قبل منی بل اور سپلیمنٹری گرانٹ مسترد ہونے کو سپریم کورٹ نے وزیر اعظم کے پاس اکثریت نہ ہونے سے تعبیر کیا تھا، اس مرتبہ اسے منی بل یا گرانٹ کی صورت میں نہیں بلکہ انتخابی اخراجات کے معاملے کو پارلیمان میں غور و خوض اور بحث کیلئے پیش کیا جارہا ہے۔
انتخابات سے متعلق کیس میں حکومتی بیانیہ بڑے تضادات کا شکار ہے، کبھی سپریم کورٹ کے فیصلے کو چار تین کا فیصلہ قرار دے کر اسے اقلیتی قرار دیا جاتا ہے تو کبھی حکومت اس فیصلے پر عملدرآمد رکوانے کیلئے جتن کرتی نظر آتی ہے اور مذاکرات کی پیشکش کر کے عدالت سے وقت مانگا جاتا ہے، انتخابات سے متعلق کیس کے ایک مرحلے میں پی ڈی ایم جماعتوں اور پیپلز پارٹی نے عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کرنے کا اعلامیہ جاری کیا مگر اگلے ہی روز عدالت میں اپنے فیصلے پر یوٹرن لے کر کہا کہ ان کی جانب سے بائیکاٹ نہیں کیا گیا۔
اس حوالے سے سپریم کورٹ میں آج ہونے والی سماعت اہمیت اختیار کر چکی ہے، عدالت عظمیٰ اپنے حالیہ حکم ناموں میں یہ واضح کر چکی ہے کہ عدالتی احکامات پر عملدرآمد نہ ہونے کی صورت میں اس کے سنگین نتائج ہونگے مگر مسلسل حکم عدولی کے باوجود عدالت کی جانب سے اب تک توہین عدالت کی کارروائی یا کوئی اور اقدام نہیں اٹھایا گیا جس میں کسی بھی پبلک آفس ہولڈر کو حکم عدولی کا ذمہ دار ٹھہرایا جا سکے، مگر لگتا ہے کہ اب وہ مرحلہ آن پہنچا ہے ،جو فیصلہ کن ہو سکتا ہے۔
اگر عدالت کی جانب سے 14 مئی کو انتخابات کرانے کے فیصلے پر عملدرآمد نہیں ہوتا تو ملک کی سب سے بڑی عدالت کی رٹ کا سوال ہے، اس معاملے کو فیصلہ ہونے کے بعد ہوا میں معلق نہیں رکھا جا سکتا، 14 مئی کو انتخابات کرانے کا حکم اپنی جگہ موجود ہے مگر نہ تو الیکشن کمیشن نہ ہی حکومت کی جانب سے تاحال اس فیصلے پر نظر ثانی کیلئے کوئی درخواست دائر کی گئی ہے، عدالت یہ واضح کر چکی ہے کہ وہ اپنے فیصلے سے پیچھے نہیں ہٹے گی، یوں حکومت، مقننہ اور عدلیہ کے درمیان تصادم تھمتا نظر نہیں آرہا۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ذرائع کے مطابق انتخابی فہرستوں کی تیاری، بیلٹ پیپرز کی چھپائی اور انتخابی عملے کی تربیت کیلئے درکار رقم نہ ملنے کے باعث انتظامی رکاوٹوں نے انتخابات کا انعقاد تقریباً نا ممکن بنا دیا ہے، اگر رقم مل بھی جائے تو سکیورٹی صورتحال اور اہلکاروں کی عدم دستیابی کے باعث پھر بھی انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہے، پنجاب میں 4 لاکھ 66 ہزار اہلکاروں کی ضرورت ہے مگر صرف 80 ہزار پولیس اہلکار دستیاب ہیں، اگرچہ پاکستان تحریک انصاف اپنے امیدواروں کو ٹکٹس جاری کر چکی ہے مگر پی ٹی آئی رہنماؤں کی بڑی تعداد کی نظر میں بھی مئی کے وسط میں انتخابات کی امید دم توڑتی جارہی ہے۔