لاہور: (دنیا نیوز) سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ یہ بات ذہن میں ڈال لیں نظام نہیں چل رہا، ملک میں نئے صوبے بنا دیں، ہم نے کالا باغ ڈیم نہیں بنایا جس کا خمیازہ آج سارے بھگت رہے ہیں۔
لاہور میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ آج بد قسمتی سے ہم سب تماشائی بنے بیٹھے ہیں، ہر روز ملک کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے، سیاسی دشمنی، نفرت میں بدل گئی ہے، ملک کے ادارے ایک دوسرے کے سامنے صف آراء ہیں، ہم سب اس مشکل کو محسوس کر رہے ہیں، یہ ملک کے نظام کی بہت بڑی ناکامی ہے، نظام ڈیلیور نہیں کر رہا۔
سابق وزیر اعظم شاہد خاقان نے کہا کہ ملک کے مسائل کی وجہ سیاسی، جوڈیشل، ملٹری لیڈر شپ کی مشترکہ ناکامی ہے، لیڈر شپ نہ ہی نظام میں صلاحیت ہے کہ معاملات درست ہوں، معاملات کو حل کرنے کیلئے سب کو اکٹھا ہونا ہو گا، جس ملک میں انتشار ہو اس کی دنیا میں کوئی حیثیت نہیں ہوتی، تسلیم کرنا ہو گا ملکی معاملات مشکل میں ہیں، بنیادی سوال یہ ہے معیشت کی حالت کیا اور ترجیحات کیا ہیں۔
انہوں نے مزید کہا ہے کہ آج کے فورم کا مقصد ایشوز پر بات کرنا تھا، ہم کسی پر تنقید اور نہ کسی کی تعریف کرتے ہیں، 75 سال گزرنے کے باوجود ہم مسائل حل نہیں کر سکے، وفاقی اور صوبائی حکومتیں نہیں چاہتیں کہ لوکل گورنمنٹ نظام چلے، مفتاح اسماعیل نے معیشت کے حوالے سے مشکلات بارے آگاہ کیا، ہر آدمی پریشان ہے، مسائل کا حل تلاش کرنا ہو گا، تمام جماعتیں حکومت میں رہیں کیا ڈیلیور کر پائے۔
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ملک میں الیکشن پر الیکشن چوری ہوتا رہا، سیاسی زندگی میں 24 چیف جسٹس دیکھے ہیں، ہزاروں جرنیل اور ججز دیکھے، جب سیاست دان کی اہلیت ختم ہو جاتی ہے تو پھر ملک نہیں چلتے، آج دنیا بدل گئی ہے، سیکرٹری نظام نہیں چلا سکتا، سیاست دانوں میں اہلیت ہو گی تو وہ مسائل حل کر سکیں گے، ملک میں حقیقی لیڈر شپ نہیں ہو گی تو معاملات نہیں چلیں گے۔
سابق وزیر اعظم نے کہا کہ آج نیب کی وجہ سے حالت یہ ہے کہ سیکرٹری وزیر اعظم کو کہتا ہے سمری نہیں بنا سکتا نیب پکڑ لے گا، ہم آج تک رولز آف بزنس تبدیل نہیں کر سکے، سیکرٹری نیب سے خوفزدہ ہے تو نظام کیسے چلائیں گے، ہم میں اتنی صلاحیت نہیں کہ رولز آف بزنس ہی تبدیل کر لیتے، سب چیزوں کو درست کرنا پڑے گا، یہ حکومت کی ناکامی ہے وہ نہیں سمجھ سکی کہ اس کی اصل ذمہ داری کیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا ہے کہ 84 ارب روپے کا آٹا تقسیم کیا گیا، اس کے اندر 20 ارب سے زائد کی چوری ہوئی، غریب کو کیا ملا جس کیلئے 84 ارب خرچ کیے گئے، کیا لوگوں کو عدالتوں سے انصاف مل رہا ہے؟، یہ کونسا انصاف کا نظام ہے بیس، بیس سال سے کیسز پڑے ہیں، ججز، سیاست دان، بیورو کریسی کو احساس کرنا ہوگا، جہاں سب سے آسان کام نہیں کرنا تو پھر ملک نہیں چلتے۔
شاہد خاقان نے کہا کہ عدلیہ کا کام آئین کی تشریح ہے قانون بنانا نہیں، قانون بنانا پارلیمنٹ کا کام ہے، عدلیہ کو اپنی ساکھ کو برقرار رکھنا ہو گا، آج لوگ سڑکوں پر عدلیہ کے خلاف باتیں کر رہے ہیں، ٹروتھ کمیشن بنایا جائے تاکہ پتا چلے ملک میں کیا ہوتا رہا، ہرالیکشن چوری ہوا اور توقع رکھتے ہیں ملک ترقی کرے گا، ایسٹ پاکستان میں کیا ہوا ہم نے سبق حاصل کیا، آج کابینہ، سیکرٹریز فیصلے کرنے سے گھبراتے ہیں۔