اسلام آباد: (دنیا نیوز) جمیعت علمائے اسلام (ف) نے سپریم کورٹ کے باہر احتجاج کیلئے ڈی سی اسلام آباد کو درخواست جمع کروا دی۔
درخواست قانون دان سینیٹر کامران مرتضیٰ اور مفتی عبداللہ کی جانب سے جمع کرائی گئی ہے، ڈی سی اسلام آباد کو دی گئی درخواست کے متن میں کہا گیا ہے کہ پی ڈی ایم پیر کے روز سپریم کورٹ کے سامنے احتجاج کرے گی جس کی اجازت دی جائے، مظاہرے کیلئے سکیورٹی سمیت دیگر انتظامات کئے جائیں۔
ترجمان جے یو آئی اسلم غوری نے تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے باہر احتجاجی مظاہرے کیلئے ڈی سی اسلام آباد کو درخواست جمع کرا دی ہے، ہم نے اس سے قبل ملین مارچ، آزادی مارچ اور دیگر پروگرام کئے ہیں، حکومتی وزراء نے مولانا فضل الرحمان سے جگہ کی تبدیلی کے بارے میں ملاقات کی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت کی پی ڈی ایم سے سپریم کورٹ کے باہر احتجاج نہ کرنے کی درخواست
اسلم غوری نے اپنے بیان میں مزید کہا ہے کہ ہم نے انتظامیہ اور وزیر داخلہ کو بتا دیا ہے کہ ہمارا احتجاج پر امن ہوگا اور جگہ کی تبدیلی ممکن نہیں، ہمارے کارکنوں کو رضا کار کنٹرول کریں گے، کارکنوں کو ہم نے ہدایت کر دی ہے کہ سپریم کورٹ کے احاطے میں کوئی داخل نہیں ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا کوئی بھی کارکن ججز کالونی کی طرف جائے گا نہ ہی ججز کے گھروں پر حملہ آور ہوں گے، پاکستان ہمارا ملک ہے، اس کے آئین اور قانون کا تحفظ ہم کریں گے، پی ڈی ایم کی درخواست پر ڈی چوک کے آگے (پین سے) سپریم کورٹ کے سامنے تحریر کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ نے تمام پارلیمنٹیرینز کو دھرنے میں شرکت کی ہدایت کر دی
جمعیت علماء اسلام کے سیکرٹری جنرل مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا ہے کہ کچھ شرپسند عناصر غلط فہمیاں پھیلا رہے ہیں کہ دھرنے کی جگہ تبدیل کردی گئی ہے، دھرنا سپریم کورٹ کے سامنے ہی ہوگا، کارکن غلط افواہوں پر توجہ نہ دیں۔
مولانا عبدالغفور حیدری نے مزید کہا ہے کہ کارکن اطمینان کے ساتھ آئیں، شاہراہ دستور سپریم کورٹ کے سامنے ہی دھرنا ہوگا، سپریم کورٹ کے باہر دھرنا فی الحال غیر معینہ مدت کیلئے ہو گا، دھرنا ختم کرنے سے متعلق فیصلہ کل کیا جائے گا۔
ادھر اسلام آباد کی انتظامیہ نے پی ڈی ایم کو احتجاج کی اجازت دینے سے متعلق فیصلہ موخر کر دیا ہے، ضلعی انتظامیہ نے جلسے کی اجازت وزرات داخلہ کے فیصلے سے مشروط کر دی ہے، پی ڈی ایم کو احتجاج کی اجازت دینے کیلئے دفعہ 144 میں نرمی یا ختم کرنے پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔