لاہور: (ویب ڈیسک) 20 کا گروپ یا جی 20، سال 1999ء میں قائم کیا گیا تھا، تب اس کا بنیادی مقصد عالمی سطح پر مالیاتی استحکام کو یقینی بنانا تھا۔
یہ ایک ایسا بین الاقوامی گروپ تصور کیا جاتا رہا ہے جس کے رکن ممالک کے مرکزی بینکوں کے سربراہان اور وزرائے خزانہ عالمی مالیاتی پالیسیوں کو ترتیب دینے کے علاوہ اقتصادی ترقی کو یقینی بنانے کی کوششیں بھی کرتے رہے ہیں۔
اس گروپ میں دنیا کے 19 ممالک شامل ہیں جبکہ یورپی یونین کو ایک ملک کے طور پر اس میں شامل کرکے اسے "جی 20" کا نام دیا گیا ہے، جی 20 کا مقصد عالمی معیشت کے حوالے سے بنیادی امور پر تبادلہ خیال کرنا اور دنیا کو درپیش معاشی مسائل کا حل تلاش کرنا ہے۔
جی 20 سمٹ کی میزبانی اس بار بھارت کے پاس ہے جو رواں سال ستمبر میں ہونا ہے، اس سے پہلے مختلف موضوعات پر، مختلف سطح کے اجلاس ہو رہے ہیں جن میں سے ایک مقبوضہ کشمیر میں جی 20 سیاحت کے ورکنگ گروپ کا اجلاس ہے جو متنازعہ ہوگیا۔
اس کی وجہ پاکستان کی جارحانہ سفارتکاری ہے جس نے مقبوضہ کشمیر کو اپنا حصہ ثابت کرنے کی بھارتی کوشش کو خاک میں ملا دیا، چین، سعودی عرب، ترکی، انڈونیشیا اور مصر نے پاکستان کی درخواست پر اس اجلاس کا بائیکاٹ کیا۔
اس طرح متعدد رکن ممالک کی جانب سے بائیکاٹ کے باعث عالمی سطح پر کشمیر کی متنازعہ حیثیت اور بھارت کے ناجائز قبضے کے حوالے سے دنیا نے ہمارے اصولی موقف کو تسلیم کیا۔
مقبوضہ کشمیر میں جی 20 کانفرنس منعقد کروانے پر پاکستان نے بھارت کو تنبیہ کی تھی کہ ایسا کرنے کے سفارتی نتائج سامنے آئیں گے، پاکستان کی سفارتی کوششوں کی وجہ سے جن ممالک نے اپنے نمائندے اس کانفرنس میں نہیں بھیجے ان میں چین، ترکیہ، سعودی عرب، انڈونیشیا، میکسکو، مصر اور عمان شامل ہیں۔
کئی دوسرے ممالک نے بھی سفارتی نتائج بھانپتے ہوئے کانفرنس میں اعلیٰ عہدے داروں کو نہیں بھیجا، بین الاقوامی برادری کو پورا احساس ہے کہ جنوبی ایشیا میں دیرپا امن قائم کرنے کیلئے مقبوضہ کشمیر کے شہریوں کو حق خود ارادیت دینا پڑے گا۔