لاہور: (مفتی ڈاکٹر محمد کریم خان) اس کائنات ارضی میں انسانی ہدایت کیلئے اللہ تعالیٰ نے جن برگزیدہ بندوں کا انتخاب فرمایا، انہیں انبیاء و رسل کے مقدس نام سے یاد کیا جاتا ہے، پہلے نبی حضرت آدم علیہ السلام ہیں، پھر یہ کاروانِ رسالت و نبوت مختلف زمانوں اور مختلف علاقوں میں انسانی ہدایت کا فریضہ ادا کرنے کیلئے مسلسل چلتا رہا اور اپنی پاکیزہ سیرتوں کے نقوش صفحہ ہستی کے سینہ پر ثبت کرتے ہوئے تشریف لے گئے۔
آخرمیں ایک ایسے سراج منیر تشریف لائے، جس کے نور نے اس ظلمت کدہ کے جہان انسانی کی مردہ رگوں میں ایسی روح پھونکی کہ اس نور سے منور ہونے والا ہر ذرہ اپنی ذات میں نجوم سماوی کا منظر پیش کرتا نظر آتا ہے، اس بے مثل و بے مثال نبی، جس کا اسم گرامی بھی محفوظ لوح پر ایک درخشندہ ستارہ ہے، اللہ رب العزت نے اپنے بے مثل و بیمثال رسول اور باکمال نبی حضرت محمدﷺ کے اوصاف، فضائل اور خصائل کو بذات خود بیان فرمایا، اس مضمون میں آقا کریمﷺ کے خصائص و فضائل اور مقاصد کو اختصار کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے۔
انعاماتِ الہٰیہ
اللہ تعالیٰ کے انسان پر کئے گئے انعامات کی فہرست خاصی طویل اور احسانات ربانی کا شمار نا ممکن ہے، اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان یہ ہے کہ اس نے ہمیں انسان بنایا اور پھر مسلمان بنایا، آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی تمام چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے انسان کی خاطر پیدا کیا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا اور آسمان کی جانب سے پانی اتارا، پھر اس پانی کے ذریعہ سے تمہارے رزق کے طور پر پھل پیدا کئے، اس نے تمہارے لئے کشتیوں کو مسخر کر دیا، تاکہ اس کے حکم سے سمندر میں چلتی رہیں اور اس نے تمہارے لئے دریاؤں کو (بھی) مسخر کر دیا، اس نے تمہارے فائدہ کیلئے سورج اور چاند کو (باقاعدہ ایک نظام کا) مطیع بنا دیا جو ہمیشہ (اپنے اپنے مدار میں) گردش کرتے رہتے ہیں اور تمہارے لئے رات اور دن کو بھی (ایک نظام کے) تابع کر دیا‘‘ (ابراہیم 32-33)۔
احسان عظیم
ایمان والوں کیلئے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ بیشمار نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت اور اس کے عطا کردہ احسانات میں سے سب سے بڑا احسان اور اس کی بے پایاں نوازشات میں سے سب سے بڑی نوازش، رسول محتشم، شاہ بنی آدم حضرت محمد رسول اللہﷺ کی ذات گرامی ہے، اللہ تعالیٰ کے اُمت مسلمہ کیلئے قرآن اور صاحب قرآن دو ایسے انعام ہیں کہ یہ امت ان پر جتنا بھی فخر کرے وہ کم ہے۔
ارشاد ربانی ہے: ’’بیشک اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہی میں سے (عظمت والا) رسول ﷺ بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے، اگرچہ وہ لوگ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے‘‘(آل عمران:164)۔
عالمگیر رسالت
رسول اکرمﷺ کی بعثت و تشریف آوری سے قبل کم و بیش ایک لاکھ 24 ہزار انبیاء کرام اور رسولانِ عظام علیہم السلام تشریف لائے، ان تمام انبیاء کرام کی بعثت مخصوص وقت، مخصوص قوموں اور مخصوص علاقوں کیلئے تھی، مگر آخر الزماں نبی ﷺ کے وقت، علاقے اور قوموں کی حدود و قیود مٹا کر اللہ تعالیٰ نے اعلان فرمایا: ’’(اے حبیبِ مکرّم!) ہم نے آپ کوبھیجا ہے، (آپ) پوری انسانیت کیلئے خوشخبری سنانے والے اور ڈر سنانے والے ہیں لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے‘‘(سبا:28)۔
دوسرے مقام پر زبان نبوی سے اعلان کروایا: ’’آپ فرما دیں: اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول (بن کر آیا) ہوں‘‘ (الاعراف:158)۔ تیسری جگہ آپﷺ کی عالمگیر نبوت کا ذکر ان الفاظ میں کیا: ’’ (اے رسولِ محتشم)! ہم نے آپ کو تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر بھیجا‘‘ (الانبیا: 107)۔ گویا حضور نبی محتشم ﷺ کی نبوت و رسالت کسی مخصوص خطے، شہر، ملک، قوم یا نسل کیلئے نہ تھی بلکہ آپﷺ تو سارے جہان، کل کائنات،عرب و عجم، جن و انس، شاہ و گدا سب کے رسول بن کر تشریف لائے۔
ختم نبوت
حضور نبی محتشم ﷺ کی ایک اور عظمت و شان کا ذکر کرتے ہوئے خلاق عالم فرماتا ہے: ’’محمد (ﷺ) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں، لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیاء کے آخر میں (سلسلہ نبوت ختم کرنے والے) ہیں اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے‘‘ (الاحزاب: 40)، خاتم النبیین ہونے کا تذکرہ مختلف احادیث مبارکہ میں ملتا ہے، حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’میری مثال اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال اس شخص کی طرح ہے، جس نے بہت حسین و جمیل ایک گھر بنایا مگر اس کے ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی، لوگ اس گھر کے گرد گھومنے لگے اور تعجب سے یہ کہنے لگے، اس نے یہ اینٹ کیوں نہ رکھی۔
آپﷺ نے فرمایا: میں (قصر نبوت کی) وہ اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں‘‘ (صحیح بخاری:3535)، حضرت ثوبانؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’بیشک اللہ نے میرے لیے تمام روئے زمین کو لپیٹ دیا اور میں نے اس کے مشارق اور مغارب کو دیکھ لیا، عنقریب میری امت میں تیس کذاب ہوں گے، ان میں سے ہر ایک کا زعم ہوگا کہ وہ نبی ہے اور میں خاتم النبیین ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے‘‘ (ابو داؤد: 4252، صحیح بخاری: 7121)
اوصاف حمیدہ
اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی مکرمﷺ کے کچھ اوصاف حمیدہ کا قرآن مجید میں ذکر کیا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے: ’’اے نبیِ (مکرّم)! بیشک ہم نے آپ کو (حق اور خَلق کا) مشاہدہ کرنے والا، (حُسنِ آخرت کی) خوشخبری دینے والا اور (عذابِ آخرت کا) ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے، اور اس کے اِذن سے اللہ کی طرف دعوت دینے والا اور منوّر کرنے والا آفتاب (بنا کر بھیجا ہے) (الاحزاب: 45،46)۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ِﷺ کو آپﷺ کے اسم گرامی کی بجائے آپ ﷺ کی صفت نبی سے پکارا، دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کو براہ راست ان کے نام سے مخاطب کیا، مثلاً یا آدم، یا نوح، یا ابراہیم، یا موسیٰ، یا ذکریا اور یا یحییٰ، مگر پورے قرآن میں باری تعالیٰ کا انداز تکلم حضورﷺ سے یہ رہا ہے، آپ ﷺ کو براہ راست آپ ﷺکے نام سے پکارنے کی بجائے آپﷺ کے اوصاف و القابات اور صفات سے متوجہ فرمایا۔
سورۃ الاحزاب کی مذکورہ بالا آیت کریمہ میں سرور کائناتﷺ کا ایک وصف شاہد بیان کیا گیا ہے، پیر محمد کرم شاہ الازہری لکھتے ہیں، شاہد کا معنی گواہ ہے اور گواہ کیلئے ضروری ہے کہ جس واقعہ کی وہ گواہی دے رہا ہے، وہ وہاں موجود بھی ہو اور اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھے بھی، یہاں ایک چیز غور طلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ تو فرمایا: کہ ہم نے تجھے شاہد بنایا، لیکن جس چیز پر شاہد بنایا، اس کا ذکر نہیں کیا گیا، اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر کوئی ایک چیز ذکر کر دی جاتی تو شہادت نبوت وہاں محصور ہو کر رہ جاتی، یعنی حضور(ﷺ) گواہ ہیں اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی تمام صفات کمالیہ پر۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کی مذکورہ آیت کریمہ میں آپﷺ کا وصف مبشر ذکر فرمایا جس کا معنی خوشخبری سنانے والا ہے، قرآن مجید کی دیگر آیت بینات میں اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کے اس وصف کو ذکر کیا کہ آپ ایمان والوں، فرماںبرداروں، اطاعت گزاروں اور وفا شعاروں کو جنت کی خوشخبری سنانے والے ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’سو بیشک ہم نے اس (قرآن) کو آپ کی زبان میں ہی آسان کر دیا ہے تاکہ آپ اس کے ذریعہ پرہیز گاروں کو خوشخبری سنا سکیں‘‘ (مریم: 97)۔ ایمان والوں کو جنت کی بشارت دینے کا حکم دیتے ہوئے باری تعالیٰ فرماتا ہے: ’’(اے حبیب!) آپ ان لوگوں کو خوشخبری سنا دیں جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے کہ ان کیلئے (بہشت کے) باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں‘‘ (البقرہ:25)
مذکورہ آیت میں آپ ﷺ کا ایک لقب ’’نذیر‘‘ بیان کیا گیا، جس کا معنی ہے اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرانے والا، آپ ﷺ مشرکوں، کافروں، نافرمانوں اور منکروں کو عذاب الٰہی سے ڈرانے والے ہیں۔
قرآن مجید میں آپﷺ کا ایک وصف ’’داعی الی اللہ‘‘ بیان کیا گیا، جس کا مطلب لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے والا ہے، ارشادباری تعالیٰ ہے: اس کے اِذن سے اللہ کی طرف دعوت دینے والا اور منوّر کرنے والا آفتاب (بنا کر بھیجا ہے)‘‘ (الاحزاب: 46)۔
بعثت نبویﷺکے مقاصد
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں مختلف مقامات پر بعثت نبوی ﷺ کے مقاصد کو بیان کیا ہے، جدالانبیاء حضرت سیدنا ابراہیم اور ان کے صابر و شاکر صاحبزادے حضرت اسماعیل علیہما السلام نے کعبۃ اللہ کی تعمیر سے فارغ ہو کر سرور دو عالم ﷺ کے بارے میں جو دعا مانگی تھی، انہیں چیزوں کا حسین گلدستہ دے کر اللہ تعالیٰ نے حضورﷺ کو مبعوث فرمایا۔
دعائے ابراہیمی کے الفاظ قرآن مجید میں اس طرح ذکر ہوئے: ’’اے ہمارے رب! ان میں انہی میں سے (وہ آخری اور برگزیدہ) رسول (ﷺ) مبعوث فرما، جو ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان (کے نفوس و قلوب) کو خوب پاک صاف کر دے، بیشک تو ہی غالب حکمت والا ہے‘‘(البقرہ:129)۔
دعائے ابراہیمی میں بیان کردہ اوصاف سے ملتے جلتے الفاظ اور آپﷺ کی بعثت کے انہیں چار مقاصد کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’وہی ہے جس نے اَن پڑھ لوگوں میں، انہی میں سے ایک (باعظمت) رسول (ﷺ) کو بھیجا، وہ اُن پر اس کی آیتیں پڑھ کر سناتے ہیں، ان (کے ظاہر و باطن) کو پاک کرتے ہیں اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں، بیشک وہ لوگ اِن (کے تشریف لانے) سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے‘‘(الجمعہ:2)۔ آیات بینات میں حضور نبی اکرمﷺ کی بعثت کے مقاصد کو بیان کیا گیا ہے جو کہ حسب ذیل ہیں: (1) قرآن کی تلاوت کرنا، (2) قرآن کو سمجھانا، (3) حکمت سمجھانا، (4) دلوں کو پاک کرنا۔
آسمانی کتابوں (تورات، انجیل) میں آپ ﷺ کی تشریف آوری کے متعلق بشارتیں دی گئیں، قرآن مجید میں ان کا ذکر کرتے ہوئے آپ ﷺ کی تشریف آوری کا ذکر یوں آیا ہے: ’’(یہ وہ لوگ ہیں) جو اس رسول (ﷺ) کی پیروی کرتے ہیں، جو اْمّی نبی ہیں، جن (کے اوصاف و کمالات) کو وہ لوگ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں، جو انہیں اچھی باتوں کا حکم دیتے، بری باتوں سے منع فرماتے ہیں، ان کیلئے پاکیزہ چیزوں کو حلال کرتے ہیں، ان پر پلید چیزوں کو حرام کرتے ہیں، پس جو لوگ اس (برگزیدہ رسولﷺ) پر ایمان لائیں گے، ان کی تعظیم و توقیر کریں گے ، ان (کے دین) کی مدد و نصرت کریں گے اور اس نورِ (قرآن) کی پیروی کریں گے، جو ان کے ساتھ اتارا گیا ہے، وہی لوگ ہی فلاح پانے والے ہیں‘‘ (الاعراف: 157)
مفتی ڈاکٹر محمد کریم خان صدر اسلامک ریسرچ کونسل ہیں، 20 سے زائد کتب کے مصنف ہیں، ان کے ایچ ای سی سے منظور شدہ 25 مقالے بھی شائع ہوچکے ہیں۔