قلعہ بلتت…. باپ کی بیٹی سے محبت کی نشانی

Published On 02 October,2023 03:33 pm

لاہور: (خاور نیازی) برصغیر پاک و ہند کی تاریخ کو یہ انفرادیت حاصل رہی ہے کہ یہاں کے بادشاہ اور حکمران اپنے پیاروں کیلئے محل، قلعے اور یادگار عمارتیں تعمیر کیا کرتے تھے جو ان کی محبت اور عقیدت کی علامت ہوا کرتے تھے، تاریخ پاک و ہند ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جن میں تاج محل، نور محل قابل ذکر ہیں۔

قیام پاکستان سے بھی پہلے رنجیت سنگھ کے دور حکومت میں بھی ایک ایسی عمارت کا ذکر ملتا ہے جو لاہور میں رنجیت سنگھ حکومت کے ایک فرانسیسی جنرل الارڈ نے اپنی ایک سکھ بیوی بانو پانڈے، جسے فرانسیسی میں ’’پان دائے‘‘ کہتے تھے کی محبت میں اس کی زندگی ہی میں فرانسیسی شہر سینٹ ٹروپاز کے ساحل پر واقع ایک ’’سٹیٹ آف دا آرٹ‘‘ محل تعمیر کرایا تھا، یہ محل اپنی تعمیر اور محل وقوع کی وجہ سے ایک شاہکار سمجھا جاتا تھا۔

اس محل کی خوبصورتی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جنرل الارڈ کی موت کے بعد الارڈ فیملی نے اسے ایک پرتعیش فائیو سٹار ہوٹل میں بدل دیا تھا، جس کے بارے کہا جاتا ہے کہ اس کا شمار اب بھی دنیا کے مہنگے ترین ہوٹلوں میں ہوتا ہے، یہاں سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ جنرل الارڈ تو اب بھی لاہور میں دفن ہیں لیکن ان کی چہیتی بیوی پان دائے فرانس میں ابدی نیند سو رہی ہے۔

اسی طرح پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں قراقرم کے پہاڑی سلسلے میں واقع ایک ایسے تاریخی قلعے کا ذکر ملتا ہے جو یہاں کے ایک حکمران نے اپنی ایک چہیتی بیٹی کی خواہش پر اس کے سسرال میں تعمیر کرا کر دیا تھا، اب گلگت بلتستان ایک الگ صوبے کی شناخت سے جانا جاتا ہے جبکہ تاریخی اعتبار سے بلتستان کئی سو سال قبل تبت کا حصہ ہوا کرتا تھا یہ اس زمانے کی بات ہے جب لداخ بھی تبت کے زیر اثر ہوا کرتا تھا، شاید یہی وجہ ہے کہ بلتستان کو مقامی طور پر اب بھی ’’چھوٹا تبت‘‘ کہا جاتا ہے۔

قلعہ بلتت کب اور کیسے بنا
آج سے لگ بھگ 800 سال پہلے وادی ہنزہ کے حکمران شہزادہ ایاشو ثانی، جو ایاشو خاندان کے چوتھے ولی عہد تھے کی شادی بلتستان کے حکمران راجہ ابدال کی بیٹی شاہ خاتون سے طے پائی تو شہزادی کی رہائش کیلئے قلعہ بلتت کا انتخاب ہوا۔

قلعہ بلتت کی تاریخ بارے دو قسم کی آرا پائی جاتی ہیں، ایک یہ کہ یہ قلعہ بادشاہ راجہ ابدال نے اپنی بیٹی شاہ خاتون کو جہیز میں بنوا کر دیا تھا، دوسری روایت یہ ہے کہ ’’قلعہ بلتت‘‘ تو آج سے 1100 سال پہلے سے تعمیر شدہ تھا لیکن یہ نہ صرف رہائشی اعتبار سے محدود تعمیرات بلکہ ایک منزلہ عمارت پر مشتمل تھا، شہزادی کی خواہش کے پیش نظر راجہ ابدال نے اپنی چہیتی بیٹی کی خواہش پر جہیز کے ساتھ ہی کاریگروں کی ایک ٹیم بھی وادی ہنزہ روانہ کی تاکہ شہزادی کی خواہش کے عین مطابق قلعہ بلتت کی ازسر نو تعمیر اور توسیع کی جا سکے۔ واقفان حال کے مطابق شہزادی شاہ خاتون بعد میں ہنزہ کی رانی بھی بنیں۔

اس قلعہ کی تعمیر بارے سینہ بہ سینہ کئی روایات منسوب ہیں جو وہاں کے باسی اور تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے بیان کرتے ہیں، ایک روایت یہ ہے کہ یہ قلعہ لگ بھگ 800 سال پہلے تعمیر کیا گیا تھا جبکہ ایک روایت یہ ہے کہ اس کی تعمیر 1100 سالہ پرانی ہے، تاہم تجزیہ دان اس عرصہ کو اس لئے مستند مانتے ہیں کہ چند سال پہلے قلعہ بلتت بارے جو ’’کاربن ڈیٹنگ‘‘ تحقیق ہوئی تھی اس سے یہ پتہ چلا ہے کہ اس تعمیر سے پہلے بھی یہاں کوئی تعمیر تھی۔

ماہرین کے مطابق اس تحقیق سے اس قیاس کو اور بھی تقویت ملتی ہے جس کے مطابق قلعہ کی تعمیر جو بنیادی طور پر ایک منزلہ تھی لگ بھگ 1100 سال قدیم ہے جبکہ اس کی توسیع جو شہزادی کی شادی کے بعد ہوئی تھی، وہ اب تین منزلوں پر مشتمل ہے۔

کچھ لوک روایات سے پتہ چلا ہے کہ بلتستان سے آنے والے ماہرین تعمیرات یہ عہد لے کر بھیجے گئے تھے کہ انہیں ہر صورت شہزادی کی خواہشات کے مطابق ایک آرام دہ محل کم سے کم وقت میں تعمیر کرنا ہے، جس کیلئے انہوں نے دن رات ایک کر کے ریکارڈ مدت میں یہ محل تعمیر کیا تھا۔

بلتستان کا تاریخی اعتبار سے تبت سے گہرا تعلق رہا ہے، اسی لئے ان دونوں علاقوں کے تہذیب و تمدن، طرز رہائش اور رسم و رواج میں خاصی مماثلت نظر آتی ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ قلعہ بلتت اور تبت کے شہر لاسا میں واقع دلائی مامہ کی سابقہ رہائش گاہ ’’پوٹالہ محل‘‘ میں حیران کن حد تک مماثلت پائی جاتی ہے، ان دونوں محلوں کو دیکھ کر لگتا ہے جیسے ان کو ایک ہی ماہر تعمیرات نے تعمیر کیا ہو، حالانکہ پوٹالہ محل، بلتت قلعہ کی تعمیر کے لگ بھگ 400 سال بعد تعمیر ہوا تھا۔

ان دونوں محلوں میں ایک اور چیز مشترک ہے کہ دونوں پہاڑ کی بلند ترین چوٹیوں پر تعمیر ہوئے تھے، مورخین اس کی وجہ دشمن کے حملوں سے بچاؤ قرار دیتے ہیں۔

اس قلعہ میں ہے کیا؟
دریائے ہنزہ کے دوسری جانب نظر دوڑائیں تو بلند و بالا پہاڑوں کے دامن اپنی پوری آب و تاب سے نظر آنے والی پرشکوہ تین منزلہ یہ عمارت دراصل ’’قلعہ بلتت‘‘ کی عمارت ہے، اس قلعہ کے 62 دروازے اور 53 کمرے ہیں، اس قلعہ کو جا بجا لکڑی کے روایتی کاموں سے سجایا گیا ہے، بڑی بڑی کھڑکیاں، کشادہ دریچے، برآمدوں کے ستون اور گیلریاں ماہر کاریگروں کے لکڑی سے بنے نقش و نگار ان کے فن کمال کی گواہی دیتے نظر آتے ہیں۔

اس قلعہ کی پہلی منزل چاروں طرف سے کھلی ہے، دوسری منزل میں ایک مہمان خانہ اور شاہی دربار موجود ہے، اس بڑے سے ہال نما دربار میں ہنزہ کے حکمران دربار لگایا کرتے تھے، دلچسپ بات یہ ہے کہ اس منزل پر شاہی دربار کو سیاحوں کیلئے جوں کا توں اب بھی محفوظ رکھا گیا ہے اور سیاحوں کو یہاں بیٹھنے کی اجازت اب بھی نہیں ہے۔

تیسری منزل پر حکمرانوں کے رہائشی کمرے بنے ہوئے ہیں اور یہیں پر ایک بڑا سا سوراخ فریادیوں کیلئے آج بھی نظر آتا ہے، جہاں نیچے کھڑے ہو کر فریادی پہلے بادشاہ کی خدمت میں نذرانہ پیش کرتے جو عام طور پر اجناس کی شکل یا خشک میوہ جات کی صورت میں ہوا کرتا تھا، سب سے نچلی منزل پر گودام اور کھانے پینے کی اشیاء ذخیرہ کرنے کیلئے بہت سارے کمرے بنائے گئے تھے جبکہ اس کے تہہ خانے کو بطور جیل استعمال کیا جاتا تھا۔

اس قلعہ کی خوبصورتی کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ اگر چاندنی رات کے دوران اس قلعہ کا دورہ کیا جائے تو وادی ہنزہ کے سحر انگیز منظر کے علاوہ سامنے بلند و بالا راکا پاشی پہاڑ نظر آتا ہے جو پہلی نظر میں دیکھنے والوں کو اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے۔

قلعہ کے بارے کچھ اور
1945ء تک یہ قلعہ ہنزہ کے حکمرانوں کی رہائش کے طور پر استعمال ہوتا آیا ہے جبکہ 1990ء میں ہنزہ کے آخری حکمران کے بیٹے نے قلعے کو باقاعدہ طور پر ’’بلتت ہیریٹج ٹرسٹ‘‘ کے حوالے کر دیا۔

اس کے بعد آغا خان ٹرسٹ نے امریکہ اور ناروے حکومت کے تعاون سے 1996ء میں اس کی بحالی کا کام شروع کیا، 2004ء میں اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے اس کو بحالی کے بہترین ایوارڈ سے نوازا۔

قلعہ میں موجود میوزیم میں اس قلعے اور اس خطے سے جڑے نوادرات کے علاوہ مختلف ادوار کے حکمرانوں اور رانیوں کے ملبوسات، اسلحہ، آلات موسیقی اور لوہے کے برتن رکھے ہوئے ہیں، اس کے علاوہ یہاں کے باورچی خانہ میں قدیم دور کے لوہے کے برتنوں میں ہر ماہ چاند کی 14 تاریخ کو سیاحوں کو معاوضے کے عوض شاہی دسترخوان پر روائتی کھانے پیش کئے جاتے ہیں۔

خاور نیازی سابق بینکر اور لکھاری ہیں، قومی اور بین الاقوامی اداروں سے منسلک رہ چکے ہیں۔