قائد ملت لیاقت علی خانؒ

Published On 16 October,2023 03:12 pm

لاہور: (محمد ارشد لئیق) کچھ لوگ اپنی اعلیٰ صفات اور لائق تحسین خدمات کی بدولت مرنے کے بعد بھی زندہ رہتے ہیں، پاکستان کے پہلے وزیراعظم خان لیاقت علی خانؒ مرحوم کا شمار قوم کے ان عظیم محسنوں میں ہوتا ہے جو مرنے کے بعد بھی زندہ ہیں اور جن کے قدموں کے نشان آنے والی نسلوں کیلئے چراغ راہ کا کام دیتے ہیں بلکہ تاریخ کے صفات میں ان کے اسمائے گرامی اور ناقابل فراموش کارنامے چاند تاروں کی طرح جھلملاتے ہیں۔

دنیا میں آٹے میں نمک کے برابر خال خال شخصیات ایسی ہوتی ہیں جنہیں یاد کرنے پر زمانہ مجبور ہوتا ہے، شہید ملتؒ آج بھی لوگوں کے دلوں میں دھڑکتے ہیں، ہر صبح جب سورج کی پہلی کرنیں کرہ ارض پر پڑتی ہیں تو ان کی یاد پھیل جاتی ہے، جیسے کہتی ہو:

میں اگر جا سکا نہ منزل تک
عجز سے لوٹ کر نہ آؤں گا
یا بگولوں کا روپ لے لوں گا
یا شعاؤں میں پھیل جاؤں گا

واقعی یہ ہیں ہمارے قائد ملت، جو ملت کی نبض اور دل میں دھڑکتے ہیں، اس سچائی میں شک کی ہرگز گنجائش نہیں ہے کہ شہید ملت کو ایک عظیم ترین قومی ہیرو کا اونچا درجہ حاصل ہے، تحریک پاکستان کے اوّلین لمحات سے آج تک اور آنے والے زمانوں میں بھی وہ عوام کے قلب و روح پر حکمرانی کرتے رہیں گے، ان کی عوامی سوچ، پروقار منکسر المزاجی، ٹھاٹھ باٹھ، روایتی سرمایہ دارانہ لائف سٹائل اختیار کرنے سے مستقل پرہیز، درویشانہ طرز زندگی، غریبوں سے محبت پر مبنی کردار ادا کرنا یہ سب کچھ عوام کو دل و جان سے پسند تھا۔

غیرت مند معاشرے کے ہر فرد کا ایک نصب العین ہوتا ہے کیونکہ وہ ایک خاص مقصد حیات کی خاطر زندہ رہتا ہے، وہ اپنے نظریہ کی خاطر تمام زندگی سربکف رہتا ہے اور وقت آنے پر اپنے مقصد حیات کی تکمیل پر جان بھی نچھاور کر دیتا ہے، شاعر مشرق، علامہ محمد اقبالؒ نے ملت اسلامیہ کے ماحول، معاشرے اور فکر کی کیا خوب ترجمانی کی تھی!

شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت، نہ کشور کشائی

اس خوبصورت شعر میں پنہاں فلسفے کی روح اور مفہوم و معنی کی روشنی میں جو عظیم تر خوبصورت شخصیت اجاگر ہوتی ہے، اس کا نام نواب زادہ لیاقت علی خان ہے، ان کا وجود انقلابی شعر کی وہ عملی شکل ہے، جس پر نہ صرف اہل پاکستان بلکہ تمام اسلامیان عالم ناز کرتے ہیں، وہ مملکت خدا داد پاکستان کے اوّلین وزیراعظم، عوام کے محبوب ترین قائد اور قائد اعظمؒ کے دست راست و جانشین تھے۔

شہید ملت تحریک پاکستان کے ایک نڈر مجاہد، پرجوش رہنما اور قائد اعظم ؒ کے معتمد خاص، دست راست اور پوری قوم کے ہر دلعزیز قائد تھے، جب تک زندہ رہے قوم نے ان کی لازوال خدمات کے اعتراف میں انہیں ’’قائد ملت‘‘ کے نام سے پکارا، ملک دشمن عناصر نے 16 اکتوبر 1951ء کو انہیں اپنے ناپاک عزائم کا نشانہ بنا کر موت کے منہ میں دھکیل دیا۔

وہ قائد اعظمؒ کے حلقہ احباب کے ایک رکن تھے، ضلع کرنال کے ایک نواب گھرانے سے ان کا تعلق تھا، نوابی ماحول میں ہی انہوں نے 1896ء میں آنکھ کھولی اور بچپن کا دور گھر میں ہی ابتدائی تعلیم حاصل کرتے ہوئے گزارا، مزید تعلیم حاصل کرنے کے شوق نے علیگڑھ کی راہ دکھائی، جہاں سے 1919ء میں بی اے کی ڈگری حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کیلئے انگلستان چلے گئے جہاں آکسفورڈ سے 1921ء میں ایم اے کیا، 1922ء میں بیرسٹری کی سند حاصل کر کے برطانیہ سے وطن واپس تشریف لائے اور ملی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کر دیا۔

1922ء میں وہ باقاعدہ مسلم لیگ میں شامل ہوگئے، 1926ء میں یو پی کی مجلس قانون ساز کے ممبر کی حیثیت سے منتخب ہوئے لیکن لیاقت علی خان کے اصل جوہر اس وقت کھلے جب قائد اعظمؒ کی زیر قیادت آل انڈیا مسلم لیگ کا نیا دورشروع ہوا، آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس ممبئی میں 1936ء کے دوران منعقد ہوا تھا، اس میں قائد اعظمؒ نے خود یہ تجویز پیش کی تھی کہ لیاقت علی خان کو جو اس وقت یو پی لیجسلیٹو کونسل کے نائب صدر تھے، 3 سال کیلئے اعزازی جنرل سیکرٹری مقرر کیا جائے۔

1938ء میں مسلم لیگ کا خصوصی اجلاس کولکتہ میں منعقد ہوا تھا، مولوی فضل الحق نے اس میں خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے واضح طور پر کہا تھا کہ لیاقت علی خانؒ نے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی داستان حقائق کی روشنی میں بیان کی ہے لیکن کانگریس نے اس کا مذاق اڑایا ہے، اگر اس ظلم کا 100 واں حصہ بھی ہندوؤں پر ہوتا تو کانگریس گنگا کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک آگ لگا دیتی، اسی سال پٹنہ میں اجلاس منعقد ہوا جس میں لیاقت علی خانؒ کو دوبارہ آل انڈیا مسلم لیگ کا جنرل سیکرٹری منتخب کیا گیا اور قیام پاکستان سے قبل تک قائد اعظمؒ مسلم لیگ کے مسلسل صدر رہے اور لیاقت علی خانؒ جنرل سیکرٹری منتخب ہوتے رہے۔

ہندوستان میں انگریزوں کے طویل دورِ حکومت کے آخری سال وزارتِ خزانہ کی باگ ڈور مسلم لیگی رہنما لیاقت علی خانؒ کے ہاتھ آئی، انہوں نے ماضی کے عوام دشمن نو آبادیاتی میزانیوں کا رخ یکسر بدل دیا اور آزادی کے بعد قائم ہونے والی نئی حکومتوں کیلئے عوام دوست مالی پالیسیوں کی داغ بیل ڈالی، اس حوالے سے تحریکِ پاکستان کے دنوں کی ایک چشم کشا دستاویز وہ مشہور و معروف بجٹ ہے جو غیر منقسم ہندوستان کے مسلم لیگی وزیرِ خزانہ لیاقت علی خان نے 28 فروری 1947ء کو پیش کر کے غلام ہندوستان کی استحصالی اور طبقاتی تقسیم پر مبنی معاشی زندگی میں ارتعاش پیدا کر دیا تھا، تاریخ میں اس بجٹ کو غریبوں کے بجٹ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، اس کی تمام پالیسیوں کا رخ امیروں سے دولت لے کر غریبوں کی طرف منعطف کرنا تھا۔

لیاقت علی خان نے یہ بجٹ غیر منقسم برطانوی ہندوستان کی لیجسلیٹو اسمبلی میں 28 فروری 1947ء کو پیش کرتے ہوئے واضح طور پر اعلان کیا کہ وہ قرآن مجید کے اس فرمان پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ ’’دولت کو دولت مندوں کے مابین گھومنے کی اجازت نہ دی جائے اور سرمائے کو چند افراد کے ہاتھوں میں مرتکز ہونے سے بچایا جائے ( سورہ الحشر:7)۔

اس سلسلے میں جن اصولوں کو سامنے رکھ کر بجٹ کی تجاویز مرتب کی گئیں، ان میں نمایاں اصول یہ تھا کہ تعمیروترقی کے منصوبے اور تجاویز اس طرح تیار کئے جائیں کہ خوشحال طبقوں سے وسائل لے کر غریبوں کی فلاح و بہبود پر خرچ ہوں، ان کی آمدنیوں اور روزگار میں اضافہ ہو اور ان پر ٹیکسوں کا بوجھ کم ہو، یہ امر باعثِ دلچسپی ہوگا کہ لیاقت علی خان کے بجٹ پر جہاں غریبوں اور زیر دستوں نے بے پناہ خوشی کا اظہار کیا، وہاں پنڈت نہرو، سردار پٹیل اور دیگر کانگرسی لیڈر شدید پریشان ہوئے کیونکہ اس بجٹ کی ضرب ہندو سرمایہ داروں پر پڑتی تھی جو کانگرس کی مالی پشت پناہی کرتے تھے۔

قیام پاکستان کے بعد لیاقت علی خانؒ نے وزیراعظم اور وزیر دفاع کی حیثیت سے ملکی دفاع کو مستحکم کرنے کا بیڑا اٹھایا تھا اور اس سلسلہ میں ہندوستان سے فوجی اثاثوں کی تقسیم کو اپنی ذاتی نگرانی میں ممکن بنایا تھا، قیام پاکستان کے بعد لیاقت علی خانؒ کی زندگی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے اس دور میں انہوں نے اپنی عمر کا بہترین حصہ قائد اعظمؒ کی معیت میں گزرا۔ پاکستان قائم ہوئے ابھی سال ہی گزرا تھا کہ پاکستان کے بانی قائد اعظم محمد علی جناحؒ 11 ستمبر 1948ء کو اس عالم فانی سے عالم جادوانی کی طرف سدھار گئے۔

داعی اجل کی آواز پر لبیک کہنے والے اس عظیم انسان کا انتقال پاکستان کی نئی مملکت اور پاکستانیوں کیلئے نئے نئے مصائب کا پیش خیمہ ثابت ہوا، ادھر بھارت نے حیدر آباد پر حملہ کر دیا، ایسے میں صرف لیاقت علی خانؒ ہی کی واحد شخصیت تھی جس نے غم قائد سے نڈھال پاکستانیوں کو ہمت و جرات دلائی اور انہیں صبر و شکر کے ساتھ میدان عمل میں سرگرم ہونے کی برابر تلقین کرتے رہے۔

قائد ملت نے ایسے میں بصیرت سے کام لے کر مملکت پاکستان کے گورنر جنرل کی کمان تو خواجہ ناظم الدین کے ہاتھوں میں دی اور خود مملکت کے دورے پر نکل گئے، قائد ملت لیاقت علی خان نے کمال جواں ہمتی سے کام لیا اور جہاں بھی گئے اپنے ولولہ انگیز خطابات سے عوام میں قومی اتحاد اور یک جہتی کی اس روح کو از سر نو تازہ کیا جو بابائے ملت حضرت قائد اعظمؒ کی وفات سے مایوسی و افسردگی کا رنگ اختیار کر چکی تھی، قائد ملت لیاقت علی خانؒ کا یہ اعجاز ہے جسے پاکستانی قوم کسی صورت فراموش نہیں کر سکتی۔

یہی نہیں ایک سچے مسلمان اور درد دل رکھنے والے انسان کی طرح لیاقت علی خانؒ کی سب سے بڑی خواہش اس وقت عالم اسلام کو متحد دیکھنے کی تھی اسی عزم کی ترجمانی کیلئے انہوں نے کراچی میں فلسطین کے مفتی اعظم سید امین الحسینی کی زیر صدارت عالم اسلامی کا اجلاس طلب کیا، اخوت اسلامی کو زندہ رکھنے اور پاکستان کو اسلامی ممالک سے متعارف کرانے کا یہ بڑا قدم تھا اور اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کا دل خدمت اسلام کے جذبے سے کس قدر معمور تھا۔

وہ نواب زادہ تھے، دہلی میں ان کی جائیداد تھی، کرنال میں جاگیر تھی لیکن پاکستان میں کوئی ذاتی گھر تھا نہ جائیداد۔ شہادت کے وقت ان کے بنک میں صرف چند روپے تھے، اس قلندر کا ذکر کرتے ہوئے قائد اعظمؒ نے آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس کراچی میں 26 دسمبر 1943ء کو فرمایا تھا ! ’’اگرچہ وہ ایک نواب زادہ ہیں لیکن عوام الناس میں سے ایک ہیں، مجھے امید ہے کہ اور نواب بھی ان کی مثال بنیں گے‘‘

ان کے دور وزارت عظمیٰ میں پاکستان کے تمام مرکزی بجٹ اضافی آمدنی کے تھے، نیز تجارت کے شعبے میں بھی توازن پاکستان کے حق میں تھا، امور خارجہ میں لیاقت علی خانؒ نے مغرب اور اس کی ایک سپر طاقت کی مخالفت کے باوجود عوامی جمہوریہ چین کی نوزائیدہ ریاست کو نہ صرف تسلیم کیا تھا بلکہ سفارتی تعلقات بھی قائم کر دیئے تھے۔

لیاقت نہرو پیکٹ انسانی حقوق سے جڑی ہوئی لیاقت علی خانؒ کی خارجہ پالیسی کا اہم ستون ہے، لیاقت علی خانؒ نے امریکہ کی خواہش کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے ایران کی تیل کی صنعت امریکہ کو دلانے اور کوریا کی جنگ میں افواج پاکستان کو بھیجنے سے انکار کر کے مکمل غیر وابستہ و غیر جانبدارانہ خارجہ پالیسی کو برقرار رکھا تھا، یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان نے دوسری جنگ عظیم کی وجہ سے جاپان پر عائد تاوان کی رقم جو پاکستان کے حصہ میں آئی تھی معاف کر دی تھی۔

16 اکتوبر 1951ء کو جب ان کا طیارہ چکلالہ ایئر پورٹ پر پہنچا تو ان کا فقید المثال استقبال کیا گیا، تلاوتِ کلام پاک کے بعد جب وہ سٹیج پر پہنچے اور تقریر کا آغاز کرتے ہوئے ابھی انہوں نے ’’برادران ملت‘‘ ہی کہا تھا کہ بد بخت سید اکبر کی گولی کا نشانہ بن گئے، ان کے اگلے الفاظ یہ تھے’’مجھے گولی لگ گئی ہے، خدا پاکستان کی حفاظت کرئے‘‘ اور کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے زندگی کی آخری ہچکی لی۔

مادر وطن پر جان نچھاور کرنے کا جو سچا وعدہ قائد ملت نے کیا تھا پورا کر دکھایا، انہوں نے کہا تھا کہ وقت پڑنے پر میں اپنی جان اپنی قوم و وطن کی آبرو پر قربان کر دوں گا اور انہوں نے اپنے کہے کو سچ کر دکھایا۔

لیاقت علی خان کے قتل کا سانحہ ہماری قومی تاریخ کا ایسا المیہ ہے جن پر جس قدر افسوس کیا جائے کم ہے، انہیں اس دنیائے فانی سے رخصت ہوئے طویل عرصہ گزر چکا ہے اور ان کے قتل کا معمہ آج تک حل نہیں ہوسکا ہے، ان کی شہادت کے موقع پر قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری مرحوم نے درست کہا تھا۔

مسلمانوں کا محسن تھا لیاقت
مسلمانوں نے اس کو مار ڈالا

محمد ارشد لئیق سینئر صحافی ہیں اور روزنامہ دنیا کے شعبہ میگزین سے وابستہ ہیں۔