الیکشن لڑنے کی اہلیت کے مطابق تو قائداعظم بھی نااہل ہو جاتے: چیف جسٹس

Published On 02 January,2024 01:16 pm

اسلام آباد: (دنیا نیوز) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ الیکشن لڑنے کی اہلیت کے مطابق تو قائداعظم بھی نااہل ہو جاتے۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 7 رکنی لارجر بنچ نے تاحیات نااہلی کیس کی سماعت کی۔

عدالت عظمیٰ کے لارجر بنچ میں چیف جسٹس آف پاکستان کے علاوہ جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بھی شامل تھے۔

سماعت کا آغاز

سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی سزا 5 سال کرنے کی قانون سازی کو سپورٹ کر رہے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ تاحیات نااہلی کے فیصلے پر نظر ثانی ہونی چاہیے، انہوں نے آرٹیکل62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کی تشریح کے فیصلے کے دوبارہ جائزے کی استدعا کردی۔

الیکشن ایکٹ کی تائید

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل! آپ کا مؤقف کیا ہے کہ الیکشن ایکٹ چلنا چاہیے یا سپریم کورٹ کے فیصلے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ عدالت سے درخواست ہے کہ تاحیات نااہلی کے فیصلے کا دوبارہ جائزہ لے، الیکشن ایکٹ کی تائید کروں گا کیوں کہ یہ وفاق کا بنایا گیا قانون ہے۔

دوران سماعت میر بادشاہ قیصرانی کے خلاف درخواست گزار کے وکیل ثاقب جیلانی نے بھی تاحیات نااہلی کی مخالفت کردی۔

وکیل نے کہا کہ میں نے 2018 میں درخواست دائر کی جب62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کا فیصلہ آیا، اب الیکشن ایکٹ میں سیکشن232 شامل ہوچکا ہے اس لیے تاحیات نااہلی کی حد تک استدعا کی پیروی نہیں کررہا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ الیکشن ایکٹ 2017 کو کیا کسی نے عدالت میں چیلنج کیا؟، جس پر درخواست گزار کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ الیکشن ایکٹ کو کبھی بھی کسی کے عدالت میں چیلنج نہیں کیا، چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا کوئی ایسی صوبائی حکومت ہے جو الیکشن ایکٹ 2017 کی مخالفت کرے، جس پر صوبائی ایڈووکیٹ جنرلز نے عدالت میں مؤقف دیا کہ تمام صوبائی حکومتیں الیکشن ایکٹ 2017 کو سپورٹ کر رہی ہیں۔

اس موقع پراٹارنی جنرل نے آئین کا آرٹیکل 62،63 پھر کر سنادیا، اٹارنی جنرل نے رکن پارلیمنٹ بننے کے لیے اہلیت اور نااہلی کی تمام آئینی شرائط پڑھ کر سنا دیں، اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کاغذات نامزدگی کے وقت سے 62 اور 63 دونوں شرائط دیکھی جاتی ہیں، انٹری پوائنٹ پر دونوں آرٹیکل لاگو ہوتے ہیں۔

اسلامی تعلیمات کا اچھا علم رکھنا بھی ایک شق ہے: چیف جسٹس

چیف جسٹس نے کہا کہ کچھ شقیں تو حقائق سے متعلق ہیں وہ آسان ہیں، کچھ شقیں مشکل ہیں جیسے اچھے کردار والی شق، اسلامی تعلیمات کا اچھا علم رکھنا بھی ایک شق ہے، پتا نہیں کتنے لوگ یہ ٹیسٹ پاس کرسکیں گے؟ الیکشن ایکٹ کی یہ ترمیم چیلنج نہیں ہوئی، جب ایک ترمیم موجود ہے تو ہم پرانے فیصلے کو چھیڑے بغیر اس کو مان لیتے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ تاثر ایسا ہو سکتا ہے کہ ایک قانون سے سپریم کورٹ فیصلے کو اوور رائٹ کیا گیا، چیف جسٹس نے کہا کہ تو کیا اب ہم سمیع اللہ بلوچ کے فیصلے کو دوبارہ دیکھ سکتے ہیں؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ سمیع اللہ بلوچ کیس میں عدالت نے ایک نقطے کو نظر انداز کیا، عدالت نے کہا کرمنل کیس میں بندہ سزا کے بعد جیل بھی جاتا ہے اس لیے نااہلی کم ہے، عدالت نے یہ نہیں دیکھا ڈیکلیریشن 62 ون ایف اور کرمنل کیس دونوں میں ان فیلڈ رہتا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم تو گناہ گارہیں اور اللہ سے معافی مانگتے ہیں، آرٹیکل 62 میں نااہلی کی مدت درج نہیں بلکہ یہ عدالت نے دی۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ جب تک عدالتی فیصلے موجود ہیں تاحیات نااہلی کی ڈکلیئریشن اپنی جگہ قائم ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن ایکٹ بھی تو لاگو ہوچکا ہے اور اس کو چیلنج بھی نہیں کیا گیا، جسٹس منصور نے ریمارکس دیئے کہ سوال یہ ہے کہ کیا ذیلی آئینی قانون سازی سے آئین میں ردوبدل ممکن ہے؟

نااہلی کی مدت کا تعین آئین میں نہیں اس خلا کو عدالتوں نے پر کیا: جسٹس قاضی فائز

چیف جسٹس نے کہا کہ نااہلی کی مدت کا تعین آئین میں نہیں، اس خلا کو عدالتوں نے پر کیا، جسٹس منصور علی شاہ نے اس موقع پر اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ سوال یہ ہے کہ کیا الیکشن ایکٹ میں دی گئی نااہلی کی مدت آئین سے زیادہ اہم تصور ہو گی؟ آرٹیکل 63 کی تشریح کا معاملہ ہے، سنگین غداری کرے تو الیکشن لڑ سکتا ہے، سول کورٹ سے معمولی جرائم میں سزا یافتہ الیکشن نہیں لڑ سکتا، کیا سپریم کورٹ کے فیصلے کو ختم کرنے کے لیے آئین میں ترمیم کرنی پڑے گی؟ کیا آئین میں جولکھا ہے اسے قانون سازی سے تبدیل کیا جاسکتا ہے؟

معمولی وجوہات کی بنیاد پرتاحیات نااہلی غیرمناسب نہیں لگتی؟ جسٹس منصور

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف میں نااہلی کی میعاد کا ذکرنہیں ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا جب تک عدالتی فیصلہ موجود ہے نااہلی تاحیات رہے گی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ قتل اورملک سے غداری جیسے سنگین جرم میں آپ کچھ عرصے بعد انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں، انہوں نے استفسار کیا کہ معمولی وجوہات کی بنیاد پرتاحیات نااہلی غیرمناسب نہیں لگتی؟، عدالت کسی شخص کے خلاف ڈیکلیئریشن کیسے دے سکتی ہے؟ جسٹس محمد علی مظہر نے پوچھا کہ کیا سپریم کورٹ نے ڈیکلئیریشن ازخود اختیار استعمال کر کے دی؟

چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 62 ون جی اور آرٹیکل 63 ون جی کی زبان ایک سی ہے، آرٹیکل 63 ون جی کے تحت ملکی سالمیت اور نظریے کی خلاف ورزی کرنے والے کی نااہلی 5 سال ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر ایک شخص کےخلاف مقدمہ ہو تو وہ 2 سال سزا کاٹ کر واپس آسکتا ہے مگرایک شخص کےخلاف مقدمہ نہ ہو بلکہ ڈیکلیئریشن آجائے تو وہ دوبارہ آہی نہیں سکتا۔

اگر 2002 میں قائد اعظم ہوتے تو وہ بھی نااہل ہوتے: چیف جسٹس

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا کوئی شخص حلفیہ طور پر کہہ سکتا ہے کہ وہ اچھے کردار کا مالک ہے؟ اگر 2002 میں قائد اعظم ہوتے تو وہ بھی نااہل ہوتے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ جب غیر منتخب لوگ قوانین بنائیں گے تو ایسے ہی ہو گا۔

"ایک مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کیسے آئین میں اہلیت کا معیار مقرر کرسکتا ہے؟"

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جس فوجی آمر نے 1985 میں آئین کو روندا اسی نے آرٹیکل 62 اور 63 کو آئین میں شامل کیا، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سوال یہ بھی ہے کہ اٹھارہویں ترمیم میں آرٹیکل 62 اور 63 پر مہر لگائی، چیف جسٹس نے کہا کہ ایک مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کیسے آئین میں اہلیت کا معیار مقرر کرسکتا ہے؟ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ سپریم کورٹ صرف صوبوں کے مابین تنازعات پر ڈیکلریٹو فیصلہ دے سکتی ہے۔

درخواست گزار ثنا اللہ بلوچ نے کہا کہ 50 سال سے قانون میں اراکین کی اہلیت کا معیار طے ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پھر اس سے پہلے کوئی 62 ون ایف کے تحت نااہل کیوں نہ ہوا؟ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ جھوٹ بولنے پر سزا تاحیات ہے، قتل یا غداری پر سزا محدود ہے اور وہ الیکشن بھی لڑسکتا ہے یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے۔

"صادق اور امین کے الفاظ کوئی مسلمان اپنے لئے بولنے کا تصور نہیں کر سکتا"

چیف جسٹس نے دوران سماعت ریمارکس دیئے کہ اسلامی معیار کے مطابق تو کوئی بھی اعلیٰ کردار کا مالک ٹھہرایا نہیں جا سکتا، آرٹیکل 62 کی وہ ذیلی شقیں مشکل پیدا کرتی ہیں جو اہلیت سے متعلق ہیں، صادق اور امین کے الفاظ کوئی مسلمان اپنے لئے بولنے کا تصور نہیں کر سکتا۔

"کیا اچھے کردار کے بارے میں وہ ججز فیصلہ کریں گے جو خود انسان ہیں؟"

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا ہے کہ کردار کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اسراف کرنے والا نہ ہو، ہم روز بجلی پانی کا اسراف کرتے ہیں، کیا اچھے کردار کے بارے میں وہ ججز فیصلہ کریں گے جو خود انسان ہیں؟

چیف جسٹس نے مخدوم علی خان کو روسٹرم پر بلا لیا، جہاں انہوں نے کہا کہ میں موجودہ کیس میں جہانگیز خان ترین کا وکیل ہوں، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو عدالتی معاون مقرر کرنے کا سوچ رہے تھے لیکن آپ پہلے ہی ہمارے سامنے فریق ہیں، یہ بتائیں کہ آرٹیکل 62 میں یہ شقیں کب شامل کی گئیں؟ جس پر مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ آرٹیکل 62 آئین پاکستان 1973 میں سادہ تھا، آرٹیکل 62 میں اضافی شقیں صدارتی آرڈر 1985 سے شامل ہوئیں۔

کیا ضیاء الحق کا اپنا کردار اچھا تھا؟ چیف جسٹس

چیف جسٹس نے کہا کہ یعنی ضیاء نے یہ کردار سے متعلق شقیں شامل کرائیں، کیا ضیاء الحق کا اپنا کردار اچھا تھا؟ ستم ظریفی ہے کہ آئین کے تحفظ کی قسم کھا کر آنے والے خود آئین توڑ دیں اور پھر یہ ترامیم کریں۔

جہانگیر ترین کے وکیل نے کہا کہ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت تاحیات مقرر کرنے والے جج نے فیصل واوڈا کیس میں اپنی رائے تبدیل کی۔

سماعت ملتوی

بعد ازاں کیس کی سماعت 4 جنوری ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کردی گئی، عدالت نے حکم نامے میں کہا کہ 11 جنوری تک کیس پر سماعت مکمل کر لیں گے، ہم اس کیس میں عدالتی معاون بھی مقرر کریں گے، اگر کوئی سینئر وکیل عدالتی معاونت کرنا چاہے تو کر سکتا ہے، تمام وکلا ویڈیو لنک کے بجائے اسلام آباد میں پیش ہوں۔