اسلام آباد: (دنیا نیوز) سپریم کورٹ نے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ سے متعلق کیس کے فیصلے میں سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصیر اور ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی نظر ثانی کی درخواستیں خاری کر دیں۔
ڈپٹی سپیکر کی رولنگ سے متعلق عدالتی فیصلے پر نظرثانی کیس کی سماعت کے دوران جسٹس منصورعلی شاہ نے سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کے وکیل نعیم بخاری سے استفسار کیا کہ کیا آپ کیس چلانا چاہتے ہیں؟
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا بخاری صاحب آپ اکیلے رہ گئے ہیں جس پر نعیم بخاری نے جواب دیا تو کیا میں بھی چلا جاؤں؟ نعیم بخاری کے جواب پر کمرہ عدالت میں قہقہے لگ گئے۔
وکیل نعیم بخاری نے کہا لوگ اکثر میری حس مزاح کو غلط سمجھ لیتے ہیں جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا میں آپ کی حس مزاح کو غلط نہیں سمجھوں گا، نعیم بخاری نے کہا تو اب مجھے لوگ جنازوں پر بھی نہیں بلاتے، کہتے ہیں کہیں مردہ زندہ ہوکر لطیفہ سنانے کا نہ کہہ دے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا آپ اب کیا چاہتے ہیں؟ جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ میں چاہتا ہوں ڈپٹی سپیکر رولنگ پر عدالتی فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے، عدالت مجلس شوریٰ پارلیمنٹ کے معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتی، جسٹس منیب اختر کے سوالات خوش آئند لیکن خوفناک ہوتے ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا مجھے سوال پوچھ تو لینے دیں، آپ پہلے ہی ڈرا رہے ہیں، سپیکر و ڈپٹی سپیکر کے اختیارات عام نہیں ہوتے، وہ محض افسران نہیں ہوتے جبکہ جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا وہ قانون دکھا دیں جس کے تحت سپیکر یا ڈپٹی سپیکر کو اختیارات دیئے گئے ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا آپ آرٹیکل 69 ٹو سے آگے نہیں بڑھ پا رہے جبکہ جسٹس مندوخیل نے کہا رولنگ ہونا چاہیے تھی کہ تحریک عدم اعتماد پر کارروائی 7 دن کے اندر مکمل ہو۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا یہ غلط فہمی پیدا کی گئی کہ عدلیہ پارلیمنٹ کے امور میں مداخلت نہیں کر سکتی، جہاں آئینی خلاف ورزی ہو وہاں سپریم کورٹ پارلیمنٹ کا معاملہ دیکھ سکتی ہے۔
وکیل نعیم بخاری نے کہا آرٹیکل 69 کی زیلی شق 2 کے تحت سپیکر ذاتی اقدام کا جوابدہ نہیں جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا ہم نظرثانی درخواست سن رہے ہیں، یہ نکتہ کسی آزادانہ کیس میں اٹھائیں، تسلی رکھیں ڈپٹی سپیکر رولنگ فیصلہ سپیکر یا ڈپٹی سپیکر کی ذات کے خلاف نہیں ہے۔
سپریم کورٹ نے دلائل سننے کے بعد اسد قیصر اور قاسم سوری کی ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کے خلاف عدالتی فیصلے پر نظرثانی کی درخواستیں خارج کر دیں اور کہا کہ ڈپٹی سپیکر رولنگ فیصلے کے خلاف نظرثانی کی کوئی بنیاد نہیں بنتی۔