اسلام آباد: (دنیانیوز) سپریم کورٹ نے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی ( ایف آئی اے) کو صحافیوں کو جاری کیے گئے نوٹسز فوری واپس لینے کا حکم دے دیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی ، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بنچ میں شامل ہیں ۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان، صدر پریس ایسوسی ایشن سپریم کورٹ عقیل افضل عدالت میں پیش ہوئے جبکہ جن صحافیوں کو نوٹسز جاری کئے گئے وہ بھی عدالت کے سامنے پیش ہوئے ۔
سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کتنے کیسز ہیں؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ یہ 4 درخواستیں ہیں جن میں قیوم صدیقی اور اسد طور درخواستگزار ہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا جرنلسٹ ڈیفنس کمیٹی کے پاکستان بار کے نمائندے موجود ہیں؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جرنلسٹ ڈیفنس کمیٹی اب ختم ہو چکی۔
اس دوران وکیل حیدر وحید نے کہا کہ ہم نے وفاقی حکومت کو آزادی اظہار رائے کو ریگولیٹ کرنے کا حکم دینے کی درخواست کی تھی، اس پر چیف جسٹس نے حیدر وحید سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ آپ کی درخواست بعد میں دیکھیں گے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سب سے پہلے تو قیوم صدیقی بتائیں کہ کیس خود چلانا ہے یا پریس ایسوسی ایشن کے صدر دلائل دیں گے؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ قدرت کا نظام دیکھیں کہ ہم نے ازخود نوٹس کورٹ نمبر 2 میں لیا لیکن معاملہ 5 رکنی بنچ کے پاس ازخود نوٹس کے اختیار کے لیے چلا گیا، 5 رکنی بنچ نے طے کیا کہ 184 (3) کا ازخود نوٹس لینے کا اختیار صرف چیف جسٹس کا ہے۔
انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ صحافیوں کی ہی نہیں، ججز کی بھی آزادی اظہار رائے ہوتی ہے۔
صحافی عبدالقیوم صدیقی نے کہا کہ میں کچھ حقائق سامنے رکھنا چاہتا ہوں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ نے تو کہا تھا کہ آپ اس کیس کو چلانا نہیں چاہتے؟
عبدالقیوم صدیقی نے کہا کہ جب معاملہ جسٹس اعجازالاحسن کے بنچ میں گیا تو کہا تھا کہ کیس نہیں چلانا چاہتا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ نے کیس نمٹانے کے بجائے 2021 سے سرد خانے میں رکھ دیا، بتائیں کہ تب کیا درخواست تھی آپ کی اور اب کیا ہے؟
دورانِ سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بار بار کہہ رہا ہوں کب تک ماضی کی غلطیوں کو دہرائیں گے، ہم تو غلطیاں تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں، یہاں تو بس موقع دیکھا جاتا ہے۔
انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ میں سب غلطیاں اپنے سر پر اُٹھاؤں، بالکل نہیں اُٹھاؤں گا، مجھ سے غلطی ہوئی ہے تو مجھ پر اُنگلی اٹھائیں، اگر اُنگلی نہیں اٹھائی تو میری اصلاح نہیں ہو گی، تنقید کریں گے تو میری اصلاح ہوگی۔
اسد طورکی درخواست واپس لینے کی استدعا
چیف جسٹس نے اسد طور سے استفسار کیا کہ آپ پر تشدد ہوا، کیا اُن کا پتا چلا کہ کون لوگ تھے؟ کیا آپ ان کی شکلیں پہچان سکتے ہیں؟ اسد طور نے جواب دیا کہ جی بالکل، میں ان کی شکلیں پہچان سکتا ہوں، دریں اثنا اسد طور نے درخواست واپس لینے کی استدعا کردی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا آپ نے جھوٹا الزام لگایا ہے؟ اگر آپ پر دباؤ ہے تو ہم آپ کو پیچھے نہیں ہٹنے دیں گے۔
اسد طور نے کہا کہ میں ایف آئی آر کو ’اون‘ کر رہا ہوں لیکن اس درخواست میں مجھے غیر ضروری طور پر شامل کیا گیا ، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اسد طور صاحب! آپ کی مرضی نہیں ہے کہ ٹہلتے ہوئے آئیں اور کہیں کہ اپنی درخواست واپس لے رہا ہوں۔
یہاں مٹی پاؤنظام چل رہاہے : چیف جسٹس
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ہم یقینی بنائیں گے کہ پاکستان کا ہر صحافی جو لکھنا چاہے وہ آزادی کے ساتھ لکھ سکے، صحافیوں کو ہراساں کرنے کیخلاف کیس سرد خانے میں چلا گیا۔
انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ ہم کب تک ماضی کی غلطیوں کو دہراتے رہیں گے، ہمیں سچ بولنا چاہیے، اگر ہم سے غلطی ہوئی تو انگلی اٹھائیں، یہاں مٹی پاؤ نظام چل رہا ہے، جب تک کسی کو قابل احتساب نہیں ٹھہرائیں گے ایسا ہوتا رہے گا۔
سپریم کورٹ کا ایف آئی اے کے نوٹسز فوری واپس لینے کا حکم
دریں اثنا سپریم کورٹ نے صحافیوں کے خلاف ایف آئی اے کے نوٹسز فوری واپس لینے کا حکم دے دیا ، چیف جسٹس نے حکم دیا کہ تنقید کی بنا پر صحافیوں کو جاری نوٹس فوری واپس لیے جائیں۔
انہوں نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ گالی گلوچ الگ بات ہے، ایف آئی اے تنقید کی بنا پر کارروائی نہ کرے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ تنقید روکنے کے سخت خلاف ہوں، آزادی صحافت آئین میں ہے، میرا مذاق بھی اڑائیں مجھے کوئی فکر نہیں، اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ تنقید روک کر میرا یا سپریم کورٹ کا فائدہ کر رہے ہیں تو آپ ہمارا نقصان کر رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ جن صحافیوں کے خلاف تنقید پر نوٹس جاری ہوئے ہیں انہیں فوری واپس لیا جائے ، صحافی اگر عدالتی فیصلوں ہر تنقید کرتے ہیں تو کریں لیکن کسی کو تشدد پر اکسانے یا دیگر انتشار پھیلانے کا معاملہ الگ ہے، کسی بھی صحافی یا عام عوام کو بھی تنقید کرنے سے نہیں روک سکتے۔
صحافیوں پرتشدد کیخلاف رپورٹ 2 ہفتے میں طلب
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ خواتین پولیو ڈراپس پلانےجاتی ہیں، انہیں مار دیا جاتا ہے، جڑانوالہ کرسچن کمیونٹی کی پوری بستی کو جلا دیاجاتا ہے، تعلیم حاصل کرنے والی خواتین پر تشدد اور ان کے سکولوں پر بم مارے جاتے ہیں۔
انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ فتویٰ دے دیا جاتا ہے کہ خواتین الیکشن میں ووٹ کاسٹ نہیں کرسکتی، فتویٰ دینے والے کو کیوں گرفتار نہیں کیا گیا؟ کیوں مقدمہ درج نہیں کیا گیا؟ ان سے بدتر اور منفی سوچ کسی کی نہیں ہوسکتی، یہ نفرت پھیلاتے اور قبرستانوں تک کو نہیں چھوڑتے، یہ اب اژدھے بن چکے ہیں۔
چیف جسٹس نے صحافیوں پر مقدمہ درج کرنے سے روکتے ہوئے ریمارکس دیے کہ حکومتِ پاکستان کی طرف سے اٹارنی جنرل بیان حلفی دیں گے کہ تنقید پر کسی کی گرفتاری نہیں ہوگی ، اس تمام معاملے میں صحافیوں کا خصوصی خیال رکھا جائے، آئینِ پاکستان تنقید کی اجازت دیتا ہے، ہم اس کیس کو کل چلائیں گے۔
دریں اثنا سپریم کورٹ نے آج کی سماعت کا حکم نامہ لکھواتے ہوئے اسد طور، مطیع اللہ جان، عمران شفقت اور عامر میر پر تشدد کے خلاف کارروائی پر رپورٹ طلب کرلی۔
حکم نامے میں عدالت کی جانب سے استفسار کیا گیا کہ بتایا جائے کہ مقدمات میں اب تک کیا پیش رفت ہوئی ہے؟ وفاقی حکومت صحافیوں پر تشدد کے خلاف رپورٹ 2 ہفتے میں فراہم کرے۔
حکم نامے میں مزید ریمارکس دیے کہ تفتیشی افسر یقینی بنائے کہ صحافیوں کو ایف آئی اے کی جانب سے جاری نوٹسز سے آگاہ کیا گیا، بتایا گیا کہ نوٹسز عدالت کو تنقید کا نشانہ بنانے پر جاری کیے گئے ہیں، تنقید کرنا ہر شہری اور صحافی کا حق ہے۔
سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ معاملہ صرف تنقید تک ہے تو کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی جائے، اٹارنی جنرل نے حکومت کی جانب سے تنقید پر کارروائی نہ کرنے کی یقین دہانی کروادی۔
عدالت نے طلب کیے گئے صحافیوں کےخلاف کسی بھی قسم کی کارروائی سے روک دیا اور ڈی جی ایف آئی اے کو صحافیوں کے ساتھ ملاقات کرنے کی ہدایت کر دی۔
عدالت نے حکم نامے میں ایف آئی اے حکام سے بھی سوال کیا کہ صحافیوں کو کیوں بلایا گیا ہے؟
عدالت عظمٰی نے صحافیوں کو ہراساں کرنے کے خلاف ازخود نوٹس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پریس ایسوسی آف سپریم کورٹ (پاس) اور ہائی کورٹ جرنلسٹ ایسوسی ایشن کے ایک اعلامیے کا نوٹس لیا ہے جس میں دونوں تنظیموں نے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی طرف سے درجنوں صحافیوں کو نوٹسز بھجوانے پر اظہار تشویش کیا گیا تھا۔